پیپلزپارٹی ن لیگ سے گریزاں کیوں
اپوزیشن شروع میں ہی ایک ایسی مصیبت سے دوچار ہوگئی، جس نے اس کے اندرونی تضادات کا آشکارکر دیا۔
الیکشن 2018 ء کے فوراً بعد تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ، پیپلزپارٹی اور متحدہ مجلس عمل نے جو غم وغصہ ظاہر کیا، اسے دیکھ کر بادی النظر میں اپوزیشن بہت جلد متحد ہوتی نظر آ رہی تھی۔ چند دنوں بعد مگر جب صورت حال ذرا واضح ہوئی تومعلوم ہوا کہ ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل کے برعکس پیپلزپارٹی حالیہ الیکشن کے متاثرین میں شامل نہیں، بلکہ اس کی پوزیشن سندھ اور قومی اسمبلی میں پہلے سے بہتر ہو گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں بھلے وزیراعظم تحریک انصاف کا ہو اور اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا، پیپلزپارٹی کی بہرحال دونوں کو ضرورت رہے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ آصف زرداری اور بلال بھٹوخود بھی قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔ اس کے رکن سلیم مانڈوی والا سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی بلوچستان کا انتخاب بھی آصف زرداری کی نامزدگی کے بعد ہوا۔اس تناظر میں یہ کہنا درست ہو گا کہ پیپلزپارٹی جس طرح الیکشن 2013ء کے بعد نمبر 2 کی پوزیشن میں تھی، اب بھی نمبر 2 پوزیشن میں ہے اور نقصان ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل کا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد جب ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ، جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آئیں، نہ حلف اٹھائیں تو پیپلزپارٹی نے اس میں شرکت نہیں کی۔ پیپلزپارٹی جب کسی طور نہ مانی تو ن لیگ نے بھی ہاتھ کھینچ لیا، بلکہ متحدہ مجلس عمل میں جمعیت علمائے اسلام کی اتحادی جماعت اسلامی نے فضل الرحمن کی تجویز سے اعلان برات کر دیا۔ یوں اپوزیشن شروع میں ہی ایک ایسی مصیبت سے دوچار ہوگئی، جس نے اس کے اندرونی تضادات کا آشکارکر دیا۔
اپوزیشن اس ابتدائی دھچکہ سے ابھی پوری طرح سنبھل نہیں پائی تھی کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے انتخاب نے اس کا رہا سہا بھرم بھی کھول دیا۔کہا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان یہ فارمولہ طے پایا تھا کہ اسپیکرکے امیدوار پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ ہوںگے، جب کہ وزیراعظم کے امیدوار ن لیگ کے شہبازشریف ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے ذرایع کا مگر کہنا تھا کہ انھوں نے اسپیکر کے انتخاب سے پہلے ہی ن لیگ پر واضح کر دیا تھا کہ وہ وزیراعظم کے لیے وہ ن لیگ کے امیدوار کو ضرور ووٹ دیں گے، بشرطیکہ وہ شہبازشریف نہ ہوں۔آصف زرداری نے پیشگی کہہ دیا کہ وزیراعظم کے انتخاب کے دوران وہ ایوان میں موجود نہیں ہوں گے۔
شہبازشریف نے آصف زرداری کے خلاف حالیہ الیکشن اور اس سے پہلے ماضی میں جو زبان استعمال کی ، اس کے جواب میں پیپلزپارٹی کی یہ مجبوری سمجھ میں آتی تھی۔ پیپلزپارٹی نے شہبازشریف کو ووٹ نہیں دیا، بلکہ قومی اسمبلی میں ان کے احتجاجی پروگرام سے بھی خود کو الگ رکھا، اور جب اسپیکر باربار شہباز شریف کو تقریر ختم کرنے کا کہہ رہے تھے تو بلاول بھٹو نے ان پر یہ طنزیہ فقرہ بھی اچھالا کہ شہبازشریف صاحب، آپ کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں، اسپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب نے اپوزیشن کے اندرونی اختلافات کو مزید نمایاں کردیا اور اپوزیشن کے متحد ہونے کے جو خواب دیکھے یا دکھائے جا رہے تھے، ان کے شرمندہ تعبیر ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ایک صفحہ پر نہ ہونے کاایک اور ثبوت پنجاب اسمبلی میں اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ملا، جب پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں ن لیگ نے اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا اور اپنا حق راے دہی استعمال نہیں کیا۔
