سرمایہ داری کی برکات
سرمایہ داری کی بے ہنگم ترقی کے جن کو بوتل سے نکال تو لیا گیا ہے
سرمایہ داری کا عفریت اب اس حد تک دنیا کو لپیٹ میں لے رہا ہے کہ ہر چیز ناقابل یقین اور حیرت انگیز انداز میں الٹ پھیر ہوتی جارہی ہے۔ کل کا دوست آج کا دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست بن رہے ہیں۔ یہ کوئی اصولی یا نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کی بنیاد پر ہے۔
اس لیے سرمایہ داری کی بے ہنگم ترقی کے جن کو بوتل سے نکال تو لیا گیا ہے، لیکن اس نظام کے رکھوالوں سے یہ اس نظام سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ اپنے ہی بنائے قوانین کو خود ہی رد کرتے جارہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے اپنے ہی وکیل، مشیر اور وزیر مواخذے کے لیے سلطانی گواہ بنتے جارہے ہیں، اور خفیہ سازشوں اور کرتوتوں کو برملا بے نقاب کررہے ہیں۔ بچت کا راستہ نہ دیکھتے ہوئے ٹرمپ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اگر میرا مواخذہ کیا گیا تو امریکی عوام غریب ہوجائیں گے۔
ایران پر امریکی پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے برٹش ایئرویز اور ایئرفرانس جب اپنی پرواز ایران کے لیے جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہیں تو امریکہ بلبلا اٹھتا ہے۔ پھر جب یورپی یونین ایران کے لیے دو کروڑ سات لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو امریکا اسے غلط وقت پر غلط فیصلے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس سے قبل ایران پر امریکی پابندی کے بعد چین نے اعلان کیا تھا کہ ''ہم سارا تیل ایران سے خریدیں گے''۔ سوشلسٹ کوریا کے نمایندے نے جب ایران کا دورہ کیا تو بھی امریکی حکمرانوں میں کھلبلاہٹ پھیل گئی۔ جب کہ امریکا اوروں سے کیے گئے تمام معاہدات جب پے درپے توڑتا جاتا ہے تو اخلاقی، جمہوری اور امن کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ دوسرے توڑتے ہیں تو خلاف ورزی ہوتی ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر نے غزہ کو دی جانے والی بیس کروڑ ڈالر کی امداد معطل کردی۔ شمالی اور جنوبی سوڈان کو مسلمان اور عیسائی کی بنیاد پر امریکا نے تقسیم کروایا۔ جب جنوبی سوڈان اکثریتی عیسائی والا علاقہ الگ ہوگیا اور وہاں عیسائیوں کے دو دھڑوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور بھوک سے لوگ مرنے لگے تو امریکا ان کی کوئی مدد نہیں کررہا ہے۔ یوگنڈا اور ایتھوپیا بھوکے لوگوں کے لیے غذا اور اجناس مہیا کر رہا ہے۔ جب اپنا مفاد ہوتا ہے تو سامراج عیسائیت اور اہل کتاب کا نعرہ لگاتا ہے اور مفاد نہیں ہوتا تو میکسیکو کے سیکڑوں غریب عوام کے بچوں کو ان کے والدین سے چھین کر قید کردیا جاتا ہے۔
سرمایہ داری ایک ایسی عفریت ہے کہ ایک جانب بظاہر بھلائی کرتی نظر آئے گی تو دوسری جانب مزدوروں کا خون چوس کر ان ہی پر قیامت ڈھاتی ہے۔ ''کوبالٹ'' جہاں سے نکالا جاتا ہے وہاں کے عوام انتہائی غربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ دنیا میں کوبالٹ کے 7100000 میٹرک ٹن کے ذخائر میں سے دو تہائی ''جمہوریہ کانگو'' میں پائے جاتے ہیں، جب کہ یہاں 90 ٖفیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں چار سے سات برس کے 40000 بچے چٹانوں سے کوبالٹ کو الگ کرنے کی مزدوری کرتے ہیں، جو 34 گھنٹے کام کرنے کے بعد یومیہ مزدوری ایک ڈالر سے دو ڈالر ملتے ہیں۔ وہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ 2015 میں کوبالٹ نکالنے کی مزدوری کرتے ہوئے 80 بچوں کی موت واقع ہوئی۔ اس کی ذمے دار کانگو کی کرپٹ سرمایہ دار حکومت اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ معدنیات کے لحاظ سے امیر ترین ملک ہے، جب کہ سماجی اور اقتصادی اعتبار سے اسے غریب ترین ملک بنا دیا گیا ہے۔ یہ ہے سرمایہ داری کی اصل شکل۔
اسی طرح کی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ یہاں زبانی طور پر سادگی، کرپشن اور انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی جارہی ہے، اس کی ضرورت بھی ہے مگر اس سے پہلے پینے کا صاف پانی، ملاوٹ سے پاک غذا، سب کو روزگار، مل کارخانوں کا جال بچھانا، سب کو معقول، بروقت اور مفت علاج کی فراہمی اور سو فیصد خواندگی کی ضرورت ہے۔ یہ کیونکر ہوگا۔ کرپشن پر احتساب بھی ہونا چاہیے لیکن سب کا۔ تنخواہیں لاکھوں کے بجائے ہزاروں میں ہونی چاہیے۔ ان کے اثاثوں کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے۔
پڑوسی ملکوں سے صرف اعلانات اور مذاکرات نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں بہتر سماجی اور اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں التوا مقدمات فوری نمٹائیں گے جب کہ مقدمات نمٹانے کے بجائے مزید 8000 مقدمات کا اضافہ ہوگیا ہے۔ خاص بڑے لوگوں کی تنخواہوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا جب کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 16000 روپے مزدوروں کی کم ازکم تنخواہ 90 فیصد مزدوروں کو ادا نہیں کی جارہی ہیں۔ 110 ارب روپے دفاع پر اضافی خرچ کیے گئے۔ تین ماہ کے مختصر عرصے کے وزیر قانون نے قومی خزانے سے 7 کروڑ 9 لاکھ روپے جاری کیے۔
وزیر قانون سید ظفر علی نے سب سے زیادہ رقم ایک کروڑ روپے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو جاری کیے۔ پنجاب بار کونسل کو 60 لاکھ روپے، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایسوسی ایشن گوجرانوالہ کو 40 لاکھ روپے جاری کیے۔ پنجاب کی مجموعی طور پر 23 بار ایسوسی ایشنز کو 3 کروڑ 75 لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ جب کہ انھیں چاہیے تھا کہ یہ رقم ان غریب لوگوں پر خرچ کرتے جن کے پیارے ضمانت کی رقم ادا نہ کرنے کی وجہ سے بنا کسی جرم جیل میں پڑے ہیں۔ اور یہ رقم ان پر خرچ کرتے جن مزدوروں کو کم از کم تنخواہ 16000 ماہانہ ادا نہیں کی جارہی ہے۔
وزیر ریلوے شیخ رشید کو ریلوے کے کرایوں میں کمی کرنے کا اعلان کرنا چاہیے تھا، اور ٹرینوں کے ڈبوں میں اضافہ کرنے کا بھی اعلان کرتے، ریلوے کی نجکاری کے منصوبے کو ترک کرنے اور مہنگائی کے تناسب سے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کرتے۔ وہ تو مزدوروں کے حقوق دینے کے بجائے سلب کرنے آئے ہیں۔ 8 گھنٹے کے بجائے 9 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے اور ہفتے میں 6 دن کام کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ مزدور دشمنی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ادھر وزیراعظم امیری اور غریبی کی خلیج کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں تو انھیں یہ نہیں معلوم کہ صرف کے پی کے اسمبلی میں 6 ارب پتی موجود ہیں، جب کہ اسی صوبے میں لاکھوں نوجوان بے روزگار ہیں۔
ان ارب پتیوں کے پیسوں سے مل کارخانے لگا کر نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ اپنے صوبے میں بے روزگاری اور مہنگائی میں کمی نہیں کرپائے تو ملک بھر میں کیونکر اس کا تدارک کریں گے۔ وزیراعظم نے ابھی تک ہزاروں لاپتہ افراد کے بارے میں لب کشائی نہیں کی۔ سامراجی استحصال اور رجعت پسندی اور دہشت گردی پر بھی خاموش نظر آتے ہیں۔ جہاں سے دہشت گردوں کی تربیت ہو رہی ہے اس کی نشاندہی اور مکمل اکھاڑ پھینکنے کی بات نہیں ہورہی ہے۔ ایران، افغانستان اور ہندوستان سب ہی ہمارے پڑوسی ممالک ہیں، اس لیے ان سب سے ہمارے بہترین تعلقات ہونے چاہئیں۔
ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے، اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔ جب طبقات، ملکیت، جائیداد، خاندان، اسمبلی، میڈیا، فوج، پولیس، عدلیہ اور سکوں کا خاتمہ ہوگا تو لوگ جینے لگیں گے۔ عوام اپنے تمام مسائل خودکار اور خودانحصار باہمی مشاورت سے اور اپنی علاقائی اور محلہ کمیٹیوں کے ذریعے حل کریں گے۔ وہ دن دور نہیں جب ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔ دنیا ایک ہوجائے گی، سرحدیں ختم ہوکر دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوجائیں گے۔