چار آنے کا کھلاڑی

موجودہ حالت تو یہ ہے کہ ہماراملک اولمپک تو چھوڑئیے، کسی بھی انٹرنیشنل مقابے میں نمایاں حیثیت کامالک نہیں ہے۔

raomanzar@hotmail.com

پشاورکی بے حد گرم موسم والی شام تھی ، رائل ائیرفورس کی چھاؤنی میںتھوڑی سی رونق تھی۔ انگریز افسراوران کے بیوی بچے،چھاؤنی کی مارکیٹ کی جانب سائیکلوں پر آجا رہے تھے۔ شام کا پچھلا پہر تھا۔ سورج ابھی ڈوبا نہیں تھا۔ یہ 1922 کا پشاور تھا۔ کلب کی رونق آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ اس کے بالکل ساتھ اسکواش کورٹ تھا۔اوپرسے کھلایہ کورٹ اس بے انتہاسخت گیم کے لیے کافی تھا۔ائیرفورس کے دوگورے افسر اسکواش کھیلنے میں مصروف تھے۔

اچانک ایک افسرسے غلط زاویے پرشاٹ لگی۔ گیند احاطہ سے باہرچلی گئی بلکہ گم ہوگئی۔ دونوں باہرنکل کربال ڈھوندنے لگے۔لمبی گھاس میں اتنی چھوٹی گیند تلاش کرناقدرے مشکل تھا۔دونوں کی نظرایک بچے پر پڑی۔میلے کچیلے کپڑے پہنے،ننگے پاؤں،یہ بچہ کواٹروں سے کھیلنے کے لیے آیاتھا۔انگریزافسرنے زورسے آوازدی۔بچہ بھاگتا ہوا آیا۔ گیندگم گئی ہے، تلاش کرکے لاؤ۔گورے بادشاہ کاحکم تھا۔ کسی بھی مقامی شخص کی کیامجال تھی کہ حکم عدولی کرے۔

بچہ تیزی سے گھاس میں بال تلاش کرنے لگا۔ چندمنٹوں میں بچے کوگوہرمقصودمل گیا۔بال لے کر دوڑتا ہوا گورے افسرکی طرف گیا۔امانت ان کے حوالے کرکے واپس جانے لگا تو انگریز افسر نے اپنے ساتھی سے کچھ پوچھ کرزورسے واپس آنے کوکہا اور حکم دیاکہ ہماری گینداکثرگھاس میں گم ہوجاتی ہے۔تم روزانہ میس میں آجایاکرو۔جیسے ہی گیندگھاس میں جائے تو دوڑکرواپس لے آنا۔تمہیں اس کام کے چارآنے روزانہ دیاکریںگے۔بچہ بے حدخوش ہوگیا۔

سلسلہ یہ ہواکہ جیسے ہی صاحب لوگوں کی گیندکورٹ سے باہر آتی۔لڑکا اسے پکڑکرفوراًواپس لے آتا۔ آہستہ آہستہ انگریزافسروں نے اس پراعتمادکرناشروع کردیا۔ اسکواش کے ریکٹ اوربال اس کے پاس رکھوا دیے۔ مقرروقت پربچہ ریکٹ اوربال، کورٹ میں لے آتا۔ افسرگیم کھیلتے اوردوبارہ اس کے پاس رکھوا دیتے۔ تھوڑی دیرکے بعدیہ سلسلہ بڑھ گیا۔ تمام کھلاڑی اپناسامان بچے کے پاس رکھواناشروع ہوگئے۔

ایک طرح سے اسکواش کورٹ میں ملازم ہوگیا۔بچہ صرف نوبرس کاتھا۔ لڑکپن کی دہلیزپرقدم رکھ رہاتھا۔دوتین سال بڑے انہماک سے گیم کو دیکھتارہا۔ایک دن ذہن میں ٹھانی کہ اب خود کھیلے گا۔ افسروں سے کھیلنے کی اجازت لے لی۔جیسے ہی تمام انگریز گیم ختم کرکے واپس چلے جاتے۔تووہ بچہ ننگے پیر اسکواش کھیلنا شروع کردیتا۔گھنٹوں کھیلتارہتا۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے ورزش کرنی شروع کردی۔اب یہ ہواکہ جھاڑوسے اسکواش کورٹ کی صفائی کرتاتھا۔شام کوصاحب لوگوں کوگیم کرواتا تھا۔ دن میں دوبار خود بھی کھیلتاتھا۔انگریزافسراس کی بے حدحوصلہ افزائی کرتے تھے۔یہ بچہ دراصل اسکواش کی دنیاکابے تاج بادشاہ،ہاشم خان تھا۔

ہاشم اس کھیل پراتنا حاوی ہوگیاکہ پہلے انڈیااور پھر تقسیم کے بعدپاکستان کاچیمپئن بن گیا۔ 1951میں اسے پاکستان ائیرفورس نے لندن کے بین الاقوامی مقابلے میں بھجوایا۔کھیل میں پہلی باراس نے جوتے پہنے۔اس سے پہلے،وہ تمام عمربرہنہ پیروں سے کھیلتارہاتھا۔بڑی آسانی سے عالمی چیمپئن بن گیا۔مسلسل سات برس ہاشم خان دنیاپر اپنے کھیل کی بدولت حکومت کرتارہا۔1958تک اسے اسکواش میں کوئی بھی شکست نہ دے سکا۔اس خاندان سے اسکواش جیسی مشکل گیم کے متعدد بین الاقوامی کھلاڑی پیداہوئے۔ اگر آپ1947سے لے کر ملک کے پہلے پنتیس چالیس برس دیکھیے۔ تو پاکستان نے متعددکھیلوں میں نام پیداکیا تھا۔