یہاں اسپیکر کے انتخاب میں ن لیگ کو دوسرا زخم اس طرح لگا کہ خفیہ رائے شماری میں ان کے قریب قریب گیارہ ارکان نے چوہدری پرویزالٰہی کو ووٹ دے دیا۔یہ ن لیگ میں فارورڈ بلاک بننے کی گھنٹی تھی۔ پنجاب اسمبلی میں اگر پیپلزپارٹی، ن لیگ کو ووٹ دیتی تو وزیراعلیٰ کے انتخاب میں تحریک انصاف کو قدرے دباؤ میں لا سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے یہ مناسب نہیں سمجھا اورعثمان بزدار کو منتخب ہونے دیا۔ پیپلزپارٹی کا یہ اقدام گویا یہ اعلان تھا کہ تحریک انصاف کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا سردست کوئی وجود نہیں۔
صدارتی انتخاب اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صدارتی انتخاب کے لیے پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ بالواسطہ مشاورت کی ضرورت بھی نہ سمجھی اور اعتزازاحسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔ پاناما لیکس اور پاناما کیس میں اعتزازاحسن اور عمران خان کا موقف قریب قریب یکساں رہا۔ پاناما لیکس پر پارلیمانی کمیٹی میں اس وقت کی اپوزیشن کی قیادت میں وہی کر رہے تھے۔ اور پاناما لیکس کی انکوائری کے لیے ان کے مرتب کردہ ٹی او آرز کی تحسین سپریم کورٹ تک نے کی۔
آصف زرداری بہت سوچ سمجھ کر اعتزازاحسن کو نامزد کیا اور یہ بات پہلے سے طے تھی کہ ان کا نام کسی صورت واپس نہیں لیا جائے گا۔ یہ بات بھی ان کو معلوم تھی کہ ن لیگ اعتزازاحسن کے نام پر رضامند نہیں ہو گی۔صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی نے جو پوزیشن لی ہے، اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سردست ن لیگ کی اپوزیشن سیاست کا دم چھلہ بننے کو تیارنہیں،اور ''دیکھو اور انتظار کرو'' کی پالیسی پر عمل پیراہے ۔بات حقیقتاً وہی ہے، جس کی طرف شروع میں توجہ دلائی گئی کہ الیکشن 2018 ء میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہو چکی۔سندھ میں یہ پیپلزپارٹی کی متواتر تیسری حکومت ہے، جس کا تمام تر کریڈٹ بہرحال آصف زرداری کو جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو بھی یہ نہیں کر سکی تھیں۔پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی پارٹی نے کسی صوبہ میں متواتر تیسری مرتبہ حکومت بنائی ہو۔لہٰذا آصف زرداری کیوں چاہیں گے کہ نواز شریف کی ڈوبتی کشتی میں سوار ہوں اور ان کی طرح اپنا سب کچھ کھو دیں۔اس پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری مقدمات کے خوف سے ن لیگ کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں، تو اس دلیل میں اس لیے کوئی وزن نہیں کہ آصف زرداری آج جن مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، وہ ان کے خلاف تحریک انصاف نے نہیں، ن لیگ نے بنائے تھے۔
لہٰذا ن لیگ کو اب فوری طور پر متحدہ اپوزیشن کے خواب دیکھنے کے بجائے حقیقت کاسامنا کرنا ہوگااوراپوزیشن کی سیاست کا یہ بھاری پتھر پہلے خود اٹھانا ہو گا۔لیکن الیکشن کے بعد بطور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی اب تک کی بوکھلاہٹ، جھنجھلاہٹ اور اکتاہٹ اور ان کا ماضی سامنے رکھیں، تو یہ وہ کام ہے، جو ان کے بس کا روگ معلوم نہیں ہوتا۔ شاعر نے کہا تھا
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
قومی اسمبلی میں بھلے وزیراعظم تحریک انصاف کا ہو اور اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا، پیپلزپارٹی کی بہرحال دونوں کو ضرورت رہے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ آصف زرداری اور بلال بھٹوخود بھی قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔ اس کے رکن سلیم مانڈوی والا سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین ہیں۔جب کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صادق سنجرانی بلوچستان کا انتخاب بھی آصف زرداری کی نامزدگی کے بعد ہوا۔اس تناظر میں یہ کہنا درست ہو گا کہ پیپلزپارٹی جس طرح الیکشن 2013ء کے بعد نمبر 2 کی پوزیشن میں تھی، اب بھی نمبر 2 پوزیشن میں ہے اور نقصان ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل کا ہوا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد جب ن لیگ اور متحدہ مجلس عمل نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ، جس کا ایجنڈا یہ تھا کہ اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آئیں، نہ حلف اٹھائیں تو پیپلزپارٹی نے اس میں شرکت نہیں کی۔ پیپلزپارٹی جب کسی طور نہ مانی تو ن لیگ نے بھی ہاتھ کھینچ لیا، بلکہ متحدہ مجلس عمل میں جمعیت علمائے اسلام کی اتحادی جماعت اسلامی نے فضل الرحمن کی تجویز سے اعلان برات کر دیا۔ یوں اپوزیشن شروع میں ہی ایک ایسی مصیبت سے دوچار ہوگئی، جس نے اس کے اندرونی تضادات کا آشکارکر دیا۔
اپوزیشن اس ابتدائی دھچکہ سے ابھی پوری طرح سنبھل نہیں پائی تھی کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کے انتخاب نے اس کا رہا سہا بھرم بھی کھول دیا۔کہا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان یہ فارمولہ طے پایا تھا کہ اسپیکرکے امیدوار پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ ہوںگے، جب کہ وزیراعظم کے امیدوار ن لیگ کے شہبازشریف ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے ذرایع کا مگر کہنا تھا کہ انھوں نے اسپیکر کے انتخاب سے پہلے ہی ن لیگ پر واضح کر دیا تھا کہ وہ وزیراعظم کے لیے وہ ن لیگ کے امیدوار کو ضرور ووٹ دیں گے، بشرطیکہ وہ شہبازشریف نہ ہوں۔آصف زرداری نے پیشگی کہہ دیا کہ وزیراعظم کے انتخاب کے دوران وہ ایوان میں موجود نہیں ہوں گے۔
شہبازشریف نے آصف زرداری کے خلاف حالیہ الیکشن اور اس سے پہلے ماضی میں جو زبان استعمال کی ، اس کے جواب میں پیپلزپارٹی کی یہ مجبوری سمجھ میں آتی تھی۔ پیپلزپارٹی نے شہبازشریف کو ووٹ نہیں دیا، بلکہ قومی اسمبلی میں ان کے احتجاجی پروگرام سے بھی خود کو الگ رکھا، اور جب اسپیکر باربار شہباز شریف کو تقریر ختم کرنے کا کہہ رہے تھے تو بلاول بھٹو نے ان پر یہ طنزیہ فقرہ بھی اچھالا کہ شہبازشریف صاحب، آپ کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں، اسپیکر اور وزیراعظم کے انتخاب نے اپوزیشن کے اندرونی اختلافات کو مزید نمایاں کردیا اور اپوزیشن کے متحد ہونے کے جو خواب دیکھے یا دکھائے جا رہے تھے، ان کے شرمندہ تعبیر ہونے کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ایک صفحہ پر نہ ہونے کاایک اور ثبوت پنجاب اسمبلی میں اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ملا، جب پیپلز پارٹی نے پنجاب اسمبلی میں ن لیگ نے اسپیکر اور وزیراعلیٰ کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا اور اپنا حق راے دہی استعمال نہیں کیا۔
یہاں اسپیکر کے انتخاب میں ن لیگ کو دوسرا زخم اس طرح لگا کہ خفیہ رائے شماری میں ان کے قریب قریب گیارہ ارکان نے چوہدری پرویزالٰہی کو ووٹ دے دیا۔یہ ن لیگ میں فارورڈ بلاک بننے کی گھنٹی تھی۔ پنجاب اسمبلی میں اگر پیپلزپارٹی، ن لیگ کو ووٹ دیتی تو وزیراعلیٰ کے انتخاب میں تحریک انصاف کو قدرے دباؤ میں لا سکتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے یہ مناسب نہیں سمجھا اورعثمان بزدار کو منتخب ہونے دیا۔ پیپلزپارٹی کا یہ اقدام گویا یہ اعلان تھا کہ تحریک انصاف کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا سردست کوئی وجود نہیں۔
صدارتی انتخاب اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوئے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صدارتی انتخاب کے لیے پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے ساتھ بالواسطہ مشاورت کی ضرورت بھی نہ سمجھی اور اعتزازاحسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔ پاناما لیکس اور پاناما کیس میں اعتزازاحسن اور عمران خان کا موقف قریب قریب یکساں رہا۔ پاناما لیکس پر پارلیمانی کمیٹی میں اس وقت کی اپوزیشن کی قیادت میں وہی کر رہے تھے۔ اور پاناما لیکس کی انکوائری کے لیے ان کے مرتب کردہ ٹی او آرز کی تحسین سپریم کورٹ تک نے کی۔
آصف زرداری بہت سوچ سمجھ کر اعتزازاحسن کو نامزد کیا اور یہ بات پہلے سے طے تھی کہ ان کا نام کسی صورت واپس نہیں لیا جائے گا۔ یہ بات بھی ان کو معلوم تھی کہ ن لیگ اعتزازاحسن کے نام پر رضامند نہیں ہو گی۔صدارتی انتخاب میں پیپلزپارٹی نے جو پوزیشن لی ہے، اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ پیپلزپارٹی سردست ن لیگ کی اپوزیشن سیاست کا دم چھلہ بننے کو تیارنہیں،اور ''دیکھو اور انتظار کرو'' کی پالیسی پر عمل پیراہے ۔بات حقیقتاً وہی ہے، جس کی طرف شروع میں توجہ دلائی گئی کہ الیکشن 2018 ء میں پیپلزپارٹی کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہو چکی۔سندھ میں یہ پیپلزپارٹی کی متواتر تیسری حکومت ہے، جس کا تمام تر کریڈٹ بہرحال آصف زرداری کو جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو بھی یہ نہیں کر سکی تھیں۔پاکستان کی تاریخ میں اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی پارٹی نے کسی صوبہ میں متواتر تیسری مرتبہ حکومت بنائی ہو۔لہٰذا آصف زرداری کیوں چاہیں گے کہ نواز شریف کی ڈوبتی کشتی میں سوار ہوں اور ان کی طرح اپنا سب کچھ کھو دیں۔اس پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ آصف زرداری مقدمات کے خوف سے ن لیگ کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں، تو اس دلیل میں اس لیے کوئی وزن نہیں کہ آصف زرداری آج جن مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں، وہ ان کے خلاف تحریک انصاف نے نہیں، ن لیگ نے بنائے تھے۔
لہٰذا ن لیگ کو اب فوری طور پر متحدہ اپوزیشن کے خواب دیکھنے کے بجائے حقیقت کاسامنا کرنا ہوگااوراپوزیشن کی سیاست کا یہ بھاری پتھر پہلے خود اٹھانا ہو گا۔لیکن الیکشن کے بعد بطور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی اب تک کی بوکھلاہٹ، جھنجھلاہٹ اور اکتاہٹ اور ان کا ماضی سامنے رکھیں، تو یہ وہ کام ہے، جو ان کے بس کا روگ معلوم نہیں ہوتا۔ شاعر نے کہا تھا
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے