آج کے دن کا اہم ترین سوال پاکستان کا نیا صدر کون

قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے ارکان خفیہ رائے شماری سے نئے سربراہ مملکت کا انتخاب کریں گے، مقابلہ سنسنی خیز ہونے کی توقع۔


سید عاصم محمود September 04, 2018
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان خفیہ رائے شماری سے نئے سربراہ ِمملکت کا انتخاب کریں گے، مقابلہ سنسنی خیز ہونے کی توقع۔ فوٹو: فائل

آج وطن عزیز کی قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان پارلیمنٹ کا خصوصی سیشن منعقد کر کے تیرہویں سربراہ مملکت کا انتخاب کریں گے۔

صدر مملکت کا عہدہ باسٹھ سال قبل آئین 1956ء کی منظوری کے بعد تخلیق کیا گیا۔ اب تک پندرہ رہنما اس عہدے پر فائز ہوچکے۔ 1973ء کے آئین کی رو سے 45 سال سے زیادہ عمر کا صرف مسلمان فرد ہی صدر پاکستان بن سکتا ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک غیر سیاسی عہدہ ہے کہ صدر وفاق پاکستان کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔

ماضی میں وزیراعظم پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی خاطر بذریعہ آئینی ترامیم صدر پاکستان کے پاس قومی اسمبلی ختم کرنے یا وزیراعظم کو ہٹانے کے اختیارات موجود تھے۔ تاہم اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد صدر درج بالا اختیارات سے محروم ہوچکا۔ صدر پاکستان اب سرکاری و نجی تقاریب میں شرکت اور غیرملکی صدور کا استقبال کرتا ہے۔ وزیراعظم اور ملٹری ہائی کمانڈ کے مشورے پر سول و عسکری تقرریاں کرنے کی ذمہ داری بھی انجام دیتا ہے۔ صدر پھانسی کے منتظر مجرمان کو معافی دینے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔

صدر کا انتخاب کرنے کی خاطر پاکستان میںمخصوص الیکٹرول کالج رائج ہے۔ اس کی رو سے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان ایک ایک ووٹ رکھتے ہیں جبکہ ارکان صوبائی اسمبلیوں کی تعداد سب سے چھوٹی صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد لحاظ سے تقسیم کی گئی ہے۔ بلوچستان اسمبلی سب سے چھوٹی ہے جس کے ارکان کی تعداد 65 ہے۔

لہٰذا بقیہ تین صوبائی اسمبلیوں کے ووٹ بھی اس طرح تقسیم کیے جاتے ہیں کہ ہر اسمبلی کے کل 65 ووٹ بن جائیں۔ اس طرح پنجاب اسمبلی میں 5.70 ارکان مل کر ایک ووٹ بناتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 1.90 جبکہ سندھ اسمبلی میں 2.58 ارکان کا ایک ووٹ بنتا ہے۔ الیکٹرول کالج کے کل ووٹوں کی تعداد 706 ہے۔(تاہم سینٹ و اسمبلیوں میں خالی نشستوں کی وجہ سے حالیہ انتخاب میں ان کی تعداد 679 ہے)

آج صدارتی انتخاب میں ڈاکٹر عارف علوی (حکمران اتحاد)اور اعتزاز احسن اور مولانا فضل الرحمن (حزب اختلاف) کے مابین مقابلہ ہے۔ اعدادو شمار دیکھے جائیں تو ڈاکٹر عارف علوی کا پلڑا بھاری ہے جو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی ،تحریک انصاف کے رہنما ہیں۔قومی اسمبلی میں بشمول اتحادیوں کے تحریک انصاف کی 176 نشستیں ہیں جبکہ حزب اختلاف کے 151 ارکان ہیں۔

