کاش کہ ایسا ہوجاتا
نئے پاکستان کے عوام نئی حکومت سے بے شمار توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار تین بڑی جماعتوں کی ایک ایسی متحدہ اپوزیشن عمران خان کی نئی حکومت کو ملی ہے کہ جس کی مثال ماضی میں 1977 کے متنازعہ انتخابات کے علاوہ نہیں ملتی کہ اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے خود حکومت میں ہوتے ہوئے الیکشن کرا کر اس میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی تھی مگر دھاندلیاں ضرورت سے زیادہ ہونے کے باعث قوم اور اسلامی جمہوری اتحاد نے اسے انتہائی متنازعہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا مگر بھٹو صاحب نے اپنی حکومت ضرور بنالی تھی جس کے خلاف منظم احتجاجی مہم بڑے پیمانے پر چلی جس پر کنٹرول کے لیے بھٹو صاحب نے تین شہروں میں مارشل لا لگایا تھا جو 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیا الحق کے طویل ترین مارشل لا کی صورت میں نافذ رہا جس کے دوران وزیر اعظم بھٹو پھانسی چڑھائے گئے اور بعد میں اسلامی جمہوری اتحاد بھی اپنا نظام مصطفیٰ لائے بغیر اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا۔
25 جولائی کے حالیہ انتخابات کے نتائج کو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتیں، متحدہ قومی موومنٹ اور چھوٹی جماعتوں یا اتحاد سندھ میں جی ڈی اے، بلوچستان میں تین علاقائی جماعتوں سمیت سب سے زیادہ نشستیں لینے والی تحریک انصاف بھی منصفانہ تسلیم نہیں کر رہیں اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے ہارنے والے امیدواروں کو بھی شکایات ہیں اور سندھ میں واضح اکثریت لے کر اپنی تیسری حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ (ن) کی ہم آواز ہے تاکہ نئی حکومت انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف پارلیمانی کمیشن قائم کرے مگر یہ مطالبہ منظور نہیں کیا گیا اور نئے حکمرانوں کا موقف ہے کہ دھاندلیوں کی شکایات کرنے والی جماعتیں الیکشن کمیشن کے قائم کردہ الیکشن ٹریبونلز یا عدلیہ سے رجوع کریں کہ پی ٹی آئی تو وفاقی اور پنجاب اور کے پی کے میں اپنی حکومتیں بناچکی اور ملک میں تبدیلی آچکی۔
مسلم لیگ(ن) کا دس سالہ اقتدار ختم ہوچکا اور پیپلز پارٹی جس نے عمران خان کو ووٹ دیا نہ شہباز شریف کو اپنی سندھ میں تیسری حکومت بناچکی۔ بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت ہے اس لیے پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے اور نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے صاف کہہ دیا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا اور اب این آر او کسی کو بھی نہیں ملے گا۔
آنے والے دنوں میں کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حکمرانوں کو یہ پتا چل چکا ہے کہ انھیں خزانہ خالی، قرضوں کا بوجھ، بے شمار معاشی مسائل سابق حکومت کی طرف سے ورثے کی صورت میں مل چکے ہیں جب کہ نئے پاکستان کے عوام نئی حکومت سے بے شمار توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہیں اور نئی حکومت نے سو دنوں میں اپنے پارٹی رہنماؤں اور اپنے اتحادیوں کو بھی مطمئن کرنا ہے اور انھیں ساتھ لے کر چلنا ہے اور انھیں ملنے والا اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں سے مکمل بھرا ہوا وسیع ملک ہے۔
پی ٹی آئی کے ماہر معاشیات اور وزیر خزانہ اسد عمر نے 25 جولائی کے بعد ہی ملک کی معاشی صورتحال کا انتہائی خراب ہونا بھانپ لیا تھا اور عمران خان کو بھی چھپائے گئے حقائق سے آگاہ کیا ہوگا کہ خان صاحب الیکشن جیت کر ملک میں ایک کروڑ ملازمتیں دینا اور پچاس لاکھ گھر بناکر دینا آسان کام نہیں جو وہ پی ٹی آئی کے منشور میں کہہ چکے ہیں۔
