ڈرون حملے بلا جواز ہیں

لڑائی کے بجائے لوگوں کو مذاکرات کی میز پر لانا زیادہ بہتر ہے، جان کیری


Editorial May 27, 2013
بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے مصدقہ شدہ اہداف کے خلاف بہت نظرثانی کے بعد استعمال کیے جاتے ہیں، جان کیری۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ڈرون حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے مصدقہ شدہ اہداف کے خلاف بہت نظرثانی کے بعد استعمال کیے جاتے ہیں ۔جان کیری نے طالبان کی قیادت کے ساتھ امریکا کی مذاکرات کی کوشش کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی کے بجائے لوگوں کو مذاکرات کی میز پر لانا زیادہ بہتر ہے۔

جان کیری نے بھی امریکی صدر بارک اوباما کا موقف دہرایا کہ امریکا اور اسلام کی کوئی جنگ نہیں۔ اتوار کو عمان جانے سے قبل عدیس ابابا یونیورسٹی میں ایتھوپین طلبا سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ رواں سال بہت کم ڈرون حملے ہوئے کیونکہ ایک تو ہم پاکستان میں القاعدہ کو کافی حد تک ختم کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ جن لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے ، ان کی اعلیٰ سطح پر پوری تصدیق کی جاتی ہے کہ وہ دہشتگرد اہداف ہیں ۔

جان کیری نے امریکی ڈرون حملوں کے دفاع میں انسانی ہلاکتوں کے حوالہ سے جو وضاحت کی ہے وہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی اور یکطرفہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی تکلیف دہ ہے جسے غالب کی زبان میں یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ

اے ترا غمزہ یک قلم انگیز... اے ترا ظلم سر با سر انداز

جان کیری کو امریکی پالیسیوں کے دفاع کا حق حاصل ہے اور وہ ڈرون کے شہری آبادیوں پر سفاکانہ اور دردناک حملوں میں صناعی،نفاست اور ''شفافیت''کا کیسا ہی عذر تراشیں اہل پاکستان کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی جب کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے امریکا مخالف جذبات کا جو لاوا بہہ نکلا ہے اس کی تپش صرف پاکستان نہیں بلکہ یمن سمیت پوری دنیا میں محسوس کی جارہی ہے۔

اگر امریکی وزیر خارجہ کے انداز نظر کو تسلیم کرلیا جائے تو یقین کرلینا پڑیگا کہ 2010-11 میں پاکستان اور یمن میں 3364 ڈرون حملوں میں صرف ہائی پروفائل اور القاعدہ کے خطرناک کمانڈر یا ماسٹر مائنڈ ہی جاں بحق ہوئے ہیں حالانکہ ایسا سوچنا بھی ان مظلوم شہریوں پر ظم ہوگا جو فاٹا میں ڈرون حملوں کے باعث جرم بے گناہی میں مارے گئے۔ اس نقطہ نظر کو بلاشبہ پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت سمیت ملک کی باشعور سول سوسائٹی کسی طور قبول نہیں کرسکتی بلکہ تین روز قبل مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے امریکی ڈرون حملوں پر شدید تحفظات کااظہار کیا تھا ۔

امریکا خود ڈرون حملوں میں پاکستان و یمن میں 4 شہریوں کی ہلاکت کا اعتراف کرچکا ہے۔ چنانچہ زمینی حقائق کے مطابق ڈرن حملوں میں لاتعداد شہریوں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں کے جاںبحق ہونے کی تصدیق عالمی اداروں نے کی ہے اور ڈرون حملوں کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دینے والوں میں امریکا کے کئی آئینی مدبرین اور سیاسی مفکرین شامل ہیں۔جان کیری کا کہنا ہے کہا کہ ڈرون پروگرام سخت نگرانی اور کڑے احتساب کا ہے ، ہر ٹارگٹ کی احتیاط سے مانیٹرنگ کی جاتی ہے ، بعض دفعہ اس میں سال لگ جاتا ہے، جب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ حملے کی جگہ پر بچے موجود ہیں یا شہری نقصان کا خدشہ ہے تو میزائل فائر نہیں کیے جاتے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ہائی لیول ٹارگٹ کو بھی تب نشانہ نہیں بناتے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں عام لوگ موجود ہیں جب کہ عسکریت پسند امریکی یا مغربی اہداف پر حملوں کی صورت میں اس چیز کا خیال نہیں رکھتے ۔ اس ضمن میں کچھ کہنے کے بجائے ایک حالیہ گیلپ سروے کا حوالہ دینا مناسب ہے جس میں 27 فی صف امریکیوں کے مطابق امریکا اخلاقی زوال کی طرف گامزن ہے،اور اس میں باہمی احترام اور بردباری کا فقدان تشویشناک ہے۔ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوج کی 12برس بعد واپسی کے بعد افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی شدید متاثر ہوگا۔ جب کہ پاکستان اور مغرب کے درمیان ڈرون حملوں کا معاملہ کشیدگی کاباعث ہوسکتا ہے۔

گذشتہ 10برسوں کے دوران اس علاقے پر 360ڈرون حملے کیے گئے جسے اسلامی عسکریت پسندی کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کی واپسی کے بعد افغانستان میں طالبان کی مضبوطی سے پاکستان میں عسکری حلقوں کو مدد ملے گی جس سے پاکستان پھر عالمی توجہ کا مرکز بن سکتاہے۔ جب کہ دنیادہشت گردی کے خاتمے کا عزم کرچکی ہے اور وہ ایسی کسی کوشش کوقبول نہیں کرے گی جس سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اخبار لکھتا ہے صدراوباما واضح اعلان کرچکے ہیں کہ ڈرون طیاروں سے صرف ان عسکریت پسندوں پر حملہ ہوگا جو امریکا کے لیے خطرہ ہوں گے ۔

تاہم پاکستان کے لیے یہ نازک معاملہ ہے۔ اصل میں امریکی ڈرون حملوں سے پیداہونے والی کشیدگی، شورش زدگی، طالبان کی افزائش اور دہشت گردی کے پھیلاؤکا جب تک امریکیوں کو ادراک نہیں ہوگا خطے میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا سے بھی امن قائم نہیں ہوگا۔ڈرون امن شکن ہتھیار ثابت ہوا ہے،اگر طالبان سے لڑائی نہیں بات چیت کی ضرورت ہے تو امریکا ڈرون حملے بند کرکے پاکستان اور طالبان سمیت خطے میں امن کے قیام کے لیے عظیم تر مکالمہ میں پیش رفت کے لیے کیوں متذبذب ہے وہ ڈرون حملوں سے گن بوٹ ڈپومیسی کی یاد کیوں دلاتا ہے۔ صدر اوباما تک یہ بات پہنچانا جان کیری جیسے مدبرسیاست دان کی ذمے داری ہے کہ وہ امریکا کو حقائق سے چشم پوشی ترک کرنے پر آمادہ کرے اور پاکستان کے اصولی موقف کو قبول کرے کہ ڈرون حملے بلاجواز ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں