ہم نے کی محنت اور پایا انعام

نامساعد حالات کے باوجود کامیابی کرنے والے طلباء کی جدوجہد کی کہانی

نامساعد حالات کے باوجود کامیابی کرنے والے طلباء کی جدوجہد کی کہانی. فوٹو : فائل

سردار مسیح اور اُس کی اہلیہ اب بوڑھے ہو چکے تھے لیکن اِس بڑھاپے میں بھی ان کے معمول میں فرق نہ آیا۔

سردی ہو یا گرمی، وہ دونوں صبح سویرے اُٹھتے، جھاڑو اُٹھاتے اور شہر کی مختلف گلیوں، چوراہوں پر پہنچ کر جھاڑو دیتے۔ اگرچہ اُن کی پوری زندگی غربت میں گزری لیکن اُن کے خواب بہت بڑے تھے۔ وہ اپنے بیٹے ''لبھے'' کو کسی اعلیٰ عہدے پر فائز دیکھنا چاہتے تھے۔

وہ ایسا کیوں سوچتے تھے؟ اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو سردار مسیح کا غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود یہ پکا یقین تھا کہ ''ترقی تعلیم دے نال ای ہوندی ہے۔'' (ترقی تعلیم سے ہی ہوتی ہے) اور دوسرا جب وہ اپنے ''لبھے'' کو دن بھر ٹیوشن پڑھاتے اور رات کو کتابوں میں گم دیکھتے تو اُن کا یقین اور زیادہ پختہ ہو جاتا۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور وہ دن آہی گیا جس کا اُنہیں برسوں سے انتظار تھا۔



ملک کے بڑے اخباروں اور ٹی وی چینلز میں یہ خبر شائع ہوئی کہ: '' اوکاڑہ کی گلیوں بازاروں میں جھاڑو دینے والے غریب ماں باپ کا بیٹا ذیشان عرف لبھا مسیح پنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے جج بن گیا۔''

کوئلے کی کان میں پڑے ''کو ہ نور'' کی یہ کہانی ہمارے لیے کوئی نئی نہیں ہے۔ گزشتہ برس اسی طرح کی تین خبروں نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ پہلی خبر کوٹلی کے ایک کچرا چننے والے نوجوان قیانوس خان کی تھی جس نے میٹرک کے امتخانات میں ضلع بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ دوسری خبر تندور پر روٹیاں لگانے والے حافظ آباد کے نوجوان علی محسن کی تھی جس نے پنجاب میں بی اے کے امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، اور تیسری خبر ملتان میں ہوٹل پر برتن مانجھنے والے طالب علم محمد شفیق کی تھی جس نے انٹرمیڈیٹ آرٹس گروپ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

لبھا مسیح اور اِس جیسے دیگر کرداروں نے اپنی کام یابی سے جہاں معاشرے کی دو بڑی خامیوں کو اُجاگر کیا ہے وہاں ایک بہت بڑے راز سے بھی پردہ اُٹھایا ہے۔ ہماری پہلی خامی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی نا اہلی، کوتاہی اور غفلت کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں، اور اُن میں سب سے آسان ہدف حکومت ہے۔ مثال کے طور پر جلد بازی اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں ہم خود ٹریفک جام کا سبب بنتے ہیں اور پھر گالیاں حکومت کودیتے ہیں۔


اسی طرح اگر ہمارا بچہ تعلیمی عمل میں دل چسپی نہیں لے رہا، اُس کے امتحانات میں نمبر کم آرہے ہیں تو بجائے اس کے کہ اُس پر مزید توجہ دیں، ہم سارا ملبہ نظام تعلیم اور حکومت پر ڈال دیتے ہیں، اور طرح طرح کے حیلے بہانے بنا کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی لوڈشیڈنگ کو کوستا ہے تو کوئی اساتذہ کے رویے کو۔ کوئی نصاب تعلیم کو مورد الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی ملکی صورت حال کو۔ ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ساری خرابیاں موجود ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان مسائل سے نمٹنے کی بھی صلاحیت عطا کی ہے۔ لبھا مسیح نے بڑی خوب صورت بات کہی۔ اُس نے کہا کہ: ''پاکستانی بچوں کو محنت اور کوشش کرنی چاہیے۔ کیوںکہ چیخیں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔''

لبھا مسیح ٹھیک کہتا ہے۔ واقعی چیخیں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہم دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے محنت کو اپنا شعار بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کام یابی ہمارے قدم نہ چومے۔ اردو کا ایک مقولہ ہے۔''کام کرنے کے سو بہانے اور نہ کرنے کے سو بہانے۔'' لبھا مسیح کی کام یابی میں اُس کے والدین کا بھی بڑا اہم کردار ہے جنہوں نے کبھی مایوسی کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ لوڈ شیڈنگ اُن کے گھر میں بھی تھی۔ غربت نے وہاں بھی ڈیر ے ڈال رکھے تھے۔ اُن کے سر پر بھی وہی حکومت تھی جو ہمارے سروں پر ہے، لیکن اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اپنی کوتاہیاں دوسروں پر تھونپنے کے بجائے اُن کا مقابلہ کیا تو اُن کی محنت رنگ لائی اور آج وہ اپنی محنت کا پھل کھا رہے ہیں۔



ذکر کر تے ہیں اُس راز کا جس سے لبھے کی کام یابی نے پردا اُٹھایا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ '' اچھا ذہن کسی کی میراث نہیں ہوتا۔'' یہ گوہر امیر کے محل میں بھی پایا جا سکتا ہے، اور خاک روب سردار مسیح کے ڈیڑھ مرلے کے مکان میں بھی۔ یہ ایک بیج کی مانند ہو تا ہے جسے ذرخیز زمین، مناسب آب و ہوا اور موسمی اثرات سے محفوظ رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ پھل نہ دے۔ ہماری دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ ہم اس بیج کو شناخت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اسے ساحلی مٹی میں دبا کر اس سے آم کا درخت پیدا ہونے کی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں بچے کی ذہنی صلاحیت جانچنے، اس کے رجحانات اور دل چسپیوں کو پرکھنے پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ ابتدائی عمر سے ہی اُس کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اُسے کیا پسند ہے، کس طرح کے دوستوں سے مل کر اُسے خوشی ہوتی ہے۔ اُس کے پسندیدہ کھلونے کون سے ہیں۔

وہ کون سی چیز جلدی سیکھ جاتا ہے، وغیرہ وغیر ہ۔ بچے کا ذہنی معیار جانچنے کے بعد اُسے اُس کے معیار کے مطابق نصاب تعلیم اور تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں تعلیمی نظام ابھی جدید خطوط پر استوار نہیں ہوا اور یہاں وہ سہولتیں موجود نہیں ہیں جو دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بچوں کو فراہم کی جاتی ہیں لیکن اس دلیل کو بنیاد بناکر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھا جا سکتا۔

والدین چاہے ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو لیکن اُن سے بڑھ کر اپنے بچے کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر والدین بچوں کی صلاحیتوں کا ادراک کر لیں اور اُنہیں اُن کے معیار کے مطابق تعلیم فراہم کریں تو ترقی کے زینے پر اُن کے بچے بھی قدم رکھ سکتے ہیں۔ دوسری اہم ذمہ داری اساتذہ پر عاید ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد سمجھ کر اُن کی تربیت کریں اور بچوں کی کارکردگی سے وقتاً فوقتاً والدین کو آگاہ کرتے رہیں تاکہ ابتدائی عمر میں ہی بچے کو مناسب سمت فراہم کی جا سکے اور وہ اُس پر چل کر منزل تک پہنچ جائے۔
Load Next Story