بلند معیار زندگی کی خواہش پر اہلیہ نے شوہر کو قتل کیا
شوہرکوقتل کرکے ڈکیتی کا رنگ دیتی رہی،ارشد محمودکی ’’ایکسپریس‘‘سے گفتگو۔
معیار زندگی بلند کرنے کی خواہش پر اہلیہ نے اپنے شوہر کو قتل کردیا تھا اور قتل کو ڈکیتی کا رنگ دیتی رہی۔
مقتول کے بڑے بھائی نے جائے وقوع پر اس کی چپلوں کے نشانات ملنے پر پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا ، مقتول کے بھائی ارشد محمود نے بتایا کہ مقتول کی شادی انھوں نے سیالکوٹ کی رہائشی مسماۃ عامرہ سے اس لیے کی تھی کہ وہ یتیم تھی اور اس کی والدہ نے انھیں محنت مشقت کرکے پالا تھا ، شادی کے بعد ہی انکشاف ہوا تھا کہ وہ پہلے سے ہی کسی کی محبت میں گرفتار تھی ، اکثر پنجاب چلی جاتی تھی اور نارض ہوکر واپس نہیں آتی تھی طلاق کا مطالبہ بھی کیا تھا انھوں نے اس کے بہن بھائیوں سے بات چیت کی تھی۔
تاہم اس نے اپنی مکاری سے شوہر کو بہلایا پھسلایا اور اچانک واپس آگئی تھی تاہم بھائی کی خوشی کی خاطر اسے دوبارہ قبول کیا تھا گھر سے اکثر بتائے بغیر چلی جاتی ،دونوں میاں بیوی کے درمیان گھریلو جھگڑااس کا گھر سے بچوں کواکیلے چھوڑ کر جانے پر ہوتا تھا،بلند معیار زندگی گزارنے کے لیے اس نے غیر لوگوں سے تعلقات استوار کیے ہوئے تھے ۔
شاپنگ کی شوقین اور درجنوں سوٹ خریدنا اس کا آئے روز کا معمول تھا، وقوع کے روز دونوں میاں بیوی اس کے گھر آئے تھے کھانا وغیرہ کھانے کے بعد چلے گئے تھے ،اس دوران مقتول کچھ بجھا ہوا تھا اس کے چہرے پر خوف تھا تاہم وہ اپنے گھر چلے گئے، آدھی رات کو ملزمہ نے پیزا کھانے کی فرمائش اور ساتھ جانے کی ضد کی بالآخروہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی تھی ۔
مقتول کے بڑے بھائی نے جائے وقوع پر اس کی چپلوں کے نشانات ملنے پر پولیس کی تحویل میں دے دیا تھا ، مقتول کے بھائی ارشد محمود نے بتایا کہ مقتول کی شادی انھوں نے سیالکوٹ کی رہائشی مسماۃ عامرہ سے اس لیے کی تھی کہ وہ یتیم تھی اور اس کی والدہ نے انھیں محنت مشقت کرکے پالا تھا ، شادی کے بعد ہی انکشاف ہوا تھا کہ وہ پہلے سے ہی کسی کی محبت میں گرفتار تھی ، اکثر پنجاب چلی جاتی تھی اور نارض ہوکر واپس نہیں آتی تھی طلاق کا مطالبہ بھی کیا تھا انھوں نے اس کے بہن بھائیوں سے بات چیت کی تھی۔
تاہم اس نے اپنی مکاری سے شوہر کو بہلایا پھسلایا اور اچانک واپس آگئی تھی تاہم بھائی کی خوشی کی خاطر اسے دوبارہ قبول کیا تھا گھر سے اکثر بتائے بغیر چلی جاتی ،دونوں میاں بیوی کے درمیان گھریلو جھگڑااس کا گھر سے بچوں کواکیلے چھوڑ کر جانے پر ہوتا تھا،بلند معیار زندگی گزارنے کے لیے اس نے غیر لوگوں سے تعلقات استوار کیے ہوئے تھے ۔
شاپنگ کی شوقین اور درجنوں سوٹ خریدنا اس کا آئے روز کا معمول تھا، وقوع کے روز دونوں میاں بیوی اس کے گھر آئے تھے کھانا وغیرہ کھانے کے بعد چلے گئے تھے ،اس دوران مقتول کچھ بجھا ہوا تھا اس کے چہرے پر خوف تھا تاہم وہ اپنے گھر چلے گئے، آدھی رات کو ملزمہ نے پیزا کھانے کی فرمائش اور ساتھ جانے کی ضد کی بالآخروہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی تھی ۔