تین ارکان آزاد ہیں جبکہ 12 نشستوں پر انتخاب ہونا باقی ہے۔ سینٹ میں حکمران اتحاد کے 25 ارکان ہیں۔11 ارکان آزاد حیثیت رکھتے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی 68نشستیں ہیں۔دو ارکان آزاد ہیں۔ (دوارکان کا انتخاب ہونا ہے۔) گویا پی ٹی آئی اتحادیوں سمیت پارلیمنٹ میں 201 الیکٹرول ووٹ رکھتی ہے جبکہ حزب اختلاف کے 219 ووٹ ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں حکمران اتحاد کے پاس اپنے ارکان کی تعداد کے لحاظ سے 32 الیکٹرول ووٹ جبکہ حزب اختلاف کے 29 ووٹ ہیں۔ ایک ووٹ آزاد امیدوار رکھتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں حکمران اتحادکے 26 الیکٹرول ووٹ ہیں۔ حزب اختلاف 38 ووٹ رکھتی ہے۔بلوچستان اسمبلی میں حکمران اتحاد 43 الیکٹرول رکھتا ہے جبکہ حزب اختلاف کو 18 ووٹ ملتے ہیں۔ خیبرپختونخواہ اسمبلی میں ارکان حزب اقتدار کے پاس 42 ووٹ ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں 16 ووٹ رکھتی ہیں جبکہ دو ووٹ آزاد امیدوار کو ملتے ہیں۔

درج بالا اعدادو شمار کی رو سے حکمران اتحاد صدارتی انتخاب کے الیکٹرول کالج میں'' 344 ووٹ'' رکھتا ہے۔ حزب اختلاف کے پاس'' 320 ووٹ ''ہیں۔ آزاد امیدواروں کے حصے میں 22 ووٹ آتے ہیں۔ گویا آزاد امیدوار حزب اختلاف میں شامل ہوجائیں تو بھی ڈاکٹر عارف علوی کی جیت یقینی ہے۔ اگرچہ روایتی طور پر اکثر آزاد امیدوار حکمران پارٹی کے نمائندے کو ووٹ دیتے ہیں۔اگر الیکشن میں حزب اختلاف کے دو امیدواروں ہی نے حصہ لیا تو حزب اقتدار کی جیت یقینی ہے۔

اس انتخاب کے موقع پر ماہرین سیاسیات اور دانش وروں کے مابین یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ پاکستان میں صدارتی طرز حکومت بہتر رہے گا یا موجودہ پارلیمانی نظام حکومت؟ ماہرین کی آرا دیکھی جائیں تو یہ دونوں نظام ہائے حکومت اپنی اپنی خوبیاں اور خامیاں رکھتے ہیں۔ تاہم دانش وروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ پاکستان میں صدارتی طرز حکومت زیادہ مفید اور عوام دوست ثابت ہوگا۔یہ سمجھنے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی طرز حکومت عوام الناس کو زیادہ فوائد نہیں پہنچا سکا۔ وہ ترقی و خوشحالی کے ثمرات سے محروم رہے۔

اس لیے کہ پارلیمانی طرز حکمت کی خامیوں سے فائدہ اٹھا کر ایک مخصوص ٹولہ بیشتر قومی وسائل پر قابض ہو گیا۔ وہی حکومت کرتا اور اپنے مفادات پورے کر لیتا ہے۔ عام لوگوں تک ترقی کے فائدے کم ہی پہنچے۔ عوام اس مخصوص کرپٹ ٹولے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ، طاقتور اور بااثر ہے۔صدارتی طرز حکومت میں مخصوص ٹولہ نہیں بنیادی طور پہ ایک شخص ... صدر ہی حکومت کے سبھی اچھے برے کاموں کا ذمے دار ہوتا ہے۔

لہٰذا عوام کے لیے اس پر نظر رکھنا اور اسے جواب دہ بنانا آسان ہے۔ عوام اس کے ہر عمل کو جانچتے پرکھتے اور اپنی رائے دیتے ہیں۔ لہٰذا صدارتی طرز حکومت میں صدر کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ کچھ کر کے دکھائے' عوام دوست اقدامات کرے' ان کے واسطے ترقیاتی منصوبے بنائے۔ اگر وہ خالی خولی دعوی کرے' باتوں سے رجھانے کی کوشش کرے' تو عوام و میڈیا کی زبردست تنقید کا نشانہ بن جاتا ہے۔

گویا پارلیمانی نظام حکومت میں قوتوں کا مرکز... وزیراعظم بنیادی طور پر محدود سی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہے۔ جبکہ صدارتی نظام حکومت میں طاقت کا سرچشمہ' صدر ہر وقت عوام کی عدالت میں حاضر رہتا ہے۔ وجہ یہی کہ صدر کو تمام تر طاقتیں عوام کی بدولت ہی ملتی ہیں۔پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ صدر اور آمر (ڈکٹیٹر) ایک ہی شے ہیں۔ یہ تاثر اس لیے پیدا ہواکہ جب بھی وطن عزیز میں سیاسی افراتفری اور ہنگامے عروج پر پہنچے' تو جرنیلوں کو کار مملکت چلانے کے لیے حکومت سنبھالنا پڑی۔ تب وہ صدر بن کر ہی حکومتیں چلاتے رہے۔

یہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے نہیں تھے، دگر گوں سیاسی ماحول نے انہیں حکومت سنبھالنے پر مجبور کیا۔ لہٰذا ایک طرح سے آمر کا روپ دھار کر انہیں حکومت چلانا پڑی۔ صدارتی طرز حکومت میں عوام بذریعہ الیکشن صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ اب وہ مملکت اور حکومت ' دونوں کا سربراہ ہے۔ وہ پھر پیشہ ورانہ امور میں طاق و تجربے کار مروزن منتخب کر کے اپنی کابینہ بناتا ہے۔ اس کا بینہ کی تمام تر توجہ اور توانائی گڈ گورننس اور عوام دوست اقدامات کرنے پر مرکوز ہوتی ہے۔ صدر یا وزیراعظم کو اپنی کرسیاں بچانے کی فکر و پریشانی لاحق نہیں رہتی۔

جبکہ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم کی بیشتر توانائیاں اپنی کرسیاں اور اپنا اقتدار بحال رکھنے پر صرف ہوتی ہیں۔ترکی میں حکمران جماعت کے ساتھ کئی سال یہی مسئلہ درپیش رہا۔ طیب اردوان اور ان کے وزرا سیاسی جوڑ توڑ میں منہمک رہتے تاکہ حزب اختلاف کی چالیں ناکام بنا سکیں۔ آخر طیب اردوان نے صدارتی طرز حکومت کو اپنا لیا تاکہ بیشتر طاقتیں عہدہ صدر میں مرتکز ہو جائیں۔ مقصد یہ تھا کہ صدر سیاسی جوڑ توڑ سے ماورا ہو کر گڈ گورننس پر بھرپور توجہ دے ۔

یہ خطرہ بہر ہ حال موجود ہے کہ طاقتوں کا ارتکاز خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے صدر کو آمر بنا دے۔ لیکن ایسا نام نہاد جمہوری صدر زیادہ عرصے کام نہیں کر پاتا۔ دور جدید میں میڈیا نے عوام کو اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں بہت آگاہی دی ہے۔اب عوام اتنے باشعور ضرور ہو چکے کہ وہ اگلے الیکشن میں کارکردگی نہ دکھانے والے صدرکا بوریا بستر گول کر دیں۔ تاہم پارلیمانی طرز حکومت میں نشوونما پانے والے مخصوص کرپٹ ٹوٹے سے عوام اتنی آسانی سے چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ اس ٹولے کو ختم کرنے یا راہ راست پر لانے کی خاطر عوام کو بہت زیادہ جدوجہد اور تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کے عوام اسی قسم کے دور سے گذر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں