نظام بدلنا چاہیے
تاش کا کھیل ہو یا شطرنج، ان کے کارڈز اور مہرے آگے پیچھے ضرور ہوتے ہیں اور کسی ایک فریق کو شکست بھی ہوتی ہے لیکن...
ISLAMABAD:
تاش کا کھیل ہو یا شطرنج، ان کے کارڈز اور مہرے آگے پیچھے ضرور ہوتے ہیں اور کسی ایک فریق کو شکست بھی ہوتی ہے لیکن تاش کے پتے 52 ہی رہ جاتے ہیں اور مہرے بھی، 32 مہرے اور چھوٹے کارڈز پٹ جاتے ہیں لیکن اگلی چال کے لیے بادشاہ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح سے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام (سرمایہ داری) برقرار ہی رہتا ہے۔
پاکستان میں چہروں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں بلکہ ساری دنیا میں یہی ہوتا آرہا ہے۔ حال ہی میں تیونس، مصر، اردن، کویت، نائیجیریا، ملائیشیا، ترکی اور جارجیا میں بھی انتخابات ہوئے۔ مگر سرمایہ داری پر کوئی آنچ آنے نہیں دی گئی۔ یہی صورت حال تقریباً سارے سرمایہ دار ملکوں کی ہے۔ مگر کبھی کبھی لوگ ان دونوں چہروں سے اکتا جاتے ہیں، پھر وہ تیسرا چہرہ سامنے لانے کی بات کرتے ہیں، جس طرح عمران خان کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں مگر یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ کاہے کی تبدیلی۔ چہروں کی یا نظام کی۔
اگر نظام کی ہے تو سرمایہ داری کے خلاف دم بخود کیوں ہیں؟ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے لیے جانے والے قرضہ جات اور اس کی سود کی ادائیگی پر کیوں خاموش ہیں۔ نجکاری اور نجی ملکیت پر کیوں چپ ہیں؟ ہٹلر بھی یہی نعرہ دیتا تھا کہ ہم طلبا، نوجوانوں، خواتین، مزدوروں، کسانوں اور تاجروں کے مسائل حل کردیں گے۔ مگر یہ نہیں بتاتا تھا کہ کیسے حل کرے گا۔ چونکہ جرمنی میں کمیونسٹ پارٹی انتخابات میں جیت رہی تھی اس لیے 1918 میں پارٹی کے چیئرمین کارل بخیت اور روزا لگزمبرگ کو بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا (یہ کام سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے کروایا گیا) پھر ہٹلر نے اقتدار میں آکر نارڈک نسل پرست اور کیتھولک عیسائیوں کا نمایندہ بن کر کمیونسٹوں، انارکسسٹوں، سوشلسٹوں، جمہوریت پسندوں، یہودیوں، انقلابی مزدوروں اور کسانوں کا قتل عام کیا جب کہ اس کی پارٹی کا نام نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) تھا۔
پاکستان بننے کے بعد شروع کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے (جوکہ اکثریتی آبادی تھی) کمیونسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کرکے مسلم لیگ کو شکست دی تھی۔ اسی وقت سے حکمران ہوشیار ہوگئے اور وردی بے وردی نوکر شاہی حکمرانی چلاتے رہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات میں جیتنے کے بعد فرانس کے معروف اخبار کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مغربی پاکستان کے حکمران لائق نہیں ہیں جب کہ ہم نے کمیونزم کو روک کر دکھایا۔ بعدازاں بیشتر برسوں تک پاکستان میں پی پی پی اور مسلم لیگ باری باری اقتدار میں آتے رہے۔
دو جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے مفادات کا خاص خیال نہ رکھا گیا۔ گزشتہ برسوں کا جائزہ لیں تو آمر ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پاکستان میں متعارف ہوا۔ افغانستان کی سامراج مخالف حکومت کو گرانے کے لیے امریکا اور اسرائیل سمیت 20 سامراجی ممالک کے انسٹرکٹرزاس جنگ میں کود پڑے۔ اسی دور میں رنگ، نسل، فرقہ، برادری، تنگ نظر قوم پرستی اور مذہبی جنونیت پروان چڑھی۔ اس عرصے میں مسلم لیگ کی پھر سے نشوونما ہوئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے بے نظیر بھٹو کی تقلید کرتے ہوئے نجکاری کو جاری رکھا گیا۔
یہ وہی بے نظیر بھٹو ہیں جن کے والد نے پیپلز پارٹی کے منشور میں ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' درج کیا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد تعلیم کا بجٹ 43 فیصد کیا تھا۔ اسٹیل مل، بینک، تعلیمی ادارے، اسٹیٹ انجینئرنگ، کے ای ایس سی، تیل، گیس، سیمنٹ اور چینی وغیرہ کی ملوں، فیکٹریوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا جب کہ بے نظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی کے الٹ نجکاری شروع کردی اوربعد کے حکمرانوں نے بھی مزید نجکاری کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں تیزی دکھائی۔
اگر اس عمل کو اب بھی جاری رکھا جاتا ہے اور دیگر سیاستدان ان کی نجکاری کا ساتھ دیتے ہیں تو محنت کش ان کے خلاف ہوجائیں گے، اور اگر نجکاری کے خلاف وہ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو محنت کش ان کا بھرپور ساتھ دیں گے اور وہ پاکستان کے ہر دلعزیز رہنما بن جائیں گے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ انھیں مزدور طبقے میں جانا ہوگا اور مزدور طبقے کی قیادت کو قبول کرنا ہوگا۔ مگر اس کے امکانات ہمیں بہت کم نظر آرہے ہیں، اس لیے کہ تمام سیاستدانوں نے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضبطگی، عالمی سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کے استحصال پر کوئی بات کی ہے اور نہ ان کے منشور میں ہے۔
چند ہفتوں میں پاکستان کی نئی حکومت کو بجٹ پیش کرنا ہے۔ اس میں آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے قرضوں کیادائیگی کے مسائل ہیں ، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کم ازکم 20/20 فیصد کرنے کا پروگرام شامل کرنا ہوگا ۔ پاکستان میں اس وقت صحت کا 0.4 اور تعلیم کا 0.8 فیصد بجٹ جب کہ جنگی بجٹ 510 ارب روپے ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ 200 سے زیادہ بچوں کی خسرہ سے ہلاکت صحت کے ماہرین اور سائنسدانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
جب کہ ہمارے خطے میں بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال خسرہ کا تدارک کرچکے ہیں حتیٰ کہ کئی سال سے افغانستان میں بھی یہ وبا بڑے پیمانے پر نہیں پھیلی۔ گزشتہ دوسال سے معمول کی ویکسینیشن ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ وبائی امراض کے خلاف ویکسینیشن کی کوریج بچوں کی کل آبادی کے 80 فیصد سے کم ہوکر 50 فیصد پر آگئی ہے۔ اندرون سندھ میں حالت اتنی خراب ہے کہ یہاں خسرہ کی ویکسینیشن کی کوریج صرف 22 سے 25 فیصد ہے۔ نمونیا پاکستان میں عام مرض ہے، ہر چار بچوں میں سے ایک کی موت نمونیا سے ہوتی ہے۔
ہر سال 4 لاکھ 20 ہزار بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں مناسکتے۔ یو این او کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران 30 ہزار خواتین جاں بحق ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بہت سے امیر ترین لوگ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اقتدار میں آنے والے زمینیں کسانوں میں تقسیم کریں گے؟ کیا کارخانوں میں جہاں مزدوروں کو یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے، اب اجازت دیں گے؟ کیا وہ دال، چاول، آٹا، تیل اور شکر کی قیمت کم کریں گے؟ کیا وہ سارے مزدوروں، کسانوں، کھیت مزدوروں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے کام کے اوقات کار 8 گھنٹے کروائیں گے؟ کیا وہ ایک مزدور کی کم ازکم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کروائیں گے؟ کیا وہ اس فرق کو ختم کریں گے کہ ایک بینک کے صدر کی تنخواہ 66 لاکھ روپے اور چوکیدار کی 8000۔ شاید سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا قطعی نہیں ہو سکتا۔
اس لیے کہ یہ لوٹ مار سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس لیے ہمیں محنت کرنے والوں کو ایسا سماجی انقلاب برپا کرنا ہوگا جہاں طبقات کا خاتمہ ہو، کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی بے روزگار۔ ایک ایسی بلا ریاست سماج کی تشکیل ہو جہاں ایک ہی دستر خوان پر افسران اور چپراسی، اکابرین اور مزدور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاسکیں۔
تاش کا کھیل ہو یا شطرنج، ان کے کارڈز اور مہرے آگے پیچھے ضرور ہوتے ہیں اور کسی ایک فریق کو شکست بھی ہوتی ہے لیکن تاش کے پتے 52 ہی رہ جاتے ہیں اور مہرے بھی، 32 مہرے اور چھوٹے کارڈز پٹ جاتے ہیں لیکن اگلی چال کے لیے بادشاہ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح سے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن نظام (سرمایہ داری) برقرار ہی رہتا ہے۔
پاکستان میں چہروں کی تبدیلی کوئی نئی بات نہیں بلکہ ساری دنیا میں یہی ہوتا آرہا ہے۔ حال ہی میں تیونس، مصر، اردن، کویت، نائیجیریا، ملائیشیا، ترکی اور جارجیا میں بھی انتخابات ہوئے۔ مگر سرمایہ داری پر کوئی آنچ آنے نہیں دی گئی۔ یہی صورت حال تقریباً سارے سرمایہ دار ملکوں کی ہے۔ مگر کبھی کبھی لوگ ان دونوں چہروں سے اکتا جاتے ہیں، پھر وہ تیسرا چہرہ سامنے لانے کی بات کرتے ہیں، جس طرح عمران خان کو سامنے لایا جا رہا ہے۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں مگر یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ کاہے کی تبدیلی۔ چہروں کی یا نظام کی۔
اگر نظام کی ہے تو سرمایہ داری کے خلاف دم بخود کیوں ہیں؟ آئی ایم ایف اور ورلڈبینک سے لیے جانے والے قرضہ جات اور اس کی سود کی ادائیگی پر کیوں خاموش ہیں۔ نجکاری اور نجی ملکیت پر کیوں چپ ہیں؟ ہٹلر بھی یہی نعرہ دیتا تھا کہ ہم طلبا، نوجوانوں، خواتین، مزدوروں، کسانوں اور تاجروں کے مسائل حل کردیں گے۔ مگر یہ نہیں بتاتا تھا کہ کیسے حل کرے گا۔ چونکہ جرمنی میں کمیونسٹ پارٹی انتخابات میں جیت رہی تھی اس لیے 1918 میں پارٹی کے چیئرمین کارل بخیت اور روزا لگزمبرگ کو بہیمانہ طور پر قتل کردیا گیا (یہ کام سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے کروایا گیا) پھر ہٹلر نے اقتدار میں آکر نارڈک نسل پرست اور کیتھولک عیسائیوں کا نمایندہ بن کر کمیونسٹوں، انارکسسٹوں، سوشلسٹوں، جمہوریت پسندوں، یہودیوں، انقلابی مزدوروں اور کسانوں کا قتل عام کیا جب کہ اس کی پارٹی کا نام نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی (نازی) تھا۔
پاکستان بننے کے بعد شروع کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے (جوکہ اکثریتی آبادی تھی) کمیونسٹ پارٹی نے اکثریت حاصل کرکے مسلم لیگ کو شکست دی تھی۔ اسی وقت سے حکمران ہوشیار ہوگئے اور وردی بے وردی نوکر شاہی حکمرانی چلاتے رہے۔ شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات میں جیتنے کے بعد فرانس کے معروف اخبار کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مغربی پاکستان کے حکمران لائق نہیں ہیں جب کہ ہم نے کمیونزم کو روک کر دکھایا۔ بعدازاں بیشتر برسوں تک پاکستان میں پی پی پی اور مسلم لیگ باری باری اقتدار میں آتے رہے۔
دو جماعتوں کی لڑائی میں عوام کے مفادات کا خاص خیال نہ رکھا گیا۔ گزشتہ برسوں کا جائزہ لیں تو آمر ضیاء الحق کے دور اقتدار میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پاکستان میں متعارف ہوا۔ افغانستان کی سامراج مخالف حکومت کو گرانے کے لیے امریکا اور اسرائیل سمیت 20 سامراجی ممالک کے انسٹرکٹرزاس جنگ میں کود پڑے۔ اسی دور میں رنگ، نسل، فرقہ، برادری، تنگ نظر قوم پرستی اور مذہبی جنونیت پروان چڑھی۔ اس عرصے میں مسلم لیگ کی پھر سے نشوونما ہوئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے بے نظیر بھٹو کی تقلید کرتے ہوئے نجکاری کو جاری رکھا گیا۔
یہ وہی بے نظیر بھٹو ہیں جن کے والد نے پیپلز پارٹی کے منشور میں ''سوشلزم ہماری معیشت ہے'' درج کیا تھا اور اقتدار میں آنے کے بعد تعلیم کا بجٹ 43 فیصد کیا تھا۔ اسٹیل مل، بینک، تعلیمی ادارے، اسٹیٹ انجینئرنگ، کے ای ایس سی، تیل، گیس، سیمنٹ اور چینی وغیرہ کی ملوں، فیکٹریوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا جب کہ بے نظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی کے الٹ نجکاری شروع کردی اوربعد کے حکمرانوں نے بھی مزید نجکاری کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس میں تیزی دکھائی۔
اگر اس عمل کو اب بھی جاری رکھا جاتا ہے اور دیگر سیاستدان ان کی نجکاری کا ساتھ دیتے ہیں تو محنت کش ان کے خلاف ہوجائیں گے، اور اگر نجکاری کے خلاف وہ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو محنت کش ان کا بھرپور ساتھ دیں گے اور وہ پاکستان کے ہر دلعزیز رہنما بن جائیں گے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ انھیں مزدور طبقے میں جانا ہوگا اور مزدور طبقے کی قیادت کو قبول کرنا ہوگا۔ مگر اس کے امکانات ہمیں بہت کم نظر آرہے ہیں، اس لیے کہ تمام سیاستدانوں نے آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضبطگی، عالمی سرمایہ داری اور سرمایہ داروں کے استحصال پر کوئی بات کی ہے اور نہ ان کے منشور میں ہے۔
چند ہفتوں میں پاکستان کی نئی حکومت کو بجٹ پیش کرنا ہے۔ اس میں آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے قرضوں کیادائیگی کے مسائل ہیں ، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کم ازکم 20/20 فیصد کرنے کا پروگرام شامل کرنا ہوگا ۔ پاکستان میں اس وقت صحت کا 0.4 اور تعلیم کا 0.8 فیصد بجٹ جب کہ جنگی بجٹ 510 ارب روپے ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ 200 سے زیادہ بچوں کی خسرہ سے ہلاکت صحت کے ماہرین اور سائنسدانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
جب کہ ہمارے خطے میں بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال خسرہ کا تدارک کرچکے ہیں حتیٰ کہ کئی سال سے افغانستان میں بھی یہ وبا بڑے پیمانے پر نہیں پھیلی۔ گزشتہ دوسال سے معمول کی ویکسینیشن ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ وبائی امراض کے خلاف ویکسینیشن کی کوریج بچوں کی کل آبادی کے 80 فیصد سے کم ہوکر 50 فیصد پر آگئی ہے۔ اندرون سندھ میں حالت اتنی خراب ہے کہ یہاں خسرہ کی ویکسینیشن کی کوریج صرف 22 سے 25 فیصد ہے۔ نمونیا پاکستان میں عام مرض ہے، ہر چار بچوں میں سے ایک کی موت نمونیا سے ہوتی ہے۔
ہر سال 4 لاکھ 20 ہزار بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں مناسکتے۔ یو این او کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران 30 ہزار خواتین جاں بحق ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بہت سے امیر ترین لوگ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اقتدار میں آنے والے زمینیں کسانوں میں تقسیم کریں گے؟ کیا کارخانوں میں جہاں مزدوروں کو یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے، اب اجازت دیں گے؟ کیا وہ دال، چاول، آٹا، تیل اور شکر کی قیمت کم کریں گے؟ کیا وہ سارے مزدوروں، کسانوں، کھیت مزدوروں اور دیہاڑی دار مزدوروں کے کام کے اوقات کار 8 گھنٹے کروائیں گے؟ کیا وہ ایک مزدور کی کم ازکم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کروائیں گے؟ کیا وہ اس فرق کو ختم کریں گے کہ ایک بینک کے صدر کی تنخواہ 66 لاکھ روپے اور چوکیدار کی 8000۔ شاید سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا قطعی نہیں ہو سکتا۔
اس لیے کہ یہ لوٹ مار سرمایہ دارانہ نظام کی برائی نہیں بلکہ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ اس لیے ہمیں محنت کرنے والوں کو ایسا سماجی انقلاب برپا کرنا ہوگا جہاں طبقات کا خاتمہ ہو، کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی بے روزگار۔ ایک ایسی بلا ریاست سماج کی تشکیل ہو جہاں ایک ہی دستر خوان پر افسران اور چپراسی، اکابرین اور مزدور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاسکیں۔