کٹنگ کی اقسام

شہرقائد میں چائنہ کٹنگ اور زمینوں پر قبضے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، پارک/رفاہی پلاٹس کاٹنا تربوز کاٹنے سے زیادہ آسان ہے


پورا ملک جانتا ہے کہ چائنہ کٹنگ کس نے کی اور کون لوگ ملوث ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

کٹنگ بھی کیا بھلا لفظ ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس نے اپنے اندر ایک پورا سمندر سمو رکھا ہے۔ مہینہ نہیں ہو پاتا کہ انسان جب آئینے کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ یار بڑے دن ہوگئے ہیں، کٹنگ کرانی چاہیے۔ اب یہ کٹنگ کی پہلی قسم ہے، اس کو کہتے ہیں بال ترشوانا۔ سر سے مونڈھے مانڈھے بال دامن میں ہی آکر گرتے ہیں، اور پھر پتہ چل جاتا ہے کہ آخر سر پر کتنے بال تھے۔ پھر ذرا کوئی ڈریسنگ پرانی ہوجائے تو درزی کے پاس انسان پہنچ جاتا ہے اوراس کو کپڑوں کا ناپ دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ یار ذرا کٹنگ نفیس ہونی چاہیے۔ وہ درزی بھی بڑا کوئی مخولیا سا تھا، کہنے لگا صاحب جیب کاٹوں یا گلا کاٹنے سے سوٹ کا آغاز کروں؟ دونوں ہی الفاظ بڑے ذو معنی ہیں؛ حالانکہ یہ باتیں درزی کو نہیں زیب دیتیں۔ اس کے تو کچھ اور لوگ بھی حقدار ہیں۔ بات درزی کی کٹنگ تک نہیں ختم ہوتی۔ اس وقت ایک نئی کٹنگ کی بھی تاریخ آن پہنچی ہے جو کراچی سے متعارف ہوئی۔

شہر کراچی جو ماضی میں حسین اور خوبصورت ترین شہر تصور کیا جاتا تھا، جہاں لوگ دور دراز ممالک سے آیا کرتے تھے، یہاں کے خوش ذائقہ کھانوں کے مراکز ہمیشہ کھانے کے شوقین افراد کو لذت فراہم کرتے، سڑکیں بے حد کشادہ، تعلیمی نظام اعلیٰ اور معیاری سفری سہولیات کےلیے ٹرام سروس اور ڈبل ڈیکر بسیں ہمیشہ حاضر رہتیں۔ یہ تو تھا ماضی کے کراچی کا احوال۔ اگر آج کے کراچی کو دیکھا جائے تو کشادہ سڑکوں کی کشادگی ختم ہوچکی، کھانوں کے مراکز کی ایامِ سابقہ جیسی چکا چوند ختم، ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں قصۂ پارینہ بن گئیں، معیاری تعلیمی نظام نقل کی نذر ہوا۔ یہاں تک کے کھلیوں کے میدان اور باغات کو بھی ختم کردیا گیا اور اب ان کی جگہ بے ہنگم سی ہونے والی انفراسٹرکچر کی منصوبہ بندی، اداروں میں کرپشن اور نااہلی نے لے لی ہے۔

2016ء میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بڑا انکشاف کیا تھا کہ شہر قائد میں چائنہ کٹنگ اور زمینوں پر قبضے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پارک اور رفاہی پلاٹس کاٹنا تربوز کاٹنے سے زیادہ آسان ہوگیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کہتے ہیں چائنا کٹنگ اب نہیں چلے گی، اب جہاں قبضہ ہوا، ذمہ دار تھانے کا ایس ایچ او ہوگا۔

کراچی کے پرانے علاقوں میں جہاں میدان، اسکول اور پارک کی جگہ تھی، وہاں اب بلند و بالا کنکریٹ کا ڈھانچہ عمارتوں نے لے لی ہے، جس کے بعد شہر قائد کے باسیوں کے لیے تفریحی مقامات نہ ہونے کے برابررہ گئے ہیں۔ حکومت کی نااہلی اور آنکھیں بند کرنے یا پشت پناہی کے باعث سیاسی جماعتوں، اداروں کے افسران، اور کرپٹ مافیا نے شہر کے رفاہی و فلاحی پلاٹ، ریلوے کی اراضی، نالے، فٹ پاتھ بھی فروخت کردیے۔ اس کرپٹ مافیا کا جہاں بس چلا، اپنا کارنامہ دکھایا۔ فٹ پاتھ سے لے کر کئی ایکڑ زمینوں کو کوڑیوں کے مول بیچ دیا۔ ان اداروں کی اگر بات کریں تو ماضی میں جب کبھی انہیں کارکردگی ظاہر کرنا پڑی ہے تو ہاتھ صرف اور صرف غریب پر ہی پڑا ہے۔ کھیل کے میدانوں پر قائم کیے گئے شادی ہالز اور عمارتوں کے سامنے قائم پنکچر کی دکانیں یا پان کے کھوکے کو اکھاڑ کر یا ان کا سامان ضبط کرکے اخبار میں تصویر چھپوالی، مگر ان کے عقب میں بیٹھے بڑے مگرمچھوں پر کبھی بھی ہاتھ نہ ڈالا گیا۔ ہاں اگر بات زیادہ بڑھ جائے تو شہر کے سنسان علاقے میں جاکر چار دیواری کو گرا دیا جاتا اور دو چار دن بعد یہ چار دیواری دوبارہ قانون کو منہ چڑائے عالیشان انداز میں کھڑی نظر آتی ہے۔

میئر کراچی وسیم اخترنے کہا ہےکہ چائنہ کٹنگ والوں نے کراچی کو تباہ کردیا ہے۔ وسیم اخترنے کہا کہ پورا ملک جانتا ہے کہ چائنہ کٹنگ کس نے کی اور کون لوگ ملوث ہیں۔ انھوں نے کہا ایم کیو ایم پاکستان اور چائنہ کٹنگ والوں میں فرق ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے بھی چائنا کٹنگ پر نیا انکشاف کردیا۔ کہتے ہیں چائنا کٹنگ کے بعد رشین اورامریکن کٹنگ بھی جاری ہے، اور صوبائی حکومت سرپرستی کررہی ہے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نوٹس لے اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ کے ڈی اے اب بھی قبضہ در قبضہ میں ملوث ہے، آپریشن کے متاثرین کو متبادل جگہ فراہم کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری میں بھی چائنا کٹنگ کی گئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ قبضہ مافیا کے خلاف یہ آپریشن صرف شادی ہالز یا چند عمارتوں تک ہی محدود رہتا ہے یا اس کا دائرہ آگے بڑھے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کالے دھندے میں ملوث تمام افراد کے ناموں کو سب کے سامنے لانا چاہیے اور انہیں فی الواقع سزا دینی چاہیے' خواہ اس بندے کا تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے ہو یا وہ بندہ کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں