کوئٹہ میں پانی کا بحران
عید کے موقعے پر ٹینکرمافیا 5000روپے فی ٹینکر تک وصول کرتا رہا
بلوچستان حکومت نے کوئٹہ میں پانی کی شدید قلت کے باعث پانی کی ایمرجنسی لگا دی ہے تاہم صوبے کے حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کے لیے اس اعلان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ صوبائی دارالحکومت کے بہت سے علاقے کئی مہینوں سے پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ گھروں میں استعمال کے لیے انھیں ٹینکروں کے ذریعے لائے جانے والے بے حد مہنگے پانی پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اس بڑی عید کے موقعے پر ٹینکرمافیا 5000روپے فی ٹینکر تک وصول کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی فراہمی میں بھی بہت کمی ہے جب کہ موسم کی شدت کے باعث درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں صارفین کو پانی کے منہ مانگے دام دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ علاقے میں قحط سالی کی کیفیت ہے۔ شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہنہ نامی جو جھیل تھی طویل خشک سالی کے نتیجے میں وہ خشک ہو چکی ہے۔ وادی میں قطار در قطار لگے درخت بھی سوکھ ہوچکے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے جس سے ماحول کی آلودگی میں اور زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ آخر ہم اس خطرناک صورتحال تک کیسے پہنچے ہیں۔
اول تو قدرتی طور پر پانی کی کمی اور دوسرے پانی کے استعمال میں عدم احتیاط اور واٹر مینجمنٹ کی طرف سے غفلت نے ان سنگین حالات تک پہنچا دیا ہے۔ آبادی کی تعداد میں اضافے نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ زیرزمین پانی بھی مسلسل نیچے جا رہا ہے حالانکہ ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر پابندی لگی ہوئی ہے مگر اس پابندی کی خلاف ورزی بھی جاری ہے جس سے پانی دن بدن نیچے جا رہا ہے۔
قبل ازیں حکومت نے پٹ فیڈر نہر سے پانی شہر تک پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا تھا مگر یہ منصوبہ صرف کاغذوں تک محدود رہا جب کہ حالات بدستور خراب ہوتے رہے۔ اب تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ''پانی دو ووٹ لو''۔ نئی حکومت کو واسا اور پبلک ہیلتھ منسٹری کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئٹہ کا پانی کا بحران حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی اور جو منصوبہ بنایا جائے اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرائی جائے تب صورت حال قابو میں آئے گی۔
اس بڑی عید کے موقعے پر ٹینکرمافیا 5000روپے فی ٹینکر تک وصول کرتا رہا۔ اس کے ساتھ ہی بجلی کی فراہمی میں بھی بہت کمی ہے جب کہ موسم کی شدت کے باعث درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں صارفین کو پانی کے منہ مانگے دام دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کیونکہ علاقے میں قحط سالی کی کیفیت ہے۔ شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہنہ نامی جو جھیل تھی طویل خشک سالی کے نتیجے میں وہ خشک ہو چکی ہے۔ وادی میں قطار در قطار لگے درخت بھی سوکھ ہوچکے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے جس سے ماحول کی آلودگی میں اور زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ آخر ہم اس خطرناک صورتحال تک کیسے پہنچے ہیں۔
اول تو قدرتی طور پر پانی کی کمی اور دوسرے پانی کے استعمال میں عدم احتیاط اور واٹر مینجمنٹ کی طرف سے غفلت نے ان سنگین حالات تک پہنچا دیا ہے۔ آبادی کی تعداد میں اضافے نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ زیرزمین پانی بھی مسلسل نیچے جا رہا ہے حالانکہ ٹیوب ویلوں کی تنصیب پر پابندی لگی ہوئی ہے مگر اس پابندی کی خلاف ورزی بھی جاری ہے جس سے پانی دن بدن نیچے جا رہا ہے۔
قبل ازیں حکومت نے پٹ فیڈر نہر سے پانی شہر تک پہنچانے کا ایک منصوبہ بنایا تھا مگر یہ منصوبہ صرف کاغذوں تک محدود رہا جب کہ حالات بدستور خراب ہوتے رہے۔ اب تو لوگوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ''پانی دو ووٹ لو''۔ نئی حکومت کو واسا اور پبلک ہیلتھ منسٹری کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئٹہ کا پانی کا بحران حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی اور جو منصوبہ بنایا جائے اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرائی جائے تب صورت حال قابو میں آئے گی۔