آپ تو بس آپ ہیں …

لگتا ہے اس حکومت کوکسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں پڑنے والی، یہ خود اپنیمشکلات کے لیے کافی سازوسامان سے لیس ہے۔


راؤ سیف الزماں September 04, 2018

اگر ہم عمران خان حکومت کے ابتدائی چند روزکی کارکردگی کا جائزہ لیں ، تو ہمیں یہ دیکھ کر بہت مایوسی ہوگی کہ یہ حکومت اپنے دعوؤں کے بالکل برعکس ہے ۔اب تک بننے والی تمام تر پالیسیاں سابقہ حکومت کا پر تو ہیں،انھی اعلانات کو دہرایا جارہا ہے یا کریڈٹ لینے کی کوشش جاری ہے ،اس کے علاوہ فیوڈل ازم ،جاگیردارانہ سوچ کا اظہار بھی مکمل ہے ،عثمان بوزدار کا بحیثیت وزیرِ اعلیٰ پنجاب تقرر، وفاقی کابینہ میں سابقہ عسکری و جمہوری دورکے وزراء کا لیے جانا، وہی پروٹوکول ، بدلا کچھ بھی نہیں سوائے چہروں کے۔ ابھی چند روز پہلے مانیکا فیملی کے سربراہ کا پولیس سے تنازعہ، مذکورہ ڈی پی اوکا تبادلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے،مزیدکیا کچھ ہوگا دیکھنا باقی ہے۔

لگتا ہے اس حکومت کوکسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں پڑنے والی، یہ خود اپنیمشکلات کے لیے کافی سازوسامان سے لیس ہے۔ ایسے ایسے کام کرجائے گی، جو تاریخ میں سنہرے الفاظ سے درج ہوں گے، لیکن ادھرمتحدہ اپوزیشن کی کارکردگی کا جائزہ بھی حیران کن ہے، ماشاء اللہ کیا خوب رنگ نکالا ،کسی ایک نقطے پر اتفاق نہیں جہاں دیکھو مشرق ومغرب دکھائی دیتے ہیں، یہ در اصل وہی ناکام و نامراد ، مطلبی سیاستدان ہیں جو عوام الناس کو برسہا برس سے بیوقوف بناتے چلے آرہے ہیں جن کا کبھی کوئی ایجنڈا تھا ہی نہیں اور نہ اب ہے ۔ اسپیکر کے انتخاب سے لے کر صدرکے الیکشن تک ہر جگہ ہر مقام پر اپوزیشن خود اپنی اپوزیشن کررہی ہے، اپنی نفی میں مصروف یہ بیچارے ملک کا کیا بھلا کریں گے ؟ آگے بھی ،پیچھے بھی انھیں بس حکومت سے سروکار ہے یا بیشمار دولت سے ،ایسے میں امید کہاں پر ہے؟ بھروسہ کس پرکیا جائے ؟

اب آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ کیسے اپوزیشن کو یکجا نہیں ہونے دیا جارہا ،یعنی اگر آصف علی زرداری اعتزاز احسن کا نام واپس لے لیں اور صدارتی امیدوار کے لیے مولانا فضل الرحمان کی حمایت کردیں تو پھر ان کے خلاف قائم کیے جانے والے نئے منی لانڈرنگ کیس کا کیا ہوگا ؟ ظاہر ہے انھیں بھی میاں نواز شریف کی طرح سزا ہوجائے گی اور دس مزید کیس کھل جائیں گے لہٰذا انھیں پی ٹی آئی کے عارف علوی کو جتوانا ہوگا، ہر حال میں، ہر قیمت پر ۔آیندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا ۔

جب تک عمران خان کی حکومت پوری طرح مضبوط نہ ہو جائے نہ نواز شریف جیل سے باہر آئیں گے نہ ان کی دختر،کوئی ضمنی الیکشن بھی اپوزیشن نہیں جیت پائے گی ۔ہاں ! جب ہر طرف پی ٹی آئی کے ڈنکے بج رہے ہوں گے اور وہ حقیقی طور پر عوام میں پذیرائی رکھتے ہوں گے تب ممکن ہے جیل والے باہر آجائیں اور کوئی چھوٹا موٹا الیکشن اپوزیشن جیت لیں! واہ رے پاکستان تیری قسمت ،خوب لکھواکر لایا ہے اوپر والے سے ۔ قارئینِ کرام آپ یقین کیجیئے چند ماہ ہوئے مہینے ٹی وی کا کوئی بھی چینل بہت کم دیکھا ہوگا ،دلچسپی ہی نہیں رہی ۔ایک تو میڈیا بری طرح سے نرغے میں ہے ہر اس جگہ سنسر ہے جہاں سچ بولنے کی کوشش کی جارہی ہو۔ ورنہ ہمارے ایجنڈے پر آجاؤ تو ترقی دیں گے، یہ ہے اپنا پاکستان ۔

معروف ترین صحافی جنکی ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہے اور جو گفتگو کریں تو ایسی کہ الامان ،معلومات کے دریا بہادیں ،دانشوری ان پر تمام ، قصیدہ خوانی بھی اتنی ہی عمدہ کرتے ہیں، میری رائے میں انسان آزاد پیدا ہوا ہے اسے آزاد ہی مرنا چاہیے اورکام وہی کیا جائے جسے کرنے کا آپ میں حوصلہ ہو ، ورنہ آپ کا مذاق بن جاتا ہے ۔مانا کہ جبر ہے ، لیکن جناب انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ، بارہا ہوا جبرکے قوانین بنائے گئے، سر اتار دیے گئے جنھیں لکھنا تھا جنہوں نے ذمے داری اٹھائی تھی وہ لڑتے رہے ،مرتے رہے اور لکھتے رہے ،یا پھر آپ کوئی ذمے داری لیتے ہی کیوں ہیں؟ کم ازکم ضمیر پرکوئی بوجھ تو نہ ہوگا ۔کم از کم آپ اللہ کی عدالت میں تو سرخرو ہونگے وہاں جھوٹ تو نہیں بولنا پڑے گا ۔یوں کہنے کو بہت مایہ ناز صحافی کہلائے جاتے ہیں ۔

معیشت کا برا حال ہے لیکن اس کی ایک بڑی وجہ تسلسل کا ٹوٹ جانا یا توڑا جانا بھی ہے جب کوئی حکومت کامیابی سے قریب تر ہوتی ہے اسے فارغ کردیا جاتا ہے اورکوئی نیا آجاتا ہے جو اپنی نئی پالیسیز تشکیل دیتا ہے اور بیڑا غرق، پھر وہیں سے شروع ۔ایسا ہی ملکی سیاستدانوں کی فیکٹریزکا حال ہے ایک کھیپ آتی ہے، مطلب لائی جاتی ہے وہ ابھی پوری طرح سنبھل بھی نہیں پاتے کہ انھیں عوامی ہونے کا شوق چرانے لگتا ہے اور بدبختی شروع ، پھر وہ فارغ نئی کھیپ کی تیاری، نئے چہرے پرانے فارغ بلکہ جیل میں ۔لیکن اس سارے گندے ،غلیظ کھیل میں ملک کا بیڑا غرق ہوگیا ،کہتے ہیں یہ ملک اب ناقابلِ تسخیر ہے ،ایٹمی قوت ہے، لیکن روس بھی تو ایٹمی قوت تھا پھر ٹوٹ کیسے گیا ؟

اسے اندر سے توڑا گیا لیکن بنیادی غلطی خود انھی کی تھی وہ ایک ایسے فرسودہ اور غیر فطری نظام کو جاری وساری رکھنے پر تلے ہوئے تھے جو اپنے معانی کھوچکا تھا ،جہاں انسان اندر سے کھوکھلا ہوچکا تھا ۔اور جب وہ اس قدر کمزور ہوگیا کہ ایک دھکے کی مار بھی نہ سہہ سکے تو اسے وہ دھکا دے دیا گیا ،بالکل ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے،اب ملکوں پر حملے کرنے کا دور نہیں ہے بلکہ انھیں اندر سے کمزور کرکے توڑا جاتا ہے۔آخرکیوں نہیں چلنے دیا جاتا ایک نظام کو؟کیوں غیر فطری تجربات کیے جاتے ہیں؟ میں کہتا ہوں فطرت ہزار بار بدلے کسی کو، ہزار بار فطری تبدیلی آئے ،جیسے ایک پودا لگتا ہے ایک کونپل پھوٹتی ہے ایک درخت پھیلتا ہے اور سایہ دارہوتا ہے یہ فطرت ہے ۔

ہم ہم اور صرف ہم ،کیا ملے گا اس سے ،کیا ملا ہے اس سے؟ آج انڈیا میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو دیکھیں ،شام ،فلسطین،برما،کشمیر،افغانستان ،عراق ۔کیا ہم اسی طرف جارہے ہیں کیا ہم اب ایک آخری دھکے کی مار رہ گئے ہیں یا رہ جائیں گے ؟ خدا نہ کرے ،ہوش کے ناخن لیں ۔چلیں آپ بتادیں کیا تبدیلی آگئی ملک میں ؟ سوائے اس کے بہت سے انقلابی منصوبے برباد ہوگئے ،چائینہ پیک ،گوادر پورٹ سب ختم کون اب آپ پر اعتبار کرے گا ،آیندہ کیا معیار رہا آپ کا ؟ ڈالر بڑھ گیا، معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا لیکن آپ کا شوق پورا ہوگیا ۔

آپ کی حکومت آگئی ،آپکی ناک بڑی ہوگئی طے ہوگیا کہ آپ کے بغیر ملک میں کوئی سیاسی،غیر سیاسی جماعت نہیں چل سکتی ۔چلیں ہوگیا لیکن اس سے ملا کیا آپ کو ،ویسے بھی تو ملک میں آپ ہی آپ تھے ستر سالوں سے آپ ہیں ، رہیں گے اللہ آپ کے اقتدار کو مزید دوام بخشے لیکن ایسا ملک کا بیڑا غرق کرکے نہ کیا کریں راستے اور بھی ہیں ،کوئی کم نقصان والا چن لیں بس آپ سے یہی گزارش کرنی تھی، امید ہے برا نہیں مانیں گے کیوں کہ پیمپر میں بھی جیب میں رکھتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