دیوانے سے ملاقات

میں پرویز اختر کی نجی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بس اس کے خیالات تک ہی محدود رہوں گا۔

''ہم شخصیت پرستی کی بری عادت میں مبتلا ہیں۔'' مہینوں میں کبھی اس سے ملاقات ہو جاتی ہے۔ آج بھی پٹھان کے چائے خانے پر وہ مل گیا۔ وہ بڑا پرانا سیاسی ورکر ہے۔ عین عروج کے زمانے میں اس نے پارٹی چھوڑدی، آج اس کے جونیئر پارٹی کے کرتا دھرتا بنے بیٹھے ہیں۔ اس کا بچپنا محرومیوں میں گزرا، یہی محرومیاں اس کی شخصیت کی بنیاد بنی۔ ''یہ ناہمواریاں کیوں ہیں؟'' اس سوال نے اسے مطالعہ کی طرف لگادیا۔

اس نے بڑے لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھ ڈالیں، پھر لکھنے کی طرف آگیا، صفحوں کے صفحے لکھ ڈالے، اور پھاڑ ڈالے، کبھی کبھی اپنا رجسٹر اٹھائے میرے پاس چلا آتا، اپنی تحریریں سناتا۔ اس کی تحریروں میں اس کا مطالعہ خوب بولتا تھا۔ وہ سہل پسندی سے نفرت کرتا تھا۔ وہ شارٹ کٹ کو پسند نہیں کرتا تھا۔ سخت محنت، انتھک جدوجہد، میلوں پیدل چلنا۔ ساتھی کارکنوں کے ساتھ بحث و مباحثہ، منزل کی طرف جانے والے راستوں کی تلاش بس اسی میں اس نے زندگی گزار دی اور گزار رہا ہے۔

میں پرویز اختر کی نجی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ بس اس کے خیالات تک ہی محدود رہوں گا۔ تین دن پہلے پرویز اختر سے ملاقات ہوئی تھی، وہ کہہ رہا تھا ''22 کروڑ آبادی کی مردم شماری کروالی جائے، کتنے مزدور عورتیں مرد ہیں، کتنے ہاری کسان ہیں، کتنے کلرک چپراسی ہیں، کھیتوں اور بھٹی پر کام کرنے والے عورتیں مرد، چھابڑی والے، سمندر اور دریاؤں سے مچھلی پکڑنے والے، دستکار، ہنرمند، یعنی موچی، جولاہے، چھری چاقو قینچیاں بنانے والے، ان کے علاوہ جاگیردار ، سردار، خان، وڈیرے، بڑے چھوٹے کارخانوں اور ملوں کے مالکان۔ خانقاہوں کے سجادہ نشین، مسجدوں، دینی مدرسوں کے مولوی حضرات، ہندو، سکھ، عیسائی اور ان کی عبادت گاہیں۔

ان سب طبقات کو صحیح صحیح شمار کیا جائے اور آبادی کے تناسب سے قومی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں ان کی نمایندگی ہو۔ پرویز اختر الیکشن کو رد کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے ''پاکستان خصوصاً اس خان، سردار، دھونس، دھاندلی اور خوف کے سایوں تلے ہونے والے الیکشنوں میں جیت کر آتے رہیں گے، اور یوں ہی لوٹ مار جاری رہے گی۔''

پرویز اختر بڑا منہ پھٹ قسم کا آدمی ہے۔ جب وہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کا ممبر تھا۔ تب بھی وہ پارٹی مہنگوں میں بڑے عہدیداروں سے اختلاف کرتے ہوئے، طویل بحث و مباحثہ کرتا تھا اور دلائل ان کے سامنے رکھتا تھا۔


چونکہ وہ سچ کہتا تھا اس لیے وہ پارٹی میں قابل قبول نہیں تھا، مگر پارٹی میں مقبول بھی تھا، اس لیے اس کے سچ کو برداشت کیا جاتا تھا اور پھر یوں ہوا کہ ایم آر ڈی کے زمانے میں جب پرویز اختر اپنے ہم خیال ساتھی کارکنوں کے ساتھ مل کر دشمن ملک کے پرچم جلاتے تھے اور نعرے لگاتے تھے جو اس دشمن ملک کا یار ہے غدار ہے غدار ہے، جو بکنے پر تیار ہے، غدار ہے غدار ہے۔ اور دشمنوں کو بے غیرت کہا جاتا تھا اور ایک بہت بڑے جلسے کے اسٹیج سے کہا گیا ''ہمیں اس دشمن ملک نے نہیں مارا۔ اس کے خلاف نعرے نہ لگائے جائیں''۔ اس روز پرویز اختر جلسہ گاہ سے واپس گھر آیا اور اس نے پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔

کل کا نوجوان آج 60 سال سے اوپر کا ہوچکا، مگر اس کے ارادے آج بھی جوان ہیں، وہ اپنے ملک پاکستان میں برابری کا نظام چاہتا ہے، تمام طبقات کا آبادی کے تناسب کے مطابق وسائل میں حصہ۔ آج بھی اس کی جدوجہد جاری ہے۔ وہ معراج محمد خان کو اپنا رہبر مانتا ہے۔ اس کی جماعت میں شامل ہوا، اور ''قومی محاذ آزادی'' جب بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد میں ضم ہوئی تو پرویز بھی پاکستان ورکرز پارٹی (جس کے سربراہ عابد حسن منٹو ہیں) کا حصہ بن گیا۔ اور آج بھی اسی میں شامل ہے۔

پرویز اختر محض پرائمری پاس ہے، بی اے، ایم اے کی ڈگریاں اس کے پاس نہیں، مگر مشاہدہ اور مطالعہ میں اس کے مقابل، اسی جیسے گنتی کے چند دیوانے ہی ہوں گے۔ میں نے حالیہ ملاقات میں پھر اسے کہا ''پرویز! تم اپنے خیالات، تجربات لوگوں تک پہنچاؤ، تم کالم لکھو، تمہاری تحریر میں بڑی جان ہے، تمہارے جیسے دیوانوں کی آج اشد ضرورت ہے۔'' اس نے ہمیشہ کی طرح ''ہاں'' کہہ دیا ہے، مگر یہ ''گھر والے'' بڑے ظالم ہوتے ہیں۔

یہ دیوانوں کو کام نہیں کرنے دیتے۔ میرا ایک افسانہ ہے ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' اس افسانے کا مرکزی کردار کہتا ہے ''میں سورج کے رستے میں حائل بڑی بڑی عمارتوں کو ڈھا دوں گا، تاکہ سورج کی روشنی غریب بستیوں تک بھی پہنچے، بستی میں مستقل اندھیرا ہے، بیماری ہے، بھوک ہے، استحصال ہے۔'' اس دیوانے کے گھر والے اسے گھر کے اندر ایک کمرے میں بند رکھتے ہیں، مگر کبھی کبھی اسے بھاگنے کا موقع مل جاتا تو وہ مہینوں گھر نہ لوٹتا۔ وہ مرکزی کردار کہتا ہے ''یہ جو مذہب، زبان، نسل، فرقہ، رنگ کی بنیاد پر لوگوں کا قتل عام کرواتے ہیں یہ لیڈر، سب ظالم وحشی درندے ہیں۔'' خیر اس افسانے کے اختتامیہ فقرے یہ ہیں ''اور آخر وہی ہوتا ہے۔ ''وہ'' اسے پکڑنے آجاتے ہیں۔ جب سرکاری اہل کار اسے پکڑ کر لے جا رہے ہوتے ہیں تو اس کے گھر والے سرکاری اہلکاروں سے کہتے ہیں ''جناب! یہ تو پاگل ہے۔'' اور جواباً سرکاری اہل کار کہتے ہیں ''یہی تو پاگل نہیں ہے۔''

پرویز اختر بھی مجھے ایسا ہی کردار لگتا ہے۔ وہ ملکی حالات پر کڑھتا ہے، گھنٹوں بولتا ہے اور ''لوگ'' اسے نہیں سمجھتے۔ ابھی تین دن پہلے جو میری اس سے ملاقات ہوئی وہ بول رہا تھا ، میں سن رہا تھا کہ اچانک اس نے میری پیٹھ کے پیچھے کھڑے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''یہ دیکھیں! یہ جو شخص کھڑا ہے، یہ مجھے پاگل سمجھتا ہے۔'' میں نے مڑ کر اس شخص کو دیکھا، ایک شرارتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر تھی اور وہ کہہ رہا تھا ''میں تو خوش ہوں کہ کوئی تو پرویز کو خاموش کرانے والا آیا۔''

اس کا اشارہ میری طرف تھا، یقیناً وہ مجھے جانتا پہچانتا ہوگا، مگر اسے کیا پتا کہ پرویز اختر! کھرا، سچا انسان ہے، جو بکا نہیں، اس نے مال نہیں بنایا۔ ''پاگل ہم ہیں۔'' آج کے سیاسی حالات پر وہ کہتا ہے ''عمران خان کو آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ابھی اسے وقت دینا چاہیے۔ 70 سال کا اندھیرا دور ہونے میں وقت لگے گا۔ اس نے جو باتیں کی ہیں اسے پرکھنے کے لیے بھی وقت لگے گا۔'' اس کی بات سن کر دوست اسے مشورہ دیتے ہیں ''پرویز! تم تحریک انصاف میں شامل ہوجاؤ۔'' تو وہ کہتا ہے ''میں پاکستان ورکر پارٹی کا رکن ہوں، میری پارٹی ورکرز کی پارٹی ہے، بڑی پارٹی ہے۔'' وہ کہتا ہے ''معراج محمد خان پاکستان ورکرز پارٹی میں چھوڑ گئے، میں بلاوجہ پارٹی کیوں چھوڑوں، مگر عمران خان کو وقت دو۔''
Load Next Story