خوف
منہ سے شراب کی بدبو آتی تھی، جو بھی دولتیا، مال و زر والا معلوم ہوتا ان تمام کو قتل کردیا جاتا
ماضی میں ایسا دور آیا جب فرانس کی اکثریت میں عوام غریب تھے، حکمرانوں اور اشرافیہ نے ملک کے عوام کو اس قدر خستہ حالت میں پہنچادیا جو ایک وقت کے کھانے سے محروم تھے، اس کے باوجود اشرافیہ ان غریب عوام پر پندرہ اقسام کے ٹیکس نافذ کرنے پر کوشاں تھی۔ تیسرا طبقہ یہ چاہتا تھا اگر غریب پر ملکی ٹیکس عاید کرنے کے ساتھ اشرافیہ پر بھی ٹیکس لگائے جائیں جس کی ادائیگی اشرافیہ بھی کرے اور غریب عوام کے زر سے اس طرح عیش نہ کرے۔
انقلاب فرانس 1789 سے 1799 تک کا عہد کہا گیا ہے، اس انقلاب کی بنیادی وجہ پہلا درجہ، دوسرا درجہ ملک کی زرعی زمینوں کے علاوہ مالیت کے ساتھ ملک کے تقریباً ساٹھ فیصد کے مالک بن گئے، ملک کا تیسرا درجہ مزدور اور چھوٹے موٹے معمولی کام کاج والے لوگ تھے، وہ اکثریت میں ہونے کے باعث غریب سے غریب تر ہوتے جارہے تھے۔ ملک کی اشرافیہ اور اس سے اوپر والے لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جارہے تھے، جن کی تعداد زیادہ نہ تھی، اپنی عیاشی کی خاطر عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگائے گئے۔ غریب طبقہ اس وقت ایک وقت کے کھانے کے لیے ترس رہا تھا۔
یہی وجہ بنی انقلاب فرانس کی۔ فرانس کے غریب، مزدور، بدحال، چھوٹے موٹے معمولی کام کاج کرنے والوں نے انقلاب کی آواز اٹھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ بڑھتے گئے۔ سیکڑوں سے ہزاروں، ہزاروں سے لاکھوں ہوگئے۔
عوام کی اس بغاوت نے فرانس کو خون میں نہلادیا۔ 14 جولائی کو چند باغیوں نے فرانس میں موجود ایک چھوٹے سے قلعے پر حملہ کیا، یہاں غریب لوگ زندان خانہ میں قید تھے، ان کو آزاد کرایا۔ اس کے علاوہ اسلحہ خانہ سے تمام اسلحہ اٹھالیا۔ 1792 اور 1794 کا زمانہ فرانس میں تشدد اور دہشت گردی کا کہلایا جاتا ہے۔ عوامی عدالت نے شاہ فرانس کو پھانسی پر لٹکایا، پھر اسی سال ملکہ کو بھی پھانسی دی۔ فرانس میں ان دو ڈھائی برسوں میں انقلابی عوام نے ہر اس شخص کو قتل کردیا جن کی پہچان نئے کپڑے ہوتے یا جس کے منہ سے شراب کی بدبو آتی تھی، جو بھی دولتیا، مال و زر والا معلوم ہوتا ان تمام کو قتل کردیا جاتا۔
میں جو عرض کرنا چاہتا ہوں اس کے لیے انقلاب فرانس کا ذکر مقصود ہے تاکہ میری بات آج کے حالات کے مطابق سمجھنے میں کوئی مشکل نہ ہو، انقلاب فرانس کی باتیں حقیقت ہیں۔ میں اپنے ملک میں اب جس قسم کے حالات و افکار دیکھ رہا ہوں، آنے والے وقت کو محسوس کرکے خوف آتا ہے اور ملک کی اکثریتی آبادی کی بدحالی و غربت پر دکھ ہوتا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے تو پھر وہی حال ہوتا ہے جو فرانس کے اکثریتی عوام نے کیا۔ یہ بات بھی درست ہے ''تنگ آمد بہ جنگ آمد''۔ تاریخ گواہ ہے ایسے حالات میں آخری وقت بھیانک کشت و خون والا ہوتا ہے۔ یاد رہے ہمارے دشمن افراد ہوں یا ممالک، وہ یہی چاہتے ہیں ملکی معیشت تباہ ہوجائے، جوکہ تقریباً ہوچکی ہے، عوام خطِ غربت سے نیچے پہنچ جائیں، جوکہ پہنچ رہے ہیں۔ اشرافیہ اور بڑے عہدوں پر فائز اپنے عیش و تعیش میں ملک کا خزانہ خالی کردیں، سو ہوگیا ہے۔ میری دعا ہے ہم سب کے لیے آنے والا وقت اچھا ہو، ملک ترقی کرے، عوام خوشحال ہوں۔
حقائق سے چشم پوشی عبث ہے، شتر مرغ ریت میں اپنا سر چھپا دیتا ہے یہ سوچ کر کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا، جب کہ اس کی چونچ سر کے علاوہ سارا جسم نظر آرہا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی یہ سوچ لے کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا، ہم جو کریں نہ روکنے والا ہے اور نہ ہی ٹوکنے والا، ایسا ہرگز نہیں۔ اس وقت سے خوف کھائیں، جب روکنے اور ٹوکنے والے سڑک پر ہوں۔
آسٹریلیا میں انسانوں سے زیادہ کنگروز ہیں، اس بات کا فخر ہے ہمارے ملک میں آبادی زیادہ ہے، افسوس اس امر کا ہے کہ سب کچھ ہوتے ہوئے غربت بڑھ رہی ہے۔ زراعت، معدنیات دیگر اشیا اس قدر ہیں اگر سب کو استعمال کریں تو غربت ختم ہوسکتی ہے۔ زراعت کسی حد تک استعمال میں جہاں شہری زمین ہیں وہ تو خوب، جہاں کنوؤں سے آبپاشی ہورہی ہے وہاں بجلی کا استعمال اور بجلی دیہی علاقوں میں دس سے 12 گھنٹے جاتی ہے، کسی جگہ تو بیس گھنٹے۔ کیا کریں، دعوے بہت ہوئے لیکن آگے جانے کے بجائے پیچھے چلے گئے۔ جو زمین بارانی ہیں، وہ تو بارش کے منتظر ہیں، جہاں صرف دو ہی فصلیں بمشکل ہوتی ہیں۔ رہا معدنیات تو وہ جوں کی توں ہیں۔ سنا ہے شاید کوئلہ نکال رہے ہیں، لیکن جہاں پٹرول ہے وہ نہیں۔ سلور، المونیم، تانبہ، چاندی، سونا، ہیرے اور جواہرات تک نوبت نہیں، اگر ان پر ایمانداری سے کام کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں ملک مالدار تو ہوگا ساتھ ہی عوام خوشحال ہوتے جائیں گے۔ پھر اس ملک میں شاید کسی انقلاب کی ضرورت نہ ہو۔
ستر سال ہوگئے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے، ہر آنے والے پر بڑا بھروسا کیا، اسے ووٹ دیے، اپنے فرمانروا بنایا، لیکن عوام کے لیے کچھ نہ ہوا۔ اسکول وہی کے وہی، اسپتال جو تھے وہی، رہائش جہاں تک وہیں، کوئی اضافہ نہیں۔ ہاں اگر اضافہ ہوا تو پرائیویٹ اسکولوں میں، پرائیویٹ شفاخانوں میں، پرائیویٹ فلیٹوں، پلاٹوں، مکانوں میں۔
پاکستان کا ہر شخص اس قابل نہیں کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں میں بچوںکو تعلیم دلاسکے یا اپنا اور بچوں کا پرائیویٹ شفاخانوں میں علاج کرواسکے، نہ ہی وہ اس قدر مہنگے فلیٹس یا پلاٹ و مکان خرید سکتا ہے۔ وہ اپنے دادا کے زمانے میں جس جگہ رہتا تھا اسی جگہ پورا خاندان ہے، نیچے کمرے چھوٹے کیے اور اوپر چھوٹے کمرے بنالیے تاکہ سب کا گزارا ہوسکے۔ مذاق میں لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ کیا اس مکان میں کبوتر کے دڑبے بنالیے ہیں؟ کسی کو کیا معلوم کس شخص پر کیا گزر رہی ہے۔ اگر دیکھنے سے کوئی نہیں سمجھ سکتا تو بتانا فضول ہے۔
الیکشن ہوگئے، سب خیر و عافیت سے ہوا، امید ہے نئی حکومت ملک و قوم کے لیے اچھے کام کرے گی۔ اکثریت نے بھروسا کیا، اعتماد کے ساتھ امیدیں قائم کیں کہ ملک کا قرض اتر جائے، اگر غربت کم نہ ہوسکے تو بڑھے بھی نہیں۔ جب غربت بڑھے گی نہیں تو کم ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ اگر ملک ترقی کرے گا تو خود عوام ترقی کرنے لگیں گے۔ یہ فخر ہے ملک کے عوام محنتی، ایماندار، دیانت دار، ہمدرد، خوش اخلاق ہیں۔ عوام نے کبھی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آج بھی یہی عوام اس بات پر مصر ہیں کہ اب حالات تبدیل ہوں گے، اس لیے کہ جو شخص اکثریت میں آیا ہے وہ ایماندار، نیک، مہم جو، محنتی، دیانت دار ہے، اس کو معلوم ہے عوام نے مجھے جس مقصد کے لیے ووٹ دیے وہ کوئی بڑے مقاصد نہیں بلکہ وہ نیک مقاصد ہیں، جو انسان کی بنیادی ضروریات میں ہیں۔ عوام کوئی بے جا اشیا کے طلب گار نہیں، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے، قرض اتر جائیں اور عوام کو بنیادی ضروریات میسر ہوں۔ یقیناً آنے والے نئے حکمران ان تمام باتوں کو اہمیت دیںگے۔