سات سالہ نجمہ کاخط

انکل،میراگاؤں اَٹک شہرسے کافی آگے ہے۔ سرکاری اسکول میں پڑھتی ہوں

raomanzar@hotmail.com

انکل!میرانام نجمہ ہے۔ابھی صرف سات سال کی ہوں۔شروع شروع میں معلوم نہیں تھاکہ کون سے علاقے میں رہتی ہوں۔ گھرکے نزدیک ایک بہت بڑا دریاہے۔یہ ہروقت چلتارہتاہے۔ امی کہتی ہیں کہ دریاکے نزدیک بالکل نہیں جاناچاہیے۔اس میں بڑے بڑے جانورہوتے ہیں جوکنارے پرآکربچوں کوکاٹ لیتے ہیں۔مگر گاؤں کے سارے بچے اور بچیاں دریاکے کنارے خوب کھیلتے رہتے ہیں۔

ایک بارچھوٹے بھائی،اسلم کاپیرپھسل گیااور دریامیں گر گیا۔پہلے تواسکاسردورسے نظرآتارہا۔پھر پانی کے اندرچلاگیا۔بہت شورمچایا۔مگروہ شائدہم سے ناراض ہوگیاتھا۔واپس ہی نہیں آیا۔معلوم ہی نہیں ہواکہ کدھر گیا۔امی اورابوبہت روتے رہے۔امی نے کئی دن کھانا نہیں کھایا۔مگرمجھے پتہ ہے کہ وہ کدھر ہے۔ وہ تواللہ کے پاس ہے۔اس نے توبہت اچھے اچھے کپڑے پہنے ہوںگے کیونکہ وہ جنت میں ہے۔اسلم صرف چارسال کاتھا۔

انکل،میراگاؤں اَٹک شہرسے کافی آگے ہے۔ سرکاری اسکول میں پڑھتی ہوں۔ایک دن پرانے اخبارمیں گھرکے لیے سودالے کرآئی تواس میں بڑا سا اشتہارتھاکہ اسکولوں کو بہت اچھاکردیاگیاہے۔بہت سے پیسے لگاکر تمام سہولتیں مہیاکردی گئی ہیں۔ چار دیواری،اچھے کلاس رومز، فرنیچر سب کچھ بنا دیا گیا ہے۔مگرمیرے اسکول میں توکچھ بھی نہیں ہوا۔اس کی کوئی چاردیواری نہیں ہے۔ گائیں،بھینس،بکریاں اورگدھے،ساراوقت پھرتے رہتے ہیں۔ہاں،ایک بات بتاؤں۔اسکول میں بجلی ہے۔مگر اکثرنہیں ہوتی۔ ساری بچیاں،کمروں میں نہیں،بلکہ اسکول کے باہر، درختوں کے نیچے زمین پربیٹھ کرپڑھتی ہیں۔

آج کل اتنی گرمی ہوتی ہے کہ پڑھنے کودل نہیں چاہتا۔بس انتظار ہوتاہے کہ اُستانی جی کب چھٹی کاکہیں اورمیں گھر واپس چلی جاؤں۔چنددن پہلے،گرمی سے میرے ساتھ بیٹھی ہوئی سہیلی سلمہ بیہوش ہوگئی۔اُستانی جی نے اس کے چہرے پرپانی ڈالاتوپھربھی ہوش میں نہ آئی۔نزدیک کوئی اسپتال ہی نہیں ہے۔میراخیال تھا سلمہ اب زندہ نہیں رہی۔ مگروہ آدھے گھنٹے بعد خود ہی ہوش میں آگئی۔اُستانی جی نے لکھ کربھی بھجوایاکہ اسکول میں بجلی نہیں آتی۔مگروہ کہتی ہیں کہ ان کی کوئی بات ہی نہیں سنتا۔کئی بار تووہ پڑھاتے پڑھاتے رونا شروع کردیتی ہیں۔اُستانی جی بہت اچھی ہیں۔ہمیں سائنس،اُردو،انگلش سب پڑھاتی ہیں۔ اسکول میں اورکوئی ٹیچرہے ہی نہیں۔انکل،آپ ایسا کریں کہ کسی کو کہہ کرہمارے اسکول میں بجلی آنے کاانتظام کرا دیں۔

ایک دن اسکول میں لاہورسے بہت بڑے افسر آئے تھے۔انھوں نے بتایاکہ ہمیںسال میں دوبار نئے کپڑے اورجوتے ملیں گے۔ساری رات خوشی کی وجہ سے سوئی نہیں۔ بہت عرصے سے نئے کپڑے پہنے ہی نہیں۔ہم چار بہنیں ہیں۔دومجھ سے بڑی ہیں۔ میںتوان کے اُتارے ہوئے پرانے کپڑے پہنتی ہوں۔ہاں،ایک بارابوکوکچھ پیسے ملے تھے۔انھوں نے ہمیں بڑے خوبصورت نئے کپڑے بنوا کر دیے تھے۔انکل،ساری رات سوچتی رہی کہ اسکول میں جانے کے لیے نئے سرکاری کپڑے ملیں گے۔ مگرایک سال ہوگیا۔ کچھ نہیں ہوا۔اُستانی جی سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ بیٹی، افسروعدے توکرجاتے ہیں مگر کبھی پورا نہیں کرتے۔ کہنے لگیں کہ اس بڑے افسر کے اوپربھی ایک بڑاافسر ہے۔

اس نے کاغذوں میں لکھوالیاہے کہ سب بچوں کویونیفارم مل گئی ہے۔ حقیقت میں توہمیں کوئی یونیفارم نہیں ملی۔انکل، یہ لوگ ہم سے جھوٹی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ انھیں اللہ میاں سے ڈرکیوں نہیں لگتا۔ایک دن امی سے نئے کپڑوں کی بہت ضد کی توانھوں نے کہا،کہ بیٹا، جب ہم سارے جنت میں جائینگے تو"اللہ "ہمیں ڈھیر سارے نئے رنگ برنگے کپڑے دینگے۔ مسجد کے مولوی صاحب سے قرآن پڑھتی ہوں۔ ایک دن ان سے پوچھا کہ جنت میں کب جاؤنگی۔آپ ایسے کریں، اللہ میاں سے کہیں کہ مجھے فوری طورپرجنت میں بلالیں۔مولوی صاحب نے یہ باتیں سنکر منہ پھیرلیا۔ دیکھا کہ وہ سسکیاں لے لے کر رور ہے ہیں۔ وہ کیوں رورہے تھے۔ میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔

ہاں انکل،ایک بہت ضروری بات ہے۔ ہمارے گاؤں میں سرکاری ٹنکی کاپانی نہیں آتا۔محلے کے آخرمیں ایک نلکالگاہواہے۔عجیب وغریب سا۔ چارسال پہلے، دو انگریز آئے تھے اورنلکا لگواکرچلے گئے۔اس سے پہلے،ہم لوگ کنویں سے پانی پیتے تھے۔نلکالگنے سے ہمیں اچھاپانی ملنے لگاہے۔مگروہاں قطاربڑی لمبی ہوتی ہے۔امی نے سب بچوں کی باریاں لگائی ہوئی ہیں۔ہم ایک ٹین کے ڈبے میں پانی ڈال کرگھرلاتے ہیں۔پرانکل،اس سے پہلے، جس کنویں سے ہم پانی پیتے تھے،اس میں چھوٹے چھوٹے سے کیڑے ہوتے تھے۔امی،پانی کوچھان لیتی تھیں۔مگرہم لمبے عرصے تک وہی گنداپانی پیتے رہے ہیں۔