ابھی تو نئی حکومت نے عالمی اداروں کو مقررہ رقم کی قسطیں ادا کرنی ہیں اور خزانے میں کچھ بھی باقی نہیں اس لیے آئی ایم ایف کے آگے پھر کشکول لے جانا ہوگا یا اسلامی بینک سے قرضہ لینا ہوگا جو پوری مطلوبہ رقم جتنا قرض نہیں ہوگا اور کہیں بھی ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے تیور سامنے آچکے ہیں جو اس کی مجبوری تھی۔ اکتوبر میں ملک میں ضمنی انتخابات بھی ہونے ہیں جن میں حکومت کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنا ہوگی کیونکہ 2013 کے ضمنی الیکشن میں عمران خان اپنی حکومت ہوتے ہوئے اپنی جیتی ہوئی نشست غلام احمد بلور سے مقابلے میں دوبارہ حاصل نہیں کرسکے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت چار ستمبر کو ہونے والا صدارتی انتخاب بھی باآسانی جیت جائے گی مگر اپوزیشن ایک بار پھر مل کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے جس کے لیے مولانا فضل الرحمن سرگرم ہوچکے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں شہباز شریف امیدوار ہیں اور پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) یا ایم ایم اے کے امیدوار کی حمایت کرکے پانسا پلٹنے کی کوشش کرسکتی ہے۔
ملک جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس میں حکومت کو اپنے چھوٹے اتحادیوں سے زیادہ مسلم لیگ(ن) یا پیپلز پارٹی کی مدد کی ضرورت ضرور پڑے گی جن کی سینیٹ میں اکثریت ہے اور پی ٹی آئی حکومت مرضی کا بل سینیٹ سے منظور نہیں کراسکتی۔ اگر عمران خان بڑی اپوزیشن اور پارلیمانی صورتحال میں کچھ افہام و تفہیم کی پالیسی اختیار کرکے موجودہ کشیدگی کم کرلیتے تو ان کے لیے ہی نہیں ملک کے لیے بھی سودمند ثابت ہوسکتا تھا۔
عمران خان بڑی پارٹیوں کی طرف ملکی و قومی مفاد کی خاطر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی آنے دیتے اور مسلم لیگ (ن) کو صدر کا عہدہ جو محض آئینی اور بے ضرر ہے تو ممکن تھا تینوں بڑی پارٹیوں میں مفاہمت کی بنیاد پڑ جاتی۔ انھوں نے نواز شریف کی مشترکہ مخالفت میں چوہدری پرویز الٰہی کو بھی اسپیکر شپ دی ہے جو پیپلز پارٹی کو دی جاسکتی تھی۔ پیپلز پارٹی کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ انھیں قبول ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی بھی قبول کیا جاسکتا تھا۔
25 جولائی کے حالیہ انتخابات کے نتائج کو مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتیں، متحدہ قومی موومنٹ اور چھوٹی جماعتوں یا اتحاد سندھ میں جی ڈی اے، بلوچستان میں تین علاقائی جماعتوں سمیت سب سے زیادہ نشستیں لینے والی تحریک انصاف بھی منصفانہ تسلیم نہیں کر رہیں اور عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے ہارنے والے امیدواروں کو بھی شکایات ہیں اور سندھ میں واضح اکثریت لے کر اپنی تیسری حکومت بنانے والی پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ (ن) کی ہم آواز ہے تاکہ نئی حکومت انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف پارلیمانی کمیشن قائم کرے مگر یہ مطالبہ منظور نہیں کیا گیا اور نئے حکمرانوں کا موقف ہے کہ دھاندلیوں کی شکایات کرنے والی جماعتیں الیکشن کمیشن کے قائم کردہ الیکشن ٹریبونلز یا عدلیہ سے رجوع کریں کہ پی ٹی آئی تو وفاقی اور پنجاب اور کے پی کے میں اپنی حکومتیں بناچکی اور ملک میں تبدیلی آچکی۔
مسلم لیگ(ن) کا دس سالہ اقتدار ختم ہوچکا اور پیپلز پارٹی جس نے عمران خان کو ووٹ دیا نہ شہباز شریف کو اپنی سندھ میں تیسری حکومت بناچکی۔ بلوچستان میں بھی پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت ہے اس لیے پی ٹی آئی کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے اور نو منتخب وزیر اعظم عمران خان نے صاف کہہ دیا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کا کڑا احتساب ہوگا اور اب این آر او کسی کو بھی نہیں ملے گا۔
آنے والے دنوں میں کیا ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حکمرانوں کو یہ پتا چل چکا ہے کہ انھیں خزانہ خالی، قرضوں کا بوجھ، بے شمار معاشی مسائل سابق حکومت کی طرف سے ورثے کی صورت میں مل چکے ہیں جب کہ نئے پاکستان کے عوام نئی حکومت سے بے شمار توقعات وابستہ کیے بیٹھے ہیں اور نئی حکومت نے سو دنوں میں اپنے پارٹی رہنماؤں اور اپنے اتحادیوں کو بھی مطمئن کرنا ہے اور انھیں ساتھ لے کر چلنا ہے اور انھیں ملنے والا اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں سے مکمل بھرا ہوا وسیع ملک ہے۔
پی ٹی آئی کے ماہر معاشیات اور وزیر خزانہ اسد عمر نے 25 جولائی کے بعد ہی ملک کی معاشی صورتحال کا انتہائی خراب ہونا بھانپ لیا تھا اور عمران خان کو بھی چھپائے گئے حقائق سے آگاہ کیا ہوگا کہ خان صاحب الیکشن جیت کر ملک میں ایک کروڑ ملازمتیں دینا اور پچاس لاکھ گھر بناکر دینا آسان کام نہیں جو وہ پی ٹی آئی کے منشور میں کہہ چکے ہیں۔
ابھی تو نئی حکومت نے عالمی اداروں کو مقررہ رقم کی قسطیں ادا کرنی ہیں اور خزانے میں کچھ بھی باقی نہیں اس لیے آئی ایم ایف کے آگے پھر کشکول لے جانا ہوگا یا اسلامی بینک سے قرضہ لینا ہوگا جو پوری مطلوبہ رقم جتنا قرض نہیں ہوگا اور کہیں بھی ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے تیور سامنے آچکے ہیں جو اس کی مجبوری تھی۔ اکتوبر میں ملک میں ضمنی انتخابات بھی ہونے ہیں جن میں حکومت کو کامیابی حاصل کرنے کے لیے بڑی محنت کرنا ہوگی کیونکہ 2013 کے ضمنی الیکشن میں عمران خان اپنی حکومت ہوتے ہوئے اپنی جیتی ہوئی نشست غلام احمد بلور سے مقابلے میں دوبارہ حاصل نہیں کرسکے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت چار ستمبر کو ہونے والا صدارتی انتخاب بھی باآسانی جیت جائے گی مگر اپوزیشن ایک بار پھر مل کر حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے جس کے لیے مولانا فضل الرحمن سرگرم ہوچکے ہیں۔ صدارتی انتخاب میں شہباز شریف امیدوار ہیں اور پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) یا ایم ایم اے کے امیدوار کی حمایت کرکے پانسا پلٹنے کی کوشش کرسکتی ہے۔
ملک جس سنگین صورتحال سے دوچار ہے اس میں حکومت کو اپنے چھوٹے اتحادیوں سے زیادہ مسلم لیگ(ن) یا پیپلز پارٹی کی مدد کی ضرورت ضرور پڑے گی جن کی سینیٹ میں اکثریت ہے اور پی ٹی آئی حکومت مرضی کا بل سینیٹ سے منظور نہیں کراسکتی۔ اگر عمران خان بڑی اپوزیشن اور پارلیمانی صورتحال میں کچھ افہام و تفہیم کی پالیسی اختیار کرکے موجودہ کشیدگی کم کرلیتے تو ان کے لیے ہی نہیں ملک کے لیے بھی سودمند ثابت ہوسکتا تھا۔
عمران خان بڑی پارٹیوں کی طرف ملکی و قومی مفاد کی خاطر پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی آنے دیتے اور مسلم لیگ (ن) کو صدر کا عہدہ جو محض آئینی اور بے ضرر ہے تو ممکن تھا تینوں بڑی پارٹیوں میں مفاہمت کی بنیاد پڑ جاتی۔ انھوں نے نواز شریف کی مشترکہ مخالفت میں چوہدری پرویز الٰہی کو بھی اسپیکر شپ دی ہے جو پیپلز پارٹی کو دی جاسکتی تھی۔ پیپلز پارٹی کا ڈپٹی چیئرمین سینیٹ انھیں قبول ہے تو اسپیکر قومی اسمبلی بھی قبول کیا جاسکتا تھا۔