افغانستان کے لیے امریکا کے نئے کمانڈر کا تقرر
جنرل ملر افغانستان میں موجود 13000 سے زائد امریکی فوجیوں کی کمان بھی کریں گے
امریکا کے لیفٹیننٹ جنرل آسٹن ملر کو افغانستان کے لیے نیا امریکی کمانڈر مقرر کیا گیا ہے جنہوں نے گزشتہ روز کمانڈ سنبھال لی۔ ان کی نہایت مشکل ذمے داریوں میں نہ صرف افغانستان میں موجود جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر کے انھیں شکست دینا ہے بلکہ انھیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنا بھی ہے۔ نیٹو کی قیادت میں کیے جانے والے آپریشن کے انچارج ہونے کی حیثیت سے جنرل ملر کی پاکستان کی عسکری قیادت کے ساتھ باقاعدگی سے رابطہ رکھنا بھی معمول میں شامل ہو گا۔
اس سال جون کے مہینے میں جنرل ملر کی نئی ذمے داریوںکا اعلان ہوا جس موقعے پر انھوں نے کہا کہ انھیں پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان کے امن کے لیے کام کرنے میں کامیابی کی بہت امید ہے کیونکہ انھیں اسی توقع کے ساتھ وہاں بھیجا جا رہا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جنرل ملر افغانستان میں موجود 13000 سے زائد امریکی فوجیوں کی کمان بھی کریں گے۔
نیز نیٹو کی قیادت میں جاری مشن کی نگرانی کرتے ہوئے افغان فوج کو تربیت بھی فراہم کریں گے۔ ان کا سب سے مشکل کام طالبان کو امن مذاکرات میں شرکت کے لیے آمادہ کرنا ہو گا۔ جنرل ملر نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو بھی کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی اب تک کے تمام نشیب وفراز کے جائزے کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکی فوج کی طالبان کے خلاف مکمل کامیابی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ البتہ کسی محاذ پر طالبان کو شکست بھی دی جا سکتی ہے۔
واضح رہے ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ جنرل ملر اپنے ہدف کو فوجی ذرایع کے ساتھ ساتھ سفارت کاری سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جنرل ملر نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے فوجی طالبان کو یہ باور کرا دیں کہ وہ امریکی فوج سے جیتنے کی امید ختم کر دیں بلکہ ان کے لیے واحد راستہ ہی ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ میز پر بیٹھ کر بات چیت کریں اور کوشش کی جائے کہ وہ دونوں کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ امریکا کے ذرایع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں فضائی حملوں میں اضافہ کر رہا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی جنرل ملر نے کہا ہے کہ وہ امریکا کو اپنی کارروائیوں کی کامیابی کے بارے میں کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صرف عسکری چیلنج نہیں ہیں بلکہ کرپشن اور نااہلی کا چیلنج بھی موجود ہے۔57 سالہ امریکی کمانڈر افغانستان میں جنرل جان نکلسن سے چارج لیں گے۔ پاکستان کو بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
اس سال جون کے مہینے میں جنرل ملر کی نئی ذمے داریوںکا اعلان ہوا جس موقعے پر انھوں نے کہا کہ انھیں پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان کے امن کے لیے کام کرنے میں کامیابی کی بہت امید ہے کیونکہ انھیں اسی توقع کے ساتھ وہاں بھیجا جا رہا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق جنرل ملر افغانستان میں موجود 13000 سے زائد امریکی فوجیوں کی کمان بھی کریں گے۔
نیز نیٹو کی قیادت میں جاری مشن کی نگرانی کرتے ہوئے افغان فوج کو تربیت بھی فراہم کریں گے۔ ان کا سب سے مشکل کام طالبان کو امن مذاکرات میں شرکت کے لیے آمادہ کرنا ہو گا۔ جنرل ملر نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو بھی کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کی اب تک کے تمام نشیب وفراز کے جائزے کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکی فوج کی طالبان کے خلاف مکمل کامیابی ممکن نظر نہیں آرہی ہے۔ البتہ کسی محاذ پر طالبان کو شکست بھی دی جا سکتی ہے۔
واضح رہے ٹرمپ انتظامیہ چاہتی ہے کہ جنرل ملر اپنے ہدف کو فوجی ذرایع کے ساتھ ساتھ سفارت کاری سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جنرل ملر نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ ان کے فوجی طالبان کو یہ باور کرا دیں کہ وہ امریکی فوج سے جیتنے کی امید ختم کر دیں بلکہ ان کے لیے واحد راستہ ہی ہے کہ وہ کابل حکومت کے ساتھ میز پر بیٹھ کر بات چیت کریں اور کوشش کی جائے کہ وہ دونوں کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ امریکا کے ذرایع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا افغانستان میں فضائی حملوں میں اضافہ کر رہا ہے تاہم اس کے ساتھ ہی جنرل ملر نے کہا ہے کہ وہ امریکا کو اپنی کارروائیوں کی کامیابی کے بارے میں کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صرف عسکری چیلنج نہیں ہیں بلکہ کرپشن اور نااہلی کا چیلنج بھی موجود ہے۔57 سالہ امریکی کمانڈر افغانستان میں جنرل جان نکلسن سے چارج لیں گے۔ پاکستان کو بھی اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