فوج نے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانی ہیں تو شہداء کے لواحقین کیلئے بنائے چیف جسٹس
فوج کا کیا کام کہ ہاؤسنگ اسکیمیں بنائے، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ فوج نے ہاؤسنگ اسکیمیں بنانی ہیں تو شہداء کے لواحقین کیلئے بنائے۔
سپریم کورٹ میں لاہور میں اشتہاری بورڈز ہٹانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل ڈی جی نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی فاؤنڈیشن (پی ایچ اے) کی جانب سے لاہور میں کسی قسم کے بل بورڈز نہیں لگائے گئے، بلکہ کنٹونمنٹ ، این ایل سی، ڈی ایچ اے اور این ایچ اے نے بل بورڈز لگائے ہیں۔
کینٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کینٹ کی آمدن کا بڑا حصہ انہی بل بورڈز سے آتا ہے، ادارے کو وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کوئی فنڈز نہیں ملتے، کینٹ نے عوام کو بھی مختلف سہولیات دے رکھی ہیں جن پر خرچہ ہوتا ہے۔
ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ ہم پارک کو بحال رکھنے کے پیسے کسی سے نہیں لیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر کیا اجازت ہے کہ فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے جوا خانہ کھول لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ایچ اے اور دیگر ادارے اربوں کماتے ہیں وہ پیسہ کہاں جاتا ہے، فوج کا کیا کام کہ ہاؤسنگ اسکیمیں بنائے، کہیں ملک کی فوج بھی پیسہ کمانے کے کاروبار میں شامل ہوتی ہے، اگر فوج نے ایسی اسکیمیں بنانی بھی ہیں تو اپنے ملازمین اور شہداء کے لواحقین کیلئے بنائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بل بورڈز کے متعلق اصول وضع کریں گے جو تمام شہروں پر لاگو ہوں گے، لاہور میں ہر کھمبے پر چوہدری سروس سمیت مختلف پی ٹی آئی رہنماؤں کی تصاویر لگی ہیں، یہ بینر اور پوسٹر لگانے کی اجازت کس نے دی ہے۔
عدالت نے ڈی ایچ اے لاہور، ریلوے، این ایچ اے اور این ایل سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دن میں جواب طلب کرلیا۔ کیس کی سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ میں لاہور میں اشتہاری بورڈز ہٹانے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل ڈی جی نے عدالت میں پیش ہوکر بتایا کہ پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی فاؤنڈیشن (پی ایچ اے) کی جانب سے لاہور میں کسی قسم کے بل بورڈز نہیں لگائے گئے، بلکہ کنٹونمنٹ ، این ایل سی، ڈی ایچ اے اور این ایچ اے نے بل بورڈز لگائے ہیں۔
کینٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کینٹ کی آمدن کا بڑا حصہ انہی بل بورڈز سے آتا ہے، ادارے کو وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کوئی فنڈز نہیں ملتے، کینٹ نے عوام کو بھی مختلف سہولیات دے رکھی ہیں جن پر خرچہ ہوتا ہے۔
ایڈیشنل ڈی جی نے کہا کہ ہم پارک کو بحال رکھنے کے پیسے کسی سے نہیں لیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر کیا اجازت ہے کہ فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے جوا خانہ کھول لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ایچ اے اور دیگر ادارے اربوں کماتے ہیں وہ پیسہ کہاں جاتا ہے، فوج کا کیا کام کہ ہاؤسنگ اسکیمیں بنائے، کہیں ملک کی فوج بھی پیسہ کمانے کے کاروبار میں شامل ہوتی ہے، اگر فوج نے ایسی اسکیمیں بنانی بھی ہیں تو اپنے ملازمین اور شہداء کے لواحقین کیلئے بنائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بل بورڈز کے متعلق اصول وضع کریں گے جو تمام شہروں پر لاگو ہوں گے، لاہور میں ہر کھمبے پر چوہدری سروس سمیت مختلف پی ٹی آئی رہنماؤں کی تصاویر لگی ہیں، یہ بینر اور پوسٹر لگانے کی اجازت کس نے دی ہے۔
عدالت نے ڈی ایچ اے لاہور، ریلوے، این ایچ اے اور این ایل سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دن میں جواب طلب کرلیا۔ کیس کی سماعت ستمبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