کالا بدصورت حبشی ڈرائیور
’’ خوبصورتی چہرے سے عیاں نہیں ہوتی بلکہ یہ تو روشنی ہے جو دل میں رہتی ہے۔‘‘
سرفرازحسین کا کہنا ہے کہ ہم میں سے بہت سارے مرچکے ہیں اور بہت سارے مر جائیں گے لیکن اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ کریں اور نہ ہی اتنی استطاعت وہمت ہے کہ اخبارات اور ٹی وی کے دفتروں میں جا کر اپنی فریاد پیش کریں ۔ وہ ساٹھ سال کی عمر میں نوکری سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ان پانچ ہزار دو سو پچاس روپوںکے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جو انھیں بڑھاپے میں پنشن کے نام پر دیے جا رہے ہیں، مگر تیزی سے بڑھتی ہوئی گرانی کے باوجود پچھلے پانچ سال کے دوران اس رقم میں ایک روپے کا بھی اضافہ نہیں ہوا ۔
صرف سرفراز ہی کیا جب ہم اپنے آس پاس نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو ایسا فالتو سامان سمجھا جانے لگا ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے سے زندگی کی سرگرمیوں پرکوئی خاص فرق نہیں پڑتا ، لیکن اس سلسلے میں جب ہم دنیا کے کئی دوسرے ممالک، حکومتوں اور معاشروں کی طرف دیکھتے ہیںتو صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔
برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے بس اسٹاپ پر اُس دن مجھ سمیت دو تین مسافروں کے علاوہ ویل چیئر پر ایک بوڑھا مسافر بھی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بس آئی تو ہم اُس میں سوار ہوگئے، چونکہ مسافروں کو اگلے دروازے سے گزرکر ڈرائیورکی بغل میں لگی مشین سے ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد پچھلی سیٹوں پر جانا ہوتا ہے اس لیے جب ہم نے ٹکٹ بنوائی تو ہماری نظر بس کے ڈرائیور پر بھی پڑی جس کا نسلی تعلق شایدکسی افریقی ملک سے تھا ۔ لمبے قد، موٹے موٹے سیاہ ہونٹوں، گھنگریالے بالوں اور چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھوں کے درمیان اس کے سفید دانت ان افراد پر ایک عجیب کیفیت طاری کرتے ہوں گے جنہوں نے اس سے قبل کسی افریقی باشندے یا حبشی کو نہ دیکھا ہو ۔
میں پچھلی سیٹ کی طرف روانہ ہوا تو بس کا وہ آٹو میٹک دروازہ بھی اس مسافرکے لیے کھل چکا تھا جسے بس کے مسافر اترتے وقت استعمال کرتے ہیں، مگر وہ اتنا کشادہ ہوتا ہے کہ معذور افراداپنی ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے آسانی سے اندر داخل ہوسکتے ہیں ۔
اس کے باوجود باہرکھڑا بزرگ مسافر کوشش کے باوجود بس میں سوار نہیں ہو پا رہا تھا اور نہ ہی کوئی اس کی مدد کے لیے نیچے اتر رہا تھا ۔ یکایک بس کا کالا کلوٹا اور بھاری بھرکم ڈرائیورگاڑی سے نیچے اترا اور ویل چیئر کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دے کر اسے بس کے اندر پہنچا دیا ۔ویل چیئر کے ٹائر لاک کرنے اوراسے ایک سائیڈ پرکھڑا کرنے کے بعد اس نے بزرگ مسافرسے کہا Are you ok ?بزرگ مسافر نے اطمینان سے سر اٹھا کر اسے جواب دیاyes thank you جس کے بعد ڈرائیور دوبارہ اپنی سیٹ پر جا بیٹھا اور بس اپنی منزل کی طرف رواں ہوگئی۔
چند لمحوں بعد مجھے ایسا لگا جیسے بس میں موجود گورے ، کالے، ایشین اور افریقن مسافروں میں سب سے زیادہ خوب صورت وہی کالا ڈرائیور ہے جسے پہلی دفعہ دیکھنے کے بعد ہم جیسے افراد کے ذہن میں ظاہری بد صورتی کا ایک انتہائی بھیانک اور قابل نفرت عکس جھلملانے لگتا ہے ۔ خلیل جبران نے شاید ایسے ہی کسی موقعے پر کہا تھا کہ'' خوبصورتی چہرے سے عیاں نہیں ہوتی بلکہ یہ تو روشنی ہے جو دل میں رہتی ہے۔''
اس بات کو دس سال سے زائدکا عرصہ گزرچکا ہے جس سے قبل اور بعد میںہم راولپنڈی کی ویگنوں، لاہور کے رکشوں اور پشاورکی بسوں کے علاوہ کئی چھوٹے شہروں میں چلنے والے اکا دکا تانگوں میں بھی سفر کرچکے ہیں مگرہمیں ایسا کوئی ایک بھی ڈرائیور دکھائی نہ دیا جو خواتین، بچوں اور بزرگ شہریوں کوکرایہ لینے کے باوجود گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے اس توجہ کا مستحق سمجھتا ہو جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں ۔
لاہور اور پنڈی اسلام آباد کو تو چھوڑیے کہ پنجاب کے دارالحکومت اور وفاقی دارالحکومت کی وجہ سے ان شہروں میں مسافروں کی آمدورفت کے بہت سے جدید منصوبوں پرکام مکمل ہوچکا ہے لیکن ایوب خان کے دور تک دارالخلافے کی حیثیت سے اپنی الگ پہچان رکھنے والے ساحلی شہرکراچی میں پچھلے دس سے زیادہ برسوں کے دوران نہ تو بجلی اور پانی کا کوئی باقاعدہ بندوبست ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا کہیں نام ونشان دکھائی دیتا ہے۔ اس شہر میں بعض دفعہ اعلانیہ اور بہت دفعہ بغیر اعلان کے سی این جی بند کردی جاتی ہے جس کے بعد بڑی بڑی سڑکوں پر بنے بسوں کے اڈے اکا دکا مسافروں کے بجائے مایوس ہجوم کے منظر میں بدل جاتے ہیں۔
چند دن قبل سی این جی کی بندش کی وجہ سے اس شہر کے ہر بس اسٹاپ پر دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں افراد ملوں اورکارخانوں میں دن بھرکی مشقت اور دفتروں میں کام کرنے کے بعدگھر جانے کے لیے بے تاب کھڑے تھے جن میں ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ بوڑھی خاتون بھی اپنے سر پر سامان کی گٹھڑی اٹھائے گھر جانے کے لیے بے تاب تھی اور ہم بھی اُسی مایوس و محروم ہجوم کا حصہ بن کر بس کے انتظار میں کھڑے خود سے زیادہ اپنی صوبائی حکومت کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے جس نے کراچی کی سڑکوں پر ایک سے زیادہ دفعہ پانچ سو سی این جی بسیں لانے کا وعدہ کیا مگر آج تک یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا ۔
اسی اثنا میں میں ایک بس ہمارے قریب آ کر رکی اور ہم دوسرے مسافروں کی طرح اس کی جانب یوں لپکے جیسے یہ اس روٹ پرچلنے والی آخری بس ہو۔ بوڑھی خاتون بھی سر پرگٹھڑی اٹھائے بس کی جانب لپکی ، مگر ڈرائیور نے اسے دیکھ کرگاڑی کو آٹھ دس گز مزید آگے بڑھا دیا۔ دوسرے مسافروں کی طرح گاڑی میں سوار ہونے کی تگ و دو میں، ہم بھی گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگے اورعمر رسیدہ خاتون بھی ہانپتے کانپتے ہمارے ساتھ اس مشقت میں شامل ہوگئی۔اسی دوران ڈرائیور سیٹ پر بیٹھے نوجوان اور گورے چٹے خوب صورت ڈرائیور پر ہماری نظر پڑی جو اپنے کنڈیکٹر سے مخاطب ہوکرکہہ رہا تھا۔
''شبیرخواتین کو مت بٹھانا ۔ بہت دیر لگاتی ہیں۔ صرف مردوں کو بٹھاؤ اورجلدی کرو ایک اور پھیرا بھی لگانا ہے۔'' جس پر ہمارے ذہن میںکئی برسوں کے بعد ایک دفعہ پھر اس کالے کلوٹے حبشی ڈرائیورکی شبیہ ابھری جو ایک معذور اور بوڑھے شخص کی ویل چیئر کو سہارا دے کر بس کے اندر لایا تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ اِس بس میں بیٹھا گورا چٹا ڈرائیور زیادہ خوبصورت ہے یا وہ گمنام حبشی ڈرائیور جس کے کالے رنگ اور بھدے نقوش کی وجہ سے دنیا کے بے شمار لوگ اس سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اس کے دل میں پھوٹنے والی اُس روشنی سے اچھی طرح واقف ہوں گے جسے انسانیت کہا جاتا ہے۔
صرف سرفراز ہی کیا جب ہم اپنے آس پاس نگاہ دوڑاتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے معاشرے میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو ایسا فالتو سامان سمجھا جانے لگا ہے جس کے ہونے یا نہ ہونے سے زندگی کی سرگرمیوں پرکوئی خاص فرق نہیں پڑتا ، لیکن اس سلسلے میں جب ہم دنیا کے کئی دوسرے ممالک، حکومتوں اور معاشروں کی طرف دیکھتے ہیںتو صورتحال بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے۔
برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے بس اسٹاپ پر اُس دن مجھ سمیت دو تین مسافروں کے علاوہ ویل چیئر پر ایک بوڑھا مسافر بھی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بس آئی تو ہم اُس میں سوار ہوگئے، چونکہ مسافروں کو اگلے دروازے سے گزرکر ڈرائیورکی بغل میں لگی مشین سے ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد پچھلی سیٹوں پر جانا ہوتا ہے اس لیے جب ہم نے ٹکٹ بنوائی تو ہماری نظر بس کے ڈرائیور پر بھی پڑی جس کا نسلی تعلق شایدکسی افریقی ملک سے تھا ۔ لمبے قد، موٹے موٹے سیاہ ہونٹوں، گھنگریالے بالوں اور چھوٹی چھوٹی سیاہ آنکھوں کے درمیان اس کے سفید دانت ان افراد پر ایک عجیب کیفیت طاری کرتے ہوں گے جنہوں نے اس سے قبل کسی افریقی باشندے یا حبشی کو نہ دیکھا ہو ۔
میں پچھلی سیٹ کی طرف روانہ ہوا تو بس کا وہ آٹو میٹک دروازہ بھی اس مسافرکے لیے کھل چکا تھا جسے بس کے مسافر اترتے وقت استعمال کرتے ہیں، مگر وہ اتنا کشادہ ہوتا ہے کہ معذور افراداپنی ویل چیئر پر بیٹھے بیٹھے آسانی سے اندر داخل ہوسکتے ہیں ۔
اس کے باوجود باہرکھڑا بزرگ مسافر کوشش کے باوجود بس میں سوار نہیں ہو پا رہا تھا اور نہ ہی کوئی اس کی مدد کے لیے نیچے اتر رہا تھا ۔ یکایک بس کا کالا کلوٹا اور بھاری بھرکم ڈرائیورگاڑی سے نیچے اترا اور ویل چیئر کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دے کر اسے بس کے اندر پہنچا دیا ۔ویل چیئر کے ٹائر لاک کرنے اوراسے ایک سائیڈ پرکھڑا کرنے کے بعد اس نے بزرگ مسافرسے کہا Are you ok ?بزرگ مسافر نے اطمینان سے سر اٹھا کر اسے جواب دیاyes thank you جس کے بعد ڈرائیور دوبارہ اپنی سیٹ پر جا بیٹھا اور بس اپنی منزل کی طرف رواں ہوگئی۔
چند لمحوں بعد مجھے ایسا لگا جیسے بس میں موجود گورے ، کالے، ایشین اور افریقن مسافروں میں سب سے زیادہ خوب صورت وہی کالا ڈرائیور ہے جسے پہلی دفعہ دیکھنے کے بعد ہم جیسے افراد کے ذہن میں ظاہری بد صورتی کا ایک انتہائی بھیانک اور قابل نفرت عکس جھلملانے لگتا ہے ۔ خلیل جبران نے شاید ایسے ہی کسی موقعے پر کہا تھا کہ'' خوبصورتی چہرے سے عیاں نہیں ہوتی بلکہ یہ تو روشنی ہے جو دل میں رہتی ہے۔''
اس بات کو دس سال سے زائدکا عرصہ گزرچکا ہے جس سے قبل اور بعد میںہم راولپنڈی کی ویگنوں، لاہور کے رکشوں اور پشاورکی بسوں کے علاوہ کئی چھوٹے شہروں میں چلنے والے اکا دکا تانگوں میں بھی سفر کرچکے ہیں مگرہمیں ایسا کوئی ایک بھی ڈرائیور دکھائی نہ دیا جو خواتین، بچوں اور بزرگ شہریوں کوکرایہ لینے کے باوجود گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے اس توجہ کا مستحق سمجھتا ہو جس کے وہ حقدار ہوتے ہیں ۔
لاہور اور پنڈی اسلام آباد کو تو چھوڑیے کہ پنجاب کے دارالحکومت اور وفاقی دارالحکومت کی وجہ سے ان شہروں میں مسافروں کی آمدورفت کے بہت سے جدید منصوبوں پرکام مکمل ہوچکا ہے لیکن ایوب خان کے دور تک دارالخلافے کی حیثیت سے اپنی الگ پہچان رکھنے والے ساحلی شہرکراچی میں پچھلے دس سے زیادہ برسوں کے دوران نہ تو بجلی اور پانی کا کوئی باقاعدہ بندوبست ہے اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کا کہیں نام ونشان دکھائی دیتا ہے۔ اس شہر میں بعض دفعہ اعلانیہ اور بہت دفعہ بغیر اعلان کے سی این جی بند کردی جاتی ہے جس کے بعد بڑی بڑی سڑکوں پر بنے بسوں کے اڈے اکا دکا مسافروں کے بجائے مایوس ہجوم کے منظر میں بدل جاتے ہیں۔
چند دن قبل سی این جی کی بندش کی وجہ سے اس شہر کے ہر بس اسٹاپ پر دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں افراد ملوں اورکارخانوں میں دن بھرکی مشقت اور دفتروں میں کام کرنے کے بعدگھر جانے کے لیے بے تاب کھڑے تھے جن میں ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ بوڑھی خاتون بھی اپنے سر پر سامان کی گٹھڑی اٹھائے گھر جانے کے لیے بے تاب تھی اور ہم بھی اُسی مایوس و محروم ہجوم کا حصہ بن کر بس کے انتظار میں کھڑے خود سے زیادہ اپنی صوبائی حکومت کے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے جس نے کراچی کی سڑکوں پر ایک سے زیادہ دفعہ پانچ سو سی این جی بسیں لانے کا وعدہ کیا مگر آج تک یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا ۔
اسی اثنا میں میں ایک بس ہمارے قریب آ کر رکی اور ہم دوسرے مسافروں کی طرح اس کی جانب یوں لپکے جیسے یہ اس روٹ پرچلنے والی آخری بس ہو۔ بوڑھی خاتون بھی سر پرگٹھڑی اٹھائے بس کی جانب لپکی ، مگر ڈرائیور نے اسے دیکھ کرگاڑی کو آٹھ دس گز مزید آگے بڑھا دیا۔ دوسرے مسافروں کی طرح گاڑی میں سوار ہونے کی تگ و دو میں، ہم بھی گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگے اورعمر رسیدہ خاتون بھی ہانپتے کانپتے ہمارے ساتھ اس مشقت میں شامل ہوگئی۔اسی دوران ڈرائیور سیٹ پر بیٹھے نوجوان اور گورے چٹے خوب صورت ڈرائیور پر ہماری نظر پڑی جو اپنے کنڈیکٹر سے مخاطب ہوکرکہہ رہا تھا۔
''شبیرخواتین کو مت بٹھانا ۔ بہت دیر لگاتی ہیں۔ صرف مردوں کو بٹھاؤ اورجلدی کرو ایک اور پھیرا بھی لگانا ہے۔'' جس پر ہمارے ذہن میںکئی برسوں کے بعد ایک دفعہ پھر اس کالے کلوٹے حبشی ڈرائیورکی شبیہ ابھری جو ایک معذور اور بوڑھے شخص کی ویل چیئر کو سہارا دے کر بس کے اندر لایا تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ اِس بس میں بیٹھا گورا چٹا ڈرائیور زیادہ خوبصورت ہے یا وہ گمنام حبشی ڈرائیور جس کے کالے رنگ اور بھدے نقوش کی وجہ سے دنیا کے بے شمار لوگ اس سے نفرت کرتے ہوں گے لیکن ان میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو اس کے دل میں پھوٹنے والی اُس روشنی سے اچھی طرح واقف ہوں گے جسے انسانیت کہا جاتا ہے۔