بلوچستان میں سالانہ امتحانات اور نقل کا بڑھتا رجحان

چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟


بلوچستان میں گزشتہ دس برسوں سے امتحانات اساتذہ یونینز اور بورڈ مافیا کے لیے ایک وسیع منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: تعلیمی نظام میں امتحانات کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔

امتحانات کی بدولت طلباء کی ذہنی صلاحیت پرکھی جاتی ہے۔ اس معیار کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے کہ طلباء و طالبات تعلیم کو کس قدر سنجیدگی سے لے رہے ہیں، نیز کن مضامین میں اُن کی کارکردگی بہتر اور کن مضامین میں وہ کم زور ہیں۔ اسی معیار کو مدنظر رکھ کر طلباء کی اگلی کلاسوں میں ترقی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے موجودہ تعلیمی نظام کی طرح امتحانی نظام، اس کے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار میں بھی کئی پیچیدگیاں پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد تعلیمی نظام اور بالخصوص امتحانی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے، ہر سال اس پر نت نئے تجربات ہو رہے ہیں وہیں ہمارا امتحانی نظام آج بھی اُسی پرانی روش پر چلایا جارہا ہے جو اب متروک ہو تا جا رہا ہے۔

صوبہ بلوچستان کی بات کی جائے تو یہاں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے سالانہ امتحانات کے لیے مجموعی طور پر دو ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کوئٹہ اور یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ کا بورڈ شامل ہے۔ بلوچستان بورڈ پورے صوبے میں میٹرک، انٹرمیڈیٹ کے امتحانانی امور چلاتا ہے جب کہ یونیورسٹی بورڈ پورے صوبے میں گریجویشن، ماسٹرز اور مختلف پروفیشنلز ڈگریوں کے امتحانات جن میں ایم بی بی ایس، ایم ایڈ، بی ایڈ شامل ہیں، کی نگرانی کرتا ہے۔

بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن صوبہ بھر میں ہر سال لاکھوں طلباء و طالبات کے امتحانات بالخصوص میٹرک، ایف اے، ایف ایس سی، آئی سی ایس کا انعقاد کرواتا ہے جن میں تیس اضلاع سے لاکھوں طلباء و طالبات بیک وقت حصہ لیتے ہیں۔ بورڈ ان امتحانات کا انعقاد سرکاری اساتذہ، بورڈ کے ملازمین کے ذریعے کرواتا ہے۔

بلوچستان میں گزشتہ دس برسوں سے امتحانات اساتذہ یونینز اور بورڈ مافیا کے لیے ایک وسیع منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اکثر اساتذہ یونین کے نمائندے اور بورڈ مافیا مبینہ طور پر امتحانات میں ڈیوٹی لگانے کے لیے سیاسی اور بیورو کریسی کا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور بعض دیگر کاروباری شہروں میں امتحانی مراکز باقاعدہ نیلام ہوتے ہیں۔ ان امتحانی مراکز میں عموماً امیر و بیوروکریٹ طبقات کے بچے اور پرائیویٹ اسکولوں کے طلباء و طالبات امتحانات دیتے ہیں۔ ان مراکز میں بعض بدعنوان اساتذہ بورڈ مافیا کی ملی بھگت سے اپنی ڈیوٹی لگواتے ہیں اور بچوں کو نقل کروا کر لاکھوں روپے کماتے ہیں۔

نقل کروانے کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں اُن میں پرچہ آؤٹ کرنا اور موبائل فون کا استعمال عام ہے۔ یوں صوبے بھر میں سالانہ امتحانات اور تعلیم کی اہمیت و افادیت بالکل ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ جب کہ اعلیٰ حکام نے اس سنگین مسئلے پر اپنی آنکھوں بند کر رکھی ہیں۔

نقل کروانے کا یہ کاروبار فقط کمرہ امتحان تک ہی محدود نہیں بلکہ سائنسی مضامین کے پریکٹیکلز میں بھی یہ ناسور موجود ہے۔ مبینہ طور پر بعض بدعنوان اساتذہ طلباء سے پریکٹیکلز پاس کروانے اور اچھے نمبر دینے کے پیسے لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں پریکٹیکلز نوٹ بک کو سرعام فروخت کیا جاتا ہے۔



یہی صورت حال بی اے، بی ایس سی، ایم اے، ایم ایس سی کے امتحانات میں بھی کچھ مختلف نہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ایک طرف پرائیویٹ امیدوار دو سال میں ایم اے کی ڈگری گھر بیٹھے حاصل کرتے ہیں تو دوسری طرف پروفیشنل ڈگریاں، ایم ایڈ، بی ایڈ، سی ٹی، پی ٹی سی وغیرہ کے امتحانات میں پرائیویٹ کالجز بھاری فیسوں کے بدلے پورا سال غائب امیدواروں کو صرف امتحانات کے لیے بلاتے ہیں۔ پرائیویٹ کالجز یونیورسٹی بورڈ مافیا کی ملی بھگت سے اپنی مرضی کے امتحانی مراکز میں من پسند عملہ تعینات کرواتا ہے اور یوں اپنے امیدواروں کو کام یاب کرواتا ہے۔

مجموعی طور پر صوبے بھر کے تعلیمی نظام میں نقل کا ناسور بہت تیزی سے پھیل چکا ہے اور اس نے تعلیمی نظام کو شدید متاثر کیا ہے۔ تعلیمی و امتحانی نظام میں بہتری کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے محکمہ تعلیم بلوچستان، امتحانی بورڈز اور صوبائی حکومت اپنے صوبے کی ترقی، بچوں کے بہتر مستقبل اور نظام تعلیم کو تباہی سے بچانے کے لیے ان پر توجہ دیں گے۔

٭ امتحانی نظام میں بہتری اور نقل کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ صوبائی سطح پر ایک خود مختار صوبائی امتحانی کمیشن تشکیل دیا جائے اور تمام تعلیمی بورڈز اس کے ماتحت ہوں۔ امتحانات کا انعقاد ، انتظامی امور، امتحانی فیس، رجسٹریشن فیس، امتحانی عملے کی تعیناتی، جائزہ و نگرانی اور دیگر تمام امور کا انتظام اس کمیشن کے سپرد ہو جو شفاف، بروقت امتحانات کے لیے پالیسی مرتب کرے اور نقل کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔

٭ امتحانی کمیشن میں صوبائی سطح پر ماہرین تعلیم، بورڈز کے سیکریٹریز، سیاسی جماعتوں کے نمائندے، ضلعی ایجوکیشن آفیسرز، سول سوسائٹی، غیر سرکاری تنظیموں، مدارس، پرائیویٹ اسکولز و کالجز کے نمائندے شامل ہوں جب کہ ہر ضلع میں امتحانی کمیشن کے ذیلی یونٹ موجود ہوں۔

٭ امتحانی مراکز میں موبائل فونز کے استعمال پر مکمل پابندی لگائی جائے، یہاں تک کہ امتحانی عملے کو بھی امتحانی سنٹرز میں موبائل فون کی اجازت نہ ہو۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دی جائے اور طلباء پر سالانہ بنیادوں پر پابندی لگائی جائے۔

٭ امتحانی مراکز میں ہنگامی بنیادوں پر کلوز سرکٹ کیمرے نصب کیے جائیں تاکہ امتحانی کمیشن کے ممبر ہر وقت امتحانی مراکز کا براہ راست جائزہ لیں سکیں۔

٭ امتحانی عملے میں جونیئر اساتذہ اور نگران عملے کی تعیناتی پر مکمل پابندی لگائی جائے یا اساتذہ کے امتحانی معاوضے میں معقول اضافہ کیا جائے تاکہ نقل مافیا اور کاروباری حضرات کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔

٭ امتحانی عملے کو باقاعدہ امتحانات کے اخلاقی قواعد و ضوابط، اصلاحات اور امتحانی طریقہ کار کے متعلق تربیت دی جائے۔ وقت کے ساتھ جائزہ و نگراں کمیٹیوں اور امتحانی کمیشن کے ذریعے امتحانی عملے کی کارکردگی کی مسلسل نگرانی کی جائے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔

٭ پرائیویٹ امیدواروں کے لیے الگ امتحانات کا انعقاد ہونا چاہیے اور امتحانات سے قبل ایسے امیدواروں کو باقاعدہ اسائمنٹ دینے چاہیے تاکہ وہ نقل کی تیاری کے بجائے امتحانات کی تیاری کرسکیں۔

٭ امتحانات کے دوران فوٹو اسٹیٹ کی دکانوں، بک ڈیلرز پر کڑی نظر رکھی جائے اور سائنسی تیار شدہ پریکیٹکلز، نوٹ بکس کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے تاکہ پریکٹیکلز کی اہمیت برقرار رہے۔

٭ امتحانات کے دوران نقل کے مواد کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی لگائی جائے۔

٭ امتحانی نظام کو کمپیوٹرائزڈ کروانے اور آن لائن امتحانی نظام متعارف کروانے کے لیے فوری طور پر کام شروع کیا جائے اور اس سلسلے میں اعلیٰ سطح پر منصوبہ بندی کی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں