طبقاتی نظام تعلیم کا ناسور

متوسط طبقے میں نا اُمیدی بڑھ رہی ہے، اساتذہ کردار ادا کریں


ایم اے شاہ May 27, 2013
دہشت گردی، جہالت، بدامنی، معاشی بدحالی، بے روزگاری، غربت، بھوک و افلاس کے خلاف جہاد میں سب سے موثر ترین ہتھیار تعلیم ہے۔ فوٹو : فائل

QUETTA: دہشت گردی، جہالت، بدامنی، معاشی بدحالی، بے روزگاری، غربت، بھوک و افلاس کے خلاف جہاد میں سب سے موثر ترین ہتھیار تعلیم ہے۔

اسی لیے کہا گیا ہے کہ کسی ملک یا قوم کو تباہ کرکے رعایا پر حکم رانی کرنا مقصود ہو تو اس کے نظام تعلیم کو تباہ کردو، وہ قوم خود اپنے ہاتھوں فنا ہونے کے تمام اسباب پیدا کرکے ذلت کی پستیوں میں اُتر جائے گی۔ موجودہ دور جدید میں قوموں پر حکم رانی کے لیے جنگ و جدل اور کشت و خون کے دریا بہانے کے بجائے مذکورہ قول پر عمل کر کے ملکوں اور قوموں کو ذہنی غلام بنایا جا رہا ہے۔

ہمارے حکم ران فروغ و معیار تعلیم کے لیے بلند و بانگ دعوے تو کر تے ہیں مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے سبب معیار تعلیم دن بدن روبہ زوال ہے۔ فروغ تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ طبقاتی نظام تعلیم ہے جس نے پوری قوم کو منقسم کر رکھا ہے۔ غرباء کے لیے اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلانا خواب بن کر رہ گیا اور امراء اپنے لاڈلوں کو آسائشوں سے بھرپور ماحول میں جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں۔ طبقاتی نظام تعلیم سے فروغ و معیار تعلیم کو جس بری طرح نقصان پہنچا اور مسلسل پہنچے جارہا اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔



بالخصوص سکھر سمیت سندھ کے پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ کہیں انتظامی معاملات چلانے کے لیے فنڈز کی کمی کا رونا ہے تو کہیں با اثر افراد کی جانب سے درس گاہوں کو اپنی اوطاقیں بنانے کا دُکھڑا ہے۔ سکھر سمیت اندرون سندھ میں آج بیچلرز، ماسٹرز ہولڈرز نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں اٹھائے کبھی اِس در تو کبھی اُس در کے دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر قابلیت نہیں۔

وقت اور پیسے کا ضیاع کرکے انہوں نے ڈگریاں تو حاصل کرلی ہیں مگر خود میں وہ قابلیت پیدا نہیں کرسکے کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے اپنا لوہا منوا سکیں۔ محکمہ تعلیم سکھر کی جانب سے گزشتہ دنوں انجام دیے جانے والے کارنامے کا ذکر بے جا نہ ہوگا۔ محکمہ تعلیم کے زیر اہتمام سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، گھوٹکی، خیرپور، نوشہروفیروز و دیگر چھوٹے و بڑے شہروں میں ایجوکیشن لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے پہلی سے آٹھویں جماعت کے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک ہی دن میں کلاس اول تا سوئم کے طلبہ و طالبات سے انگلش، اردو، اسلامیات، سائنس، معاشرتی علوم اور ریاضی مضامین کے پرچے لے لیے گئے جو کہ اپنی نوعیت کا منفرد اور ریکارڈ کا حصہ بننے والا کارنامہ ہے۔ ایک ہی پرچے کے دونوں اطراف چھ مضامین کے سوالات درج کیے گئے تھے اور چھ مضامین پر مشتمل سوال نامے کو حل کرنے کے لیے صرف تین گھنٹے کا وقت مختص کیا گیا۔ چھ مضامین کا پرچہ دیکھ کر طالب علم پریشان ہوگئے۔

بعد ازاں انہوں نے والدین سے رابطہ کرکے صورت حال سے اُنہیں آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر ایجوکیشن سکھر جے رام داس نے موقف اپنایا کہ حکومت کی پالیسی ہے کہ یکم تا سوئم کلاس تک کے تمام طلبہ و طالبات کو پیپر لیے بغیر پروموٹ کیا جائے۔ ہم نے میٹنگ میں یہ بات اٹھائی تھی کہ بچوں کو پیپر کے حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے تاکہ وہ پریشان نہ ہوسکیں۔ اس لیے ہم نے ایک پیپر پر 6 مضامین کے سوال دیے ہیں جو کہ انتہائی آسان ہیں، جس سے طلبہ و طالبات کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔ پہلی تا سوئم کلاس تک کے طلباء سے بغیر پیپر لیے بغیراگلی کلاس میں بھیجے جانے والی حکومتی پالیسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت فروغ و معیار تعلیم کے لیے کتنی مخلص ہے۔



عظیم مفکر و دانش ور جون ایلیا کہہ گئے ہیں کہ تعلیم و صحت کے ایک خاص نقطہ انجماد پر پہنچے بغیر ملکی ترقی و خوش حالی کے متعلق سوچنا ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے حکم ران ملک کو ترقی کی شاہ راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی و منصوبوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے تو ملا رہے ہیں مگر حقیقت میں عملی اقدامات اس کے برعکس کرکے تعلیم کو تباہی کی عمیق ترین پستیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ حکم رانوں نے اپنے ارد گرد معیار تعلیم کی تباہ حالی سے لاتعلقی کی اتنی اونچی دیوار کھڑی کر رکھی ہے کہ انہیں اپنی ذات سے باہر جھانکنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔

وہ اپنی دھن میں مگن ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شمار کرنے کی جدوجہد میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ انہیں ترقی کے لیے لازمی جز تعلیم پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو تعلیم ترقی کی منزل پر پہنچنے والی سیڑھی ہے۔ جب تک سیڑھی مضبوط نہیں ہوگی اس وقت تک منزل تک پہنچنا ممکن نہیں۔ تعلیم کی سیڑھی کا پہلا زینہ معیار تعلیم ہے، جس میں استاد کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے متوسط طبقے کے طلباء احساس کمتری و مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں، جسے دور کرکے ان میں امید کی نئی کرنیں پیدا کرنا استاد کا فریضہ ہے۔

امید ایک ایسی چیز ہے جو مایوس دلوں میں نئی زندگی اور حرارت پیدا کرتی ہے۔ انسان ذہنی طور پر تب بیمار اور مردہ ہونے لگتا ہے جب اس کے اندر سے امید ختم ہوجاتی ہے۔ نا امیدی انسان کو زندگی میں ہی موت سے ہمکنار کر دیتی ہے اور امید مردہ دلوں کو پھر سے زندہ کر دیتی ہے۔ موجودہ حالات میں طبقاتی نظام تعلیم کا شکار طلباء کے لیے استاد امید کا دوسرا نام ہے۔

ایسے حالات میں سرکاری درس گاہوں میں مڈل کلاس طبقے کے طلباء کو علم کی روشنی سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ طلباء میں احساس محرومی، کمتری و نا امیدی کو ختم کرکے حصول علم کے شوق کو بڑھاوا دیں۔ اگر ہم فروغ تعلیم اور معیار تعلیم کی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کرکے ملک کے گوشے گوشے میں شمع علم روشن کردیں تو غلامی کی غیر مرئی زنجیر میں پھنسنے کے بجائے ملک خداداد کو ترقی یافتہ اور خوش حال ریاست بناسکتے ہیں اور ایسا کرنے سے ہمیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں