امریکا کے عزائم
وزیر اطلاعات نے کہا کہ دورہ جی ایچ کیو کا آغاز ہی بہت مثبت تھا اور اختتام بھی بہت مثبت ہوا
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم جس پالیسی کا فیصلہ کریں گے فوج اس کو مکمل فالو کرے گی۔ وزیراعظم عمران خان دورہ جی ایچ کیو سے بہت مطمئن ہیں۔ جی ایچ کیو کے دورے میں ساڑھے سات گھنٹے مختلف امور پر بریفنگ ہوئی۔ اس بریفنگ میں آرمی چیف نے بہت کھلے دل سے کہا کہ پاکستان میں تاثر ہے کہ فوج کئی دفعہ سویلین حکومت کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے لیکن یقین کیجیے سویلین حکومت جو پالیسی دے گی فوج مکمل طور پر اس کا ساتھ دے گی۔ وزیراعظم جس پالیسی کا فیصلہ کریں گے فوج اس کو مکمل فالو کرے گی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ دورہ جی ایچ کیو کا آغاز ہی بہت مثبت تھا اور اختتام بھی بہت مثبت ہوا۔ فوج نے وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ پاکستان میں دہشتگردی کہاں سے ہو رہی ہے اس کے شواہد بھی سامنے لائے گئے۔ وزیراعظم کو پالیسی فیصلوں کے لیے تمام تر ضروری پس منظر سے آگاہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ فوج اور سول حکومت نہ صرف ایک صفحہ پر ہے بلکہ کتاب بھی ایک ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا جس طرح جی ایچ کیو استقبال کیا گیا سکی پہلے مثال نہیں ملتی۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا خطے میں امریکا اور پاکستان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ 5 ستمبر کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایک سینئر آفیسر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان کو بھارت کے ساتھ تعلقات بنانے کا موقعہ دینا چاہتی ہے۔ یہ صاحب امریکا کے نائب وزیر دفاع ہیں۔
ہم عمران خان کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے مواقع تلاش کریں۔ اس کے بعد آرمی چیف کے اس فقرے میں معنی کا سمندر پنہاں ہے جو انھوں نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ جی ایچ کیو کے موقع پر کہا کہ ''وزیراعظم جس پالیسی کا فیصلہ کریں گے فوج اس کو مکمل فالو کرے گی اور مکمل طور پر اس کا ساتھ دے گی۔'' ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اسلام آباد پہنچے۔ یہ کسی بھی غیر ملکی عہدیدار کا پہلا دورہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اس مشکل گھڑی میں ایران کے ساتھ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی وزیر خارجہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کشمیریوں کے جائز حق خود ارادیت کے لیے حمایت اور جس انداز میں اس دفعہ ایران میں پاکستان کا یوم آزادی منایا گیا اس پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا شکریہ ادا کیا۔صورت حال اس وقت انتہائی غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ اس وقت غیر ملکی اہم شخصیات کی آمد مستقبل قریب میں خطے کی صورتحال پر انتہائی فیصلہ کن صورتحال مرتب کرے گی۔ امریکا نے کہا ہے کہ وہ ایرانی تیل کی برآمد کو صفر پر لے آئے گا۔
ایران ہو یا پاکستان اس وقت دونوں شدید امریکی دباؤ میں ہیں۔ امریکا ایرانی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے حالانکہ یہ کوشش تو وہ پچھلے چالیس سال سے کررہا ہے لیکن وہ مسلسل ناکام ہے۔ ماضی میں بھی امریکا نے ایران پر سخت معاشی پابندیاں لگائی تھیں۔ اس کی خواہش تھی کہ ایرانی عوام سڑکوں پر آکر اپنی حکومت کا تختہ الٹ دیں لیکن ہوا اس کا الٹ کہ ایرانی عوام امریکا کے خلاف مزید متحد ہوگئے۔
لیکن اس دفعہ امریکا کے تیور انتہائی خطرناک ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی سربراہی امریکی جنگجو اسٹیبلشمنٹ کسی بھی سرخ لائن کو عبور کرسکتی ہے چاہے اس کے نتیجے میں یہ خطہ آگ کا گولہ بن جائے۔ سابق امریکی صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ یہ اتنی بڑی حماقت ہوگی کہ دنیا خاص طور پر ہمارا خطہ اگلے تیس سے چالیس سال جہنم کا منظر پیش کرے گا۔ ایران پر حملہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگا۔ موجودہ ایرانی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں خطے کا کنٹرول مکمل طور پر امریکا کے ہاتھ میں آجائے گا۔روس اور چین بھی اس کے شدید متاثرین میں ہوں گے۔
شام میں روسی جنگی اڈے کے خاتمے کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ سے روسی اثرو رسوخ کا خاتمہ ہونے کے نتیجے میں امریکی غلامی پورے خطے اور دنیا پر پھر سے مسلط ہوجائے گی۔ سی پیک کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس طرح پوری دنیا میں پھیلتا ہوا چینی اثرورسوخ جو امریکی بالادستی کا خاتمہ کرکے ان ملکوں کو آزاد کردے گا جو اس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
لیکن چینی سی پیک کے خاتمے کے بعد امریکا ان ممالک کو کڑی سزا دے گا۔ جنہوں نے امریکی معاشی غلامی سے آزاد ہونے کی کوشش کی۔ امریکا پاکستان کو ڈرا رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بھاری چینی سرمایہ کاری پاکستان کی آزادی کا خاتمہ کردے گی۔ یہ تو ایک امریکی مفروضہ ہے جب کہ خود امریکی سامراج پچھلے ستر سال سے امداد کے نام پر پاکستان کی آزادی کو سلب کیے بیٹھا ہے۔
اس تمام صورت حال میں اسرائیل ہو یا عرب بادشاہتیں، امریکا کے ساتھ ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوگا۔ بلکہ یہ سب کچھ اسرائیل کے لیے ہی کیا جارہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کی محبت میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانا اسی جنون کا شاہکار ہے۔ لیکن یہ صرف جنون نہیں سامراجی مفادات ہیں جن کی چوکیداری اسرائیل کررہا ہے۔ اس طرح اسرائیل کو پورے خطے کا بادشاہ بنانا مقصود ہے۔ اس طرح سے نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش عمل میں آئے گی۔ یعنی ایک تیر میں کئی شکار۔ ترکی بھی اس تیر کا نشانہ ہے۔
٭... نومبر دسمبر 2018ء ترک صدر رجب طیب اردوان کے لیے اہم وقت ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ دورہ جی ایچ کیو کا آغاز ہی بہت مثبت تھا اور اختتام بھی بہت مثبت ہوا۔ فوج نے وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ پاکستان میں دہشتگردی کہاں سے ہو رہی ہے اس کے شواہد بھی سامنے لائے گئے۔ وزیراعظم کو پالیسی فیصلوں کے لیے تمام تر ضروری پس منظر سے آگاہ کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ فوج اور سول حکومت نہ صرف ایک صفحہ پر ہے بلکہ کتاب بھی ایک ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا جس طرح جی ایچ کیو استقبال کیا گیا سکی پہلے مثال نہیں ملتی۔ وزیر اطلاعات کا کہنا تھا خطے میں امریکا اور پاکستان کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ 5 ستمبر کو پاکستان کا دورہ کریں گے۔ دوسری طرف امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایک سینئر آفیسر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان کو بھارت کے ساتھ تعلقات بنانے کا موقعہ دینا چاہتی ہے۔ یہ صاحب امریکا کے نائب وزیر دفاع ہیں۔
ہم عمران خان کو موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے مواقع تلاش کریں۔ اس کے بعد آرمی چیف کے اس فقرے میں معنی کا سمندر پنہاں ہے جو انھوں نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ جی ایچ کیو کے موقع پر کہا کہ ''وزیراعظم جس پالیسی کا فیصلہ کریں گے فوج اس کو مکمل فالو کرے گی اور مکمل طور پر اس کا ساتھ دے گی۔'' ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اسلام آباد پہنچے۔ یہ کسی بھی غیر ملکی عہدیدار کا پہلا دورہ ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اس مشکل گھڑی میں ایران کے ساتھ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی وزیر خارجہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کشمیریوں کے جائز حق خود ارادیت کے لیے حمایت اور جس انداز میں اس دفعہ ایران میں پاکستان کا یوم آزادی منایا گیا اس پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا شکریہ ادا کیا۔صورت حال اس وقت انتہائی غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ اس وقت غیر ملکی اہم شخصیات کی آمد مستقبل قریب میں خطے کی صورتحال پر انتہائی فیصلہ کن صورتحال مرتب کرے گی۔ امریکا نے کہا ہے کہ وہ ایرانی تیل کی برآمد کو صفر پر لے آئے گا۔
ایران ہو یا پاکستان اس وقت دونوں شدید امریکی دباؤ میں ہیں۔ امریکا ایرانی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے حالانکہ یہ کوشش تو وہ پچھلے چالیس سال سے کررہا ہے لیکن وہ مسلسل ناکام ہے۔ ماضی میں بھی امریکا نے ایران پر سخت معاشی پابندیاں لگائی تھیں۔ اس کی خواہش تھی کہ ایرانی عوام سڑکوں پر آکر اپنی حکومت کا تختہ الٹ دیں لیکن ہوا اس کا الٹ کہ ایرانی عوام امریکا کے خلاف مزید متحد ہوگئے۔
لیکن اس دفعہ امریکا کے تیور انتہائی خطرناک ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی سربراہی امریکی جنگجو اسٹیبلشمنٹ کسی بھی سرخ لائن کو عبور کرسکتی ہے چاہے اس کے نتیجے میں یہ خطہ آگ کا گولہ بن جائے۔ سابق امریکی صدر اوباما کہہ چکے ہیں کہ یہ اتنی بڑی حماقت ہوگی کہ دنیا خاص طور پر ہمارا خطہ اگلے تیس سے چالیس سال جہنم کا منظر پیش کرے گا۔ ایران پر حملہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگا۔ موجودہ ایرانی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں خطے کا کنٹرول مکمل طور پر امریکا کے ہاتھ میں آجائے گا۔روس اور چین بھی اس کے شدید متاثرین میں ہوں گے۔
شام میں روسی جنگی اڈے کے خاتمے کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ سے روسی اثرو رسوخ کا خاتمہ ہونے کے نتیجے میں امریکی غلامی پورے خطے اور دنیا پر پھر سے مسلط ہوجائے گی۔ سی پیک کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس طرح پوری دنیا میں پھیلتا ہوا چینی اثرورسوخ جو امریکی بالادستی کا خاتمہ کرکے ان ملکوں کو آزاد کردے گا جو اس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
لیکن چینی سی پیک کے خاتمے کے بعد امریکا ان ممالک کو کڑی سزا دے گا۔ جنہوں نے امریکی معاشی غلامی سے آزاد ہونے کی کوشش کی۔ امریکا پاکستان کو ڈرا رہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بھاری چینی سرمایہ کاری پاکستان کی آزادی کا خاتمہ کردے گی۔ یہ تو ایک امریکی مفروضہ ہے جب کہ خود امریکی سامراج پچھلے ستر سال سے امداد کے نام پر پاکستان کی آزادی کو سلب کیے بیٹھا ہے۔
اس تمام صورت حال میں اسرائیل ہو یا عرب بادشاہتیں، امریکا کے ساتھ ہیں۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل کو ہوگا۔ بلکہ یہ سب کچھ اسرائیل کے لیے ہی کیا جارہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اسرائیل کی محبت میں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانا اسی جنون کا شاہکار ہے۔ لیکن یہ صرف جنون نہیں سامراجی مفادات ہیں جن کی چوکیداری اسرائیل کررہا ہے۔ اس طرح اسرائیل کو پورے خطے کا بادشاہ بنانا مقصود ہے۔ اس طرح سے نئے مشرق وسطیٰ کی پیدائش عمل میں آئے گی۔ یعنی ایک تیر میں کئی شکار۔ ترکی بھی اس تیر کا نشانہ ہے۔
٭... نومبر دسمبر 2018ء ترک صدر رجب طیب اردوان کے لیے اہم وقت ہے۔