گستاخانہ خاکے ناقابل برداشت
مغرب کا اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہ طرز عمل کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔
ہالینڈ میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی شرانگیز اور مذموم مہم نے پورے عالم اسلام میں شدید بے چینی اور تشویش کی زبردست لہر دوڑا دی تھی، جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت مختلف اسلامی ممالک میں شدید اور پرزور احتجاج ہوا، گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کا یہ مذموم سلسلہ 2004 کے اواخر میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ڈنمارک کے مردود اور ملعونی مصنف کرے پلویٹکن نے جناب رسالت مآبؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ایک مذموم کتابچہ تحریرکیا تھا۔ وہ اس کتابچے میں (نعوذباللہ) آپؐ کے خاکے شایع کرنا چاہتا تھا۔
اس نے اس سلسلے میں ڈنمارک کے بہت سے مصوروں سے رجوع کیا لیکن ان میں سے کوئی بھی راضی نہ ہوا۔ جس کے بعد وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ یولاند پوسٹن نامی اخبار کے آفس گیا اور اس کے ایڈیٹر سے رابطہ کیا جس کے دماغ میں یہ گستاخانہ کارٹونوں کی اشاعت کا شیطان آئیڈیا آگیا۔ اس طرح یہ شیطانی خاکے بنے جن کے باعث دنیائے اسلام شدید ناقابل بیان صدمے اور تشویش سے دوچار ہوئی اور تب سے لے کر آج تک پورا عالم اسلام ایک اضطراب میں مبتلا رہا ہے۔
30 ستمبر 2005 کو ڈنمارک کے کثیر الاشاعت اخبار جیلنڈس پوسٹن(Jyllands Postan) میں بارہ مذموم خاکوں کی اشاعت نے عالم اسلام میں طوفانی ہلچل مچا دی۔ اس پر عالمی سطح پر شدید احتجاج ہوا اور ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا۔ پھر بات آئی گئی ہوگئی۔ اس کے ایک سال بعد یہودیوں کے زیر اثر شایع ہونے والے یورپ کے سات بڑے اخبارات میں یکم فروری 2006 کو بارہ گستاخانہ خاکوں کی دوبارہ مذموم اشاعت کے ذریعے ایک بار پھر مسلم دنیا کے جذبات کو مجروح کیا گیا۔
ہالینڈ کے ایک ملعون کارٹونسٹ گریگوری نیکشٹ نے 2008 میں اپنے گستاخانہ خاکوں سے اسلامی اقدار کو ٹھیس پہنچانے کی مذموم حرکت کی۔ ہالینڈ ہی کے ایک مردود رکن پارلیمان گیرٹ ولڈرز نے اسی سال ایک مذموم فلم بنائی جس میں قرآنی آیات پر مذموم تنقید کی گئی۔ اس کے بعد 21 مارچ 2001 کو ملعون پادری ٹیری جونز نے قرآن مجید کی گستاخی کی مذموم حرکت کی اور قرآن حکیم کو نذرآتش کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کی شدید دل آزاری کی۔
2 نومبر 2011 کو فرانس کے بدنام زمانہ اخبار چارلی ہیبڈو نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخانہ شمارہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا جس کے ردعمل میں اس پر حملہ بھی ہوا۔ 2015 میں ایک سرفروش اسلام نے پیرس میں چارلی ہیبڈو کے آفس پر حملہ کرکے گستاخانہ کارٹون شایع کرنے پر 12 افراد کو جہنم واصل کردیا تھا۔ اب ہالینڈ کی اسلام دشمن بدنام زمانہ فریڈم پارٹی کے سرغنہ معلون گیرٹ ولڈرز نے نومبر 2018 میں گستاخانہ خاکوں کی مذموم نمائش کا دل آزارانہ اعلان کرکے عالم اسلام کو شدید صدمے سے دوچار کرنے کی شیطانی حرکت کی ، جس پر شدید غم و غصے کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ سب سے بڑی دیدہ دلیری اور ستم ظریفی یہ ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش اور مقابلے کا بندوبست ہالینڈ کی پارلیمان کی عمارت میں ہونا تھا جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ملعون گیرٹ ولڈرز کو ہالینڈ کی حکومت کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔
مغرب کا اسلام اور اہل اسلام کے خلاف یہ طرز عمل کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ اسلام دشمنی اور منافقت اہل مغرب کی صدیوں پرانی روایت ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلام اور اسلامی شعائرکے خلاف کیچڑ اچھالنا اس کا آئے دن کا معمول ہے۔ مغرب اور اہل مغرب پر اسلام کا شدید خوف طاری ہے اور اسلام فوبیا کی آڑ میں اسلام کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
نائن الیون کے بعد صہیونی ایجنڈے کے تحت نہ صرف مسلم علاقوں پر ناجائز اور غاصبانہ تسلط جمانے کی کوششیں تیز سے تیز تر کی جا رہی ہیں بلکہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور اپنے نظریاتی تشخص سے منحرف کرنے اور غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں گمراہ کرنے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن دین اسلام اللہ کا سچا دین ہے اور محسن انسانیت نبی کریمؐ کا یہ زندہ و جاوید معجزہ ہے کہ اسے دبانے اور مٹانے کی جتنی بھی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں اتنا ہی یہ دنیا بھر میں پھل پھول رہا ہے اور روز بروز تیزی کے ساتھ مقبول ہو رہا ہے۔ اسی لیے اہل مغرب اسلام کی مخالفت میں اوچھے سے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں اور انھوں نے اپنے تمام وسائل اسلام کو بدنام کرنے میں جھونک دیے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر نے اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور قوت سے گھبرا کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کسی نہ کسی صورت میں برابر جاری ہے اور اسلام کے خلاف نت نئے محاذ جنگ کھولے جا رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ اس بات کا ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے مفادات امریکا اور مختلف مغربی ممالک کے ساتھ وابستہ ہیں جس کی وجہ سے ان میں جرأت اور ہمت کی کمی ہے۔
یہ محض چند گستاخانہ کارٹونوں کی اشاعت یا نمائش کا وقتی معاملہ نہیں ہے کہ جس کے خلاف صرف مذمت اور احتجاج ہی کافی ہوسکتا ہو۔ یہ اسلام اور عالم اسلام کے خلاف طبل جنگ ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری مسلم امہ کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور ایک واضح اور کارگر حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔ اس موقعے پر مسلمان ممالک کو اپنے اپنے اختلافات سے بالاتر ہوکر اسلام کی بقا کی خاطر زیادہ سے زیادہ ہم خیال اور مکمل طور پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بقول اقبال:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر
یہ امر قابل ستائش ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کا فوری نوٹس لیا ہے اور یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلوں کو قطعی واضح الفاظ میں ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں مغربی ذہنیت کو جانتا ہوں۔ وہاں کے عوام کو اس بات کی سمجھ نہیں آتی۔ ان کے عوام کی بڑی تعداد کو پتا ہی نہیں کہ ہمارے دلوں میں نبیؐ کے لیے کتنا پیار ہے۔ انھیں نہیں پتا کہ وہ ہمیں کس قدر تکلیف دیتے ہیں۔
انھیں بتانا چاہیے کہ ہولوکاسٹ سے انھیں (جتنی) تکلیف ہوتی ہے گستاخانہ خاکوں سے ہمیں ان سے کہیں زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ہم اپنی حکومت میں کوشش کریں گے کہ او آئی سی کو اس بات پر متفق کریں کہ اس چیز کا بار بار ہونا مجموعی طور پر مسلمانوں کی ناکامی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے معاملے میں او آئی سی کو متحرک کرنا ہوگا اور اس پر او آئی سی کو پالیسی بنانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دنیا کی ناکامی ہے۔ مغرب میں لوگوں کو اس معاملے کی حساسیت کا اندازہ نہیں لہٰذا مسلمان دنیا ایک چیز پر اکٹھی ہو، پھر وہ مغرب کو بتائیں کہ ایسی حرکتوں سے ہمیں کتنی تکلیف ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ کہا وہ پاکستان کے موقف اور اس کے عوام کے دلوں کی آواز کی ترجمان ہے۔ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس لیے اسے ناموس رسالتؐ کے معاملے میں پیش پیش رہنا چاہیے۔ پاکستان اس لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ وہ واحد مسلم ایٹمی قوت ہے اور اسے اسلام کا قلعہ مانا جاتا ہے۔