گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ ہونا خوش آئند۔۔۔ مستقل حل کے لیے اقوام متحدہ میں مسئلہ اٹھانا ہوگا
پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے شدید احتجاج کی وجہ سے ہالینڈ کی حکومت نے مقابلہ منسوخ کیا
گزشتہ دنوں ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایک رکن گستاخ گیرٹ ویلڈرز نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کیا جس سے پوری امت مسلمہ میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
اس کے ردعمل میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس کے باعث ہالینڈ کی حکومت کو یہ مقابلہ منسوخ کرنا پڑا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ''گستاخانہ خاکے اور بین المذاہب ہم آہنگی'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔
شنیلا روتھ
(رکن قومی اسمبلی و اقلیتی رہنماپاکستان تحریک انصاف)
گستاخانہ خاکوں کے مقابلے آزادی ء ِ اظہار رائے نہیں۔ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح اور ان کی دل آزاری ہوئی۔ مسیحی برادری کو اس بات کا احساس ہے یہی وجہ ہے کہ سب نے اس کی شدید مذمت کی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس مسئلے پر بھرپور ایکشن لیا جس کے باعث گستاخانہ خاکوں کے مقابلے منسوخ ہوئے۔
سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی اور وہاں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس پر تاریخی کام کیا جو پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ انہوںنے ہالینڈ کے وزیر خارجہ کو فون کرکے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا اور ان سے مقابلے روکنے کی بات کی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس معاملے کے حل کیلئے اسلامی تعاون تنظیم کے ممالک کو خطوط لکھے جوبہترین اقدام تھا۔
چونکہ خاکوں کے اس مقابلے کے اعلان سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے لہٰذا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی اور اس پر وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی زوردار آواز اٹھائی اور شدید مذمت کی۔ میں نے جب گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے مذمتی ٹویٹ کیا تو اس پر ہالینڈ چرچ کی جانب سے جواب آیا کہ ان لوگوں کا تعلق نہ کسی چرچ سے ہے اور نہ ہی حکومت سے، یہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ کا ایک رکن ہے جو منصوبہ بندی کررہا تھا اور اس کا علم ہوگیا۔آرچ بشپ آف کینٹر بری نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ مقابلے رکوائیں جبکہ چرچ آف پاکستان نے بھی ان خاکوں کی شدید مذمت کی ۔ پاکستان کی مسیحی برادری نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ اس پر ایکشن لیا جائے۔
دین، امن، اچھائی، محبت اور اخوت کی طرف لے کر جاتا ہے لیکن یورپ میں چرچ خالی ہورہے ہیں اور لوگ لادینیت کی طرف جارہے ہیں جس کے باعث اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔یہ تو واضح حقیقت ہے کہ جب لوگوں کا مذہب پر یقین نہیں ہوگا تو پھر شیطانی قوتیں ان پر غالب آئیں گی۔ ہم دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی بات کررہے ہیںمگر جب لوگ دوسروں کے احساسات کا خیال نہیں کریں گے تو امن کیسے قائم ہوگا؟ اس طرح کے واقعات کی مستقل روک تھام کے لیے اقدامات ضروری ہیں، اس سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
( خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کسی بھی طور برداشت نہیں کی جاسکتی ۔ ہم نے ہمیشہ آپﷺ کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ہم آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ امن، بھائی چارہ، بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری و دیگر کام جو ہم کررہے ہیں،اس کا درس آپﷺ نے ہی دیا ہے۔ گستاخانہ خاکوں جیسے اقدامات سے بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچتا ہے حالانکہ تمام مذاہب کے لوگ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے اعلان کے بعد ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے جو معمولی بات نہیں ہے۔
ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ ہالینڈ کے معاملے میں پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے رہنماؤں نے یک زبان ہو کر ان خاکوں کی مذمت کی اور کہا کہ فی الفور انہیں منسوخ کیا جائے۔
ہم نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ ہالینڈ کا بائیکاٹ کیا جائے اورمعاملے کے حل تک اس کی رکنیت معطل کی جائے ۔ہم آج بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں ہالینڈ کی حکومت کی سرزنش کی جائے اور آئندہ کیلئے لائحہ عمل طے کیا جائے۔ آپﷺ کی حرمت پر قربان ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ بے دین لوگ گستاخی کرتے ہیں لہٰذا ہم امن کے عالمی علمبرداروں کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر یہ باز نہ آئے تو اندیشہ ہے کہ دنیا میں ایسا خون خرابہ ہو کہ یورپ ہی نہ بچے۔
بشپ سباسٹین شاہ
(آرچ بشپ آف لاہور)
دنیا کا کوئی بھی شخص جسے دوسروں کی عزت و مذہبی جذبات کا احساس نہ ہو اور وہ انبیاء علیہ السلام کی توہین کرے تو وہ انسان نہیں ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ بے دین ہیں اور پوری دنیا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کے حوالے سے پاپ فرانسس کا بیان موجود ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کی ثقافت، مذہب وغیرہ پر تنقید کی جائے، دوسروں کے مذہب اور ثقافت کے بارے میں اظہار نہ کریں۔
ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے حوالے سے مسیحی برادری نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پرمذمت کی اور تمام بڑے چرچوں سے بھی آواز آئی کہ یہ عمل غلط ہے۔ بشپ کانفرنس کی طرف سے بھی اس حوالے سے مذمتی پیغام آیا۔ ہم نے بھی دنیا بھر میں موجود اپنے چرچوں سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور دنیا کے امن کے لیے ان مقابلوں کو ہر حال میںرکوانا ہوگا۔
آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات یا ثقافت کے حوالے سے غلط بات کی جائے لہٰذا ہم نے یورپی یونین سے بھی درخواست کی کہ وہ نہ صرف اس معاملے کا نوٹس لے بلکہ اس کا مستقل حل نکالا جائے۔ پاکستان میں نہ صرف حکومت اور مسلمان بلکہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ان خاکوں کی شدیدمذمت کی اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ سینیٹ آف پاکستان میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے خلاف مذمتی قرارداد منظور جبکہ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بھرپور انداز میں بات کی جس سے ہالینڈ کی حکومت پر دباؤ پڑا۔
پاکستان میں رہنے والے ہندو، سکھ، عیسائی و دیگر مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی عزت و تقریم کو بھی سمجھتے ہیں مگر یورپ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو ان معاملات کی حساسیت کو نہیں سمجھتے کیونکہ وہ بے دین ہیں ۔70ء کی دہائی کے بعد سے یورپ میں دینی تعلیم کم ہوئی۔ بی بی سی کی 3برس پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ کے 43فیصد لوگ خدا کو نہیں مانتے، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ 80 ء کی دہائی کے بعد سے ہالینڈ میں دینیات نہیں پڑھائی گئی جس کے بعدسے وہاں بے دین لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ان کی مذہبی تربیت ہی نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کے کام کررہے ہیں۔
ماضی میں یسوع مسیح ؑ کے بارے میں بھی گستاخانہ فلمیں بنائی گئیں جس کی ہم نے شدید مذمت کی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ایسے غلط کام کرنے والوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دنیا میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو قوتیں مذاہب اور ثقافتوں کو آپس میں لڑانا چاہتی ہیں ہمیں مل کر ان کے عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔
ہر انسان میں رحمانی اور شیطانی دونوں قوتیں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جو اس طرح کی مذموم حرکات کرتے ہیں ان کی طبیعت شیطانی ہوتی ہے اور انہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ دنیا کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بلکہ وہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں جان بوجھ کر ایسا عمل کرتے ہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ایسا صرف ہالینڈ میں ہی نہیں ہوا بلکہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے جس کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں اضطراب اور غصہ پیدا ہوتا ہے۔
حضرت محمدﷺ صرف مسلمانوں کے نبی ہی نہیں بلکہ رحمت اللعالمین بن کر آئے اور انسانیت کا درس دیا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، ہمیں اللہ کا تعارف بھی آپﷺ نے کروایا۔ توحید، انسانیت، دین، محبت، اخوت، ایثار، بھائی چارہ، نفرت دشمنی کا خاتمہ ودیگر تعلیمات ہمیں دیں اور ایک اچھا انسان بننے کی ترغیب دی۔
حجۃ الوداع کے بعد 18 ذوالحج کو آپﷺ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب حجاج کرام سے خطبے میں اتحاد امت اور ایک دوسرے سے پیار محبت کا اعلان فرمایا اور لوگوں سے پوچھا کہ ''کیا میں تمہاری جانوں سے افضل ہوں؟'' ، سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ آپﷺ ہماری جانوں سے بھی افضل ہیں ۔ہر مسلمان کو حضرت محمدﷺ سے پیار ہے۔ سردار الانبیاء ﷺ کی حرمت پر ہمارا ملک، جان و مال سب کچھ قربان ہے اور ہم مل کر حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے ملعونوں کا ہمیشہ راستہ روکیں گے۔
ہالینڈ میں جب گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان ہوا تو ہم نے فوراََ اس کی شدید مذمت کی اور اس معاملے پر سخت اقدام اٹھانے کیلئے حکومت سے اپیل کی۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس حساس معاملے کو صرف مذمتی قرار دار تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہالینڈ کے ساتھ سفارتی و تجارتی معاملات فوری ختم کیے جائیں، ہالینڈ کا حکومتی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے اور ان پر واضح کردیا جائے کہ تجارت و دیگر معاملات ثانوی ہیں، ہمارے لیے آپﷺ کی حرمت سے زیادہ کچھ بھی افضل نہیں ہے۔
اب یہ معاملہ تو ختم ہوگیا لیکن آئندہ ایسا نہ ہو اس کے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ گستاخانہ خاکوں جیسے قبیح عمل کو آزادی اظہار رائے کا نام دے دیا جاتا ہے جو درست نہیں بلکہ اس سے دنیا میں انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو دنیا کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔امام خمینی نے ملعون سلمان رشدی کے خلاف تاریخی فتویٰ دیا کہ جہاں ملے اسے قتل کردو۔ وہ ملعون آج بھی زندہ ہے اور سخت سکیورٹی میں ہے۔ ایسے ملعونوں کا قلع قمع ہونا چاہیے۔ انبیاء علیہ السلام کی توہین کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کریں گے، سب مسلمان اس معاملے پر متحد ہیں لہٰذا عالم اسلام اور دنیاکو سخت ایکشن لینا ہوگا۔
سردار بشن سنگھ
(ممبر پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی )
کئی برس پہلے جب ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے تو اس وقت ہم نے مال روڈ پر احتجاج میں شریک ہوکر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو کسی مذہبی رہنما، مقدس کتاب یا مقامات کی توہین کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔
حضرت محمدﷺ پر کسی مذہب کے لوگوں کا اجارہ نہیں ہے۔ آپﷺ نے انسانیت اور محبت کا پیغام دیا۔ اسی طرح تمام مذاہب کے پیشواؤں نے بھی یہی درس دیا لہٰذا ان کی عزت سب پر لازم ہے۔ ہالینڈ میں حال ہی میں جو گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اٹھا تو ہم نے اس کی شدید مذمت کی اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ ہالینڈ کے سفیر کو طلب کرکے اس کی سرزنش کی جائے بلکہ اسے ملک بدر کرکے ہالینڈ کا بائیکاٹ کیا جائے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق موجود ہیں جہاں کسی ایک انسان کو زچ پہنچانے پر سزا ہوتی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے غلط اقدام سے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جس کی کہیں بھی اجازت نہیں ہے۔ میرے نزدیک گستاخانہ خاکوں کا اقدام مذہبی دہشت گردی ہے۔
ایسا کرنے والوں کے خلاف انسانی حقوق کے قوانین کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے قوانین کے تحت سخت کارروائی کی جائے اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جسارت نہ کرے۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ کسی کمیونٹی، مذہب، ثقافت، مقدس کتاب یا مذہبی شخصیات و دیگر کی توہین کرے، ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ہمارے بابا گرونانک کے خلاف بھی ایک فلم بنائی گئی جس پر ہم نے احتجاج کرکے پابندی لگوائی۔ ایک بات واضح ہے کہ کسی کو بھی ایسی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ دہشت گردی صرف ہتھیاروں سے ہی نہیں ہوتی بلکہ سوچ، نظریہ اور قلم سے بھی ہوتی ہے۔
ہمیں مل کر ایسا کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔ گستانہ خاکوں کے خلاف سب جگہ پرامن احتجاج ہوا جو اچھا اقدام تھا کیونکہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنے سے اپنے ہی ملک کا نقصان ہوتا ہے۔دنیا بھر میں شدید احتجاج کے بعد اب گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیا گیا لیکن یہ کافی نہیں ہے بلکہ یورپی یونین، اقوام متحدہ، ''او آئی سی'' و دیگر عالمی اداروں کے ذریعے ہالینڈ، ڈنمارک و دیگر ممالک جہاں سے ایسی حرکات ہوتی ہیں، پر دباؤ ڈالا جائے اور ان سے گارنٹی لی جائے کہ آئندہ اس طرح کا کوئی کام نہیں ہوگا۔
اس کے ردعمل میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جس کے باعث ہالینڈ کی حکومت کو یہ مقابلہ منسوخ کرنا پڑا۔ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ''گستاخانہ خاکے اور بین المذاہب ہم آہنگی'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی روداد نذر قارئین ہے۔
شنیلا روتھ
(رکن قومی اسمبلی و اقلیتی رہنماپاکستان تحریک انصاف)
گستاخانہ خاکوں کے مقابلے آزادی ء ِ اظہار رائے نہیں۔ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح اور ان کی دل آزاری ہوئی۔ مسیحی برادری کو اس بات کا احساس ہے یہی وجہ ہے کہ سب نے اس کی شدید مذمت کی۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس مسئلے پر بھرپور ایکشن لیا جس کے باعث گستاخانہ خاکوں کے مقابلے منسوخ ہوئے۔
سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور کی گئی اور وہاں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے کر جائیں گے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس پر تاریخی کام کیا جو پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ انہوںنے ہالینڈ کے وزیر خارجہ کو فون کرکے مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا اور ان سے مقابلے روکنے کی بات کی۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس معاملے کے حل کیلئے اسلامی تعاون تنظیم کے ممالک کو خطوط لکھے جوبہترین اقدام تھا۔
چونکہ خاکوں کے اس مقابلے کے اعلان سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے لہٰذا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی اور اس پر وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی زوردار آواز اٹھائی اور شدید مذمت کی۔ میں نے جب گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے مذمتی ٹویٹ کیا تو اس پر ہالینڈ چرچ کی جانب سے جواب آیا کہ ان لوگوں کا تعلق نہ کسی چرچ سے ہے اور نہ ہی حکومت سے، یہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ کا ایک رکن ہے جو منصوبہ بندی کررہا تھا اور اس کا علم ہوگیا۔آرچ بشپ آف کینٹر بری نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ مقابلے رکوائیں جبکہ چرچ آف پاکستان نے بھی ان خاکوں کی شدید مذمت کی ۔ پاکستان کی مسیحی برادری نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ اس پر ایکشن لیا جائے۔
دین، امن، اچھائی، محبت اور اخوت کی طرف لے کر جاتا ہے لیکن یورپ میں چرچ خالی ہورہے ہیں اور لوگ لادینیت کی طرف جارہے ہیں جس کے باعث اس طرح کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔یہ تو واضح حقیقت ہے کہ جب لوگوں کا مذہب پر یقین نہیں ہوگا تو پھر شیطانی قوتیں ان پر غالب آئیں گی۔ ہم دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی بات کررہے ہیںمگر جب لوگ دوسروں کے احساسات کا خیال نہیں کریں گے تو امن کیسے قائم ہوگا؟ اس طرح کے واقعات کی مستقل روک تھام کے لیے اقدامات ضروری ہیں، اس سے دنیا کا امن خطرے میں ہے۔
مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد
( خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)
نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کسی بھی طور برداشت نہیں کی جاسکتی ۔ ہم نے ہمیشہ آپﷺ کے ذکر کو بلند کیا ہے اور ہم آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ امن، بھائی چارہ، بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری و دیگر کام جو ہم کررہے ہیں،اس کا درس آپﷺ نے ہی دیا ہے۔ گستاخانہ خاکوں جیسے اقدامات سے بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچتا ہے حالانکہ تمام مذاہب کے لوگ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے اعلان کے بعد ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے جو معمولی بات نہیں ہے۔
ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ ہالینڈ کے معاملے میں پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے رہنماؤں نے یک زبان ہو کر ان خاکوں کی مذمت کی اور کہا کہ فی الفور انہیں منسوخ کیا جائے۔
ہم نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ ہالینڈ کا بائیکاٹ کیا جائے اورمعاملے کے حل تک اس کی رکنیت معطل کی جائے ۔ہم آج بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں ہالینڈ کی حکومت کی سرزنش کی جائے اور آئندہ کیلئے لائحہ عمل طے کیا جائے۔ آپﷺ کی حرمت پر قربان ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ بے دین لوگ گستاخی کرتے ہیں لہٰذا ہم امن کے عالمی علمبرداروں کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر یہ باز نہ آئے تو اندیشہ ہے کہ دنیا میں ایسا خون خرابہ ہو کہ یورپ ہی نہ بچے۔
بشپ سباسٹین شاہ
(آرچ بشپ آف لاہور)
دنیا کا کوئی بھی شخص جسے دوسروں کی عزت و مذہبی جذبات کا احساس نہ ہو اور وہ انبیاء علیہ السلام کی توہین کرے تو وہ انسان نہیں ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ بے دین ہیں اور پوری دنیا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ان کے حوالے سے پاپ فرانسس کا بیان موجود ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ کسی کی ثقافت، مذہب وغیرہ پر تنقید کی جائے، دوسروں کے مذہب اور ثقافت کے بارے میں اظہار نہ کریں۔
ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کے حوالے سے مسیحی برادری نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پرمذمت کی اور تمام بڑے چرچوں سے بھی آواز آئی کہ یہ عمل غلط ہے۔ بشپ کانفرنس کی طرف سے بھی اس حوالے سے مذمتی پیغام آیا۔ ہم نے بھی دنیا بھر میں موجود اپنے چرچوں سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور دنیا کے امن کے لیے ان مقابلوں کو ہر حال میںرکوانا ہوگا۔
آزادی اظہار رائے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات یا ثقافت کے حوالے سے غلط بات کی جائے لہٰذا ہم نے یورپی یونین سے بھی درخواست کی کہ وہ نہ صرف اس معاملے کا نوٹس لے بلکہ اس کا مستقل حل نکالا جائے۔ پاکستان میں نہ صرف حکومت اور مسلمان بلکہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ان خاکوں کی شدیدمذمت کی اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ سینیٹ آف پاکستان میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کے خلاف مذمتی قرارداد منظور جبکہ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بھرپور انداز میں بات کی جس سے ہالینڈ کی حکومت پر دباؤ پڑا۔
پاکستان میں رہنے والے ہندو، سکھ، عیسائی و دیگر مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھتے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ انبیاء علیہ السلام کی عزت و تقریم کو بھی سمجھتے ہیں مگر یورپ میں بعض لوگ ایسے ہیں جو ان معاملات کی حساسیت کو نہیں سمجھتے کیونکہ وہ بے دین ہیں ۔70ء کی دہائی کے بعد سے یورپ میں دینی تعلیم کم ہوئی۔ بی بی سی کی 3برس پہلے کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ کے 43فیصد لوگ خدا کو نہیں مانتے، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ 80 ء کی دہائی کے بعد سے ہالینڈ میں دینیات نہیں پڑھائی گئی جس کے بعدسے وہاں بے دین لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ان کی مذہبی تربیت ہی نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کے کام کررہے ہیں۔
ماضی میں یسوع مسیح ؑ کے بارے میں بھی گستاخانہ فلمیں بنائی گئیں جس کی ہم نے شدید مذمت کی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ ایسے غلط کام کرنے والوں کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ دنیا میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو قوتیں مذاہب اور ثقافتوں کو آپس میں لڑانا چاہتی ہیں ہمیں مل کر ان کے عزائم کو خاک میں ملانا ہوگا۔
مولانا حافظ کاظم رضا نقوی
( رہنما شیعہ علماء کونسل پاکستان وپرنسپل جامعہ قرآن و اہلبیت)
ہر انسان میں رحمانی اور شیطانی دونوں قوتیں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جو اس طرح کی مذموم حرکات کرتے ہیں ان کی طبیعت شیطانی ہوتی ہے اور انہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ دنیا کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
بلکہ وہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں جان بوجھ کر ایسا عمل کرتے ہیں جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ایسا صرف ہالینڈ میں ہی نہیں ہوا بلکہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے جس کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں اضطراب اور غصہ پیدا ہوتا ہے۔
حضرت محمدﷺ صرف مسلمانوں کے نبی ہی نہیں بلکہ رحمت اللعالمین بن کر آئے اور انسانیت کا درس دیا۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا، ہمیں اللہ کا تعارف بھی آپﷺ نے کروایا۔ توحید، انسانیت، دین، محبت، اخوت، ایثار، بھائی چارہ، نفرت دشمنی کا خاتمہ ودیگر تعلیمات ہمیں دیں اور ایک اچھا انسان بننے کی ترغیب دی۔
حجۃ الوداع کے بعد 18 ذوالحج کو آپﷺ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب حجاج کرام سے خطبے میں اتحاد امت اور ایک دوسرے سے پیار محبت کا اعلان فرمایا اور لوگوں سے پوچھا کہ ''کیا میں تمہاری جانوں سے افضل ہوں؟'' ، سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ آپﷺ ہماری جانوں سے بھی افضل ہیں ۔ہر مسلمان کو حضرت محمدﷺ سے پیار ہے۔ سردار الانبیاء ﷺ کی حرمت پر ہمارا ملک، جان و مال سب کچھ قربان ہے اور ہم مل کر حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے ملعونوں کا ہمیشہ راستہ روکیں گے۔
ہالینڈ میں جب گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان ہوا تو ہم نے فوراََ اس کی شدید مذمت کی اور اس معاملے پر سخت اقدام اٹھانے کیلئے حکومت سے اپیل کی۔ ہم نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس حساس معاملے کو صرف مذمتی قرار دار تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہالینڈ کے ساتھ سفارتی و تجارتی معاملات فوری ختم کیے جائیں، ہالینڈ کا حکومتی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے اور ان پر واضح کردیا جائے کہ تجارت و دیگر معاملات ثانوی ہیں، ہمارے لیے آپﷺ کی حرمت سے زیادہ کچھ بھی افضل نہیں ہے۔
اب یہ معاملہ تو ختم ہوگیا لیکن آئندہ ایسا نہ ہو اس کے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ گستاخانہ خاکوں جیسے قبیح عمل کو آزادی اظہار رائے کا نام دے دیا جاتا ہے جو درست نہیں بلکہ اس سے دنیا میں انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے۔ افسوس ہے کہ ہر دور میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو دنیا کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔امام خمینی نے ملعون سلمان رشدی کے خلاف تاریخی فتویٰ دیا کہ جہاں ملے اسے قتل کردو۔ وہ ملعون آج بھی زندہ ہے اور سخت سکیورٹی میں ہے۔ ایسے ملعونوں کا قلع قمع ہونا چاہیے۔ انبیاء علیہ السلام کی توہین کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کریں گے، سب مسلمان اس معاملے پر متحد ہیں لہٰذا عالم اسلام اور دنیاکو سخت ایکشن لینا ہوگا۔
سردار بشن سنگھ
(ممبر پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی )
کئی برس پہلے جب ڈنمارک میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے تو اس وقت ہم نے مال روڈ پر احتجاج میں شریک ہوکر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی شخص کو کسی مذہبی رہنما، مقدس کتاب یا مقامات کی توہین کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔
حضرت محمدﷺ پر کسی مذہب کے لوگوں کا اجارہ نہیں ہے۔ آپﷺ نے انسانیت اور محبت کا پیغام دیا۔ اسی طرح تمام مذاہب کے پیشواؤں نے بھی یہی درس دیا لہٰذا ان کی عزت سب پر لازم ہے۔ ہالینڈ میں حال ہی میں جو گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اٹھا تو ہم نے اس کی شدید مذمت کی اور مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ ہالینڈ کے سفیر کو طلب کرکے اس کی سرزنش کی جائے بلکہ اسے ملک بدر کرکے ہالینڈ کا بائیکاٹ کیا جائے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق موجود ہیں جہاں کسی ایک انسان کو زچ پہنچانے پر سزا ہوتی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے غلط اقدام سے تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جس کی کہیں بھی اجازت نہیں ہے۔ میرے نزدیک گستاخانہ خاکوں کا اقدام مذہبی دہشت گردی ہے۔
ایسا کرنے والوں کے خلاف انسانی حقوق کے قوانین کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے قوانین کے تحت سخت کارروائی کی جائے اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسی جسارت نہ کرے۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر کسی کو بھی اجازت نہیں ہے کہ کسی کمیونٹی، مذہب، ثقافت، مقدس کتاب یا مذہبی شخصیات و دیگر کی توہین کرے، ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ ہمارے بابا گرونانک کے خلاف بھی ایک فلم بنائی گئی جس پر ہم نے احتجاج کرکے پابندی لگوائی۔ ایک بات واضح ہے کہ کسی کو بھی ایسی دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ دہشت گردی صرف ہتھیاروں سے ہی نہیں ہوتی بلکہ سوچ، نظریہ اور قلم سے بھی ہوتی ہے۔
ہمیں مل کر ایسا کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔ گستانہ خاکوں کے خلاف سب جگہ پرامن احتجاج ہوا جو اچھا اقدام تھا کیونکہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کرنے سے اپنے ہی ملک کا نقصان ہوتا ہے۔دنیا بھر میں شدید احتجاج کے بعد اب گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ منسوخ کردیا گیا لیکن یہ کافی نہیں ہے بلکہ یورپی یونین، اقوام متحدہ، ''او آئی سی'' و دیگر عالمی اداروں کے ذریعے ہالینڈ، ڈنمارک و دیگر ممالک جہاں سے ایسی حرکات ہوتی ہیں، پر دباؤ ڈالا جائے اور ان سے گارنٹی لی جائے کہ آئندہ اس طرح کا کوئی کام نہیں ہوگا۔