گاؤں میں بہت سے ایسے لوگ ہیں،جنکے بدن سے کیڑے نکلتے ہیں۔ وہ کھینچ کھینچ کراپنے بدن کے سوراخوں سے کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ دردسے روتے ہیں۔انکل،آپ ہمارے ملک کے بادشاہ کو کہیں کہ انکاعلاج تو کروادیں۔ بابا، بتایاکرتے تھے کہ ہمارے صوبے کابادشاہ لاہورمیں بیٹھتا ہے۔ انکل، آپ انھیں ملیں اوربتائیں کہ نجمہ کہہ رہی تھی کہ وہ ہمارے گاؤں ضرورآئیں۔سناہے،جب بادشاہ کہیں جاتا ہے، تو ہر چیز فوری طورپرٹھیک ہوجاتی ہے۔آپ انھیں ضرورکہیں، ضرور۔

انکل،پچھلی گرمیوں کی چھٹیوں میں اُستانی جی نے کہا کہ اسلام آبادچلتے ہیں۔سب نے اپنی اپنی عیدی جمع کی ہوئی تھی۔اُستانی جی نے بس کرائے پرلی اور وہاں چلے گئے۔جیسے ہی ہم اسلام آبادکے نزدیک پہنچے۔ساری سڑکیں چوڑی ہوگئیں۔اچھے اچھے درخت،سڑک کے کنارے پر لگے ہوئے تھے۔وہاں، ساری بچیاں ایک خالی اسکول میں رات رہے۔اُستانی جی نے انتظام کرالیاتھا۔ پچیس بچیاں ایک ہی کمرے میں سوگئے۔صبح جب بس میں بیٹھ کراسلام آباد گھومنے گئے توحیران رہ گئے۔اتنی بڑی بڑی عمارتیں، لمبی لمبی چمکتی ہوئی گاڑیاں،صاف ستھرے لوگ اور آنٹیاں۔ بچوں نے بھی بڑے اچھے کپڑے پہن رکھے تھے۔

کھانے پینے کے بڑے بڑے ہوٹل تھے۔ اُستانی جی سے پوچھاکہ اسلام آباد،پاکستان کاشہرہے یاہم سارے کسی اورملک میں ہیں۔اُستانی جی نے دھیمی آوازمیں کہاکہ بیٹا، یہ شہرہے تو پاکستان میں ہی ہے،مگراسکاباقی ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ پتہ نہیں،یہ کیساجواب تھا۔ہماراگاؤں بھی تو پاکستان میں ہے۔تویہ اسلام آبادکی طرح کیوں نہیں ہوسکتا۔میرے سوال کاکوئی جواب ہی نہیں دیتا۔خیال ہے کہ اُستانی جی کو پتہ نہیں ہے۔اسلام آبادہمارے ملک میں نہیں ہے۔یہ کسی اورملک کاشہرہے۔بھلایہ کیسے ہوسکتاہے کہ ہمارے گاؤں کی گلیاں کچی ہوں،پینے کاپانی بھی نہ ہو اوریہاں ہرچیز ہو۔ایک ملک ہے توہرسہولت،یکساں ہونی چاہیے۔ ضرور، اُستانی جی کوکسی نے غلط بتادیاہے۔اسلام آباد، ہرگز ہرگز ہمارے ملک میں نہیں ہے۔ گاؤں جاکر مولوی صاحب سے پوچھونگی۔وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ضرور بتادینگے۔

انکل،ہمارے گاؤں کے اردگردبہت سے کھیت ہیں۔ان میں سے اکثررنگ برنگے سانپ نکلتے رہتے ہیں۔ میری سہیلی کے ابو،جنگل میں بکریاں چرارہے تھے تو انھیں واپسی پرسانپ نے کاٹ لیا۔بڑی مشکل سے گھر پہنچے۔ گاؤں کے اسپتال لے کرگئے تووہاں تالالگا ہواتھا۔ چوکیدار نے کہاکہ ڈاکٹر صاحب، ہفتے میں صرف ایک دن آتے ہیں۔آج ہی شہرواپس گئے ہیں۔لہذااب کچھ نہیں ہوسکتا۔ ڈسپنسربھی نہیں تھا۔سانپ کے کاٹنے سے ان کی ٹانگ بہت زیادہ سوج گئی تھی۔نیلی ہوگئی تھی۔ ایسے لگتاتھاکہ کسی نے ٹانگ پرگہرا نیلارنگ کردیاہے۔بیہوش ہوچکے تھے۔

ہمارے گاؤں میں ایک بڑاامیرآدمی رہتاہے۔اس کے پاس ایک بڑاساچنگ چی رکشہ ہے۔ روزچارپانچ سوروپے کی کمائی ہوتی ہے۔سہیلی کے ابوکو،وہ رکشہ میں ڈال کرگاؤں سے پندرہ میل دوربڑے اسپتال میں لے کرگیا۔وہاں ڈاکٹر تھے۔ پر پتہ چلاکہ سانپ کے کاٹنے والی دوائی ایک سال سے ختم ہوگئی ہے۔ لاہور سے دوائی آئی ہی نہیں۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیاکہ مریض کو اَٹک کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں لے جائیں۔ وہ چالیس میل دور تھا۔ پہنچتے پہنچتے،چارگھنٹے مزید گزر گئے۔ سہیلی کے ابو،دوائی نہ ملنے کی وجہ سے دنیاسے چلے گئے۔ امی،ان کے گھرگئی اوردیرتک روتی رہی۔شائدغریب لوگ رونے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ سہیلی نے بتایاکہ اس نے خواب میں اپنے ابوکودیکھاہے۔

انھوں نے سفیدکپڑے پہنے ہوئے تھے۔ بڑے خوش نظرآرہے تھے۔کہہ رہے تھے کہ یہ جگہ، ہمارے گاؤں سے بہت بہترہے۔اورہاں،میں نے آتے ہی اللہ میاں سے شکایت کی ہے کہ ہمارے اسپتالوںمیں سانپ کے زہرکوختم کرنے والی دوائی کیوں نہیں ہے۔سہیلی بتارہی تھی کہ اللہ میاں نے شکایت سنکر صرف یہ کہا،کہ جس ملک کے لوگ بذات خودٹھیک نہ ہونا چاہیں۔ہروقت منافقت کریں۔جھوٹ بولیں،ریاکاری کریں۔ان کے لیے کچھ نہیں کیاجاسکتا۔کیونکہ وہ اپنے دشمن خود ہیں۔ایسے لوگ، خداکی رحمت کونہیں بلکہ غصے کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔سہیلی کہتی ہے،کہ پھراس کے ابو خاموش ہوگئے۔اس نے بھی دعاکی کہ اللہ میاں،مجھے بھی اپنے ابوکے پاس بلوالیں۔یہ جگہ ہمارے گاؤں سے بہترہے۔

انکل،میرے باباٹرک ڈرائیورتھے۔بہت اچھے تھے۔ہروقت ہماراخیال کرتے تھے۔ان کے ٹرک کا ایکسیڈنٹ ہوااورحادثے میں ان کی ٹانگیں ضایع ہوگئیں۔ اب وہ چل پھرنہیں سکتے۔گھرپرہی رہتے ہیں۔ ہر وقت امی اورابوکی لڑائی ہوتی رہتی ہے۔امی چند گھروں میں کام کرکے کچھ پیسے کمالیتی ہے۔ہم دن میں صرف ایک وقت کھاناکھاتے ہیں۔امی توکئی بار، ایک وقت بھی کھانا نہیں کھاتی۔کیونکہ اکثر کھاناختم ہوجاتاہے۔میں اپناآدھاکھاناامی کوزبردستی کھلاتی ہوں۔انکل،آپ میراصرف ایک کام کر دیں۔ میری ساری باتیں ملک کے بادشاہ کو بتادیں۔شائد ہمارے حالات بہترہوجائیں۔شائدہمیں بھی زندہ رہنے کے لیے بنیادی سہولتیں مل جائیں۔وعدہ کریں۔آپ کسی بڑے انکل سے یہ باتیں ضرورکرینگے!
Load Next Story