ہاکی کولے لیجیے۔صلاح الدین، شہناز شیخ، اختررسول، حسن سردار،سمیع اللہ جیسے عظیم کھلاڑی،بین الاقوامی سطح پرہمارے ملک کی پہچان بن گئے۔ایک زمانے میں ہاکی میں پاکستان کو ہرانا ناممکن تھا۔ بھلے زمانے میں کرکٹ میں فضل محمود، ماجد خان، ظہیرعباس،میاں داداورعمران خان جیسے بہترین کرکٹر موجود تھے۔ ساری کھیلوں کاذکرنہیں کرسکتا کیونکہ ایک کالم میں اتنا سب کچھ سمیٹا نہیں جاسکتا۔


عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ ایک زمانے میں پاکستان ہرسطح پر کھیلوں کے میدان میں قابل رشک حیثیت کامالک تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس سنہرے دورکے بعد،اس درجہ انحطاط کیسے اورکیونکروقوع پذیر ہوا۔موجودہ حالت تو یہ ہے کہ ہماراملک اولمپک تو چھوڑئیے، کسی بھی انٹرنیشنل مقابے میں نمایاں حیثیت کامالک نہیں ہے۔ تنزلی کایہ سفراتنامہیب ہے کہ سوچنے والاشخص پریشان ہوجاتاہے۔ایسی بلندی اوراب ایسی پستی۔

پہلی تکلیف دہ بات تویہ کہ پورے ملک میں کھیلوں کے حوالے سے کوئی دوررس قومی پالیسی موجودنہیں ہے۔ پلاننگ کے بغیر،ہماراتمام کام ایڈہاک طریقے سے کیا جاتا ہے۔ملکی یاانٹرنیشنل سطح کاکوئی مقابلہ ہونے کے قریب ہوا تو ہم ایک دم جاگ جاتے ہیں۔خراٹے مارتی ہوئی نیندسے تھوڑی دیرکے لیے باہرآتے ہیں۔کیمپ لگایاجاتاہے۔جس میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ شروع ہوجاتی ہے۔یہ تربیت،فنی طریقے سے اس قدرناقص ہوتی ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔چنددوستوں کے ساتھ،ایک تربیتی کیمپ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ملکی سطح کے ایک ادارے کے اسپورٹس ہوسٹل میں تمام کھلاڑیوں کے لیے مناسب بیڈتک نہیں تھے۔پچاس فیصد کھلاڑی، ٹریننگ کے بعدرات کوزمین پرسوتے تھے۔

ان کے لیے انتہائی بوسیدہ فوم کے گدے موجودتھے۔کھانے کاانتظام حددرجہ ناقص تھا۔ کھلاڑی کھاناباہرسے کھاتے تھے۔پوری ٹیم کے لیے کوئی ڈائٹیشن نہیں تھا۔کوئی تھیراپسٹ نہیں تھا۔ساراکام اللہ توکل چل رہاتھا۔یہ ایک ساکھ والے ملکی ادارے کاتربیتی کیمپ تھا۔ باتھ روم اتنے غلیظ تھے کہ انسان وہاں ایک منٹ ٹھہرنہیں سکتا تھا۔تمام قومی اداروں میںکھیلوں کے حوالے سے بالکل ایک جیسی زبوں حالی ہے۔قومی سطح پرہمارے پاس کوئی ایسی مربوط پالیسی ہی نہیں ہے جس کی بدولت مختلف کھیلوں پربین الاقوامی معیارکے مطابق توجہ دی جاسکے۔ مربوط قومی پالیسی کے بغیر،اس اہم ترین شعبے کو اوپر اُٹھانا ناممکن ہے۔

دوسری بات بھی انتہائی اہم ہے۔ہمارے پاس جدید ترین انفرااسٹرکچرموجودنہیں ہے۔متعدداسٹیڈیم بنائے گئے۔ مگر وہاں،اعلیٰ درجے کی سہولتیں ناپید ہیں۔ہاں،اگرہم نے چند اچھے اسٹیڈیم بنابھی دیے ہیں توان سہولتوں کواستعمال کرنے کافنی شعور ناپید ہے۔صرف چاردیواری اورسیڑھیاں بنانے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔اصل بات توان گراؤنڈز کاجدیدترین زاویوں سے سائنسی استعمال ہے جس سے کھلاڑی تربیت پاکرآگے نکلے۔اگرکھیلوں کے حوالے سے جدیدسائنسی سوچ ہی نہیں توصرف گراؤنڈز سے تو گھاس کی طرح کوئی اچھا کھلاڑی نہیں اُگ سکتا۔ کھلاڑیوں کی تربیت تواب ایک سائنس ہے۔ ہر طرف غورسے دیکھیے۔ اگر، انفرااسٹرکچر کا جدید طریقے سے استعمال ہوتانظرمیں آئے تو خاکسار کو ضرور بتائیے گا۔

تیسرے نکتہ پربھی غورکرناچاہیے۔کھلاڑیوں کی نرسریاں موجودنہیں ہیں۔یعنی پورے ملک میں کوئی ایسانظام نہیں ہے۔ جس میں بچوں کی سطح سے ٹیلنٹ کوتلاش کیاجائے اور اس کے بعدان پرمحنت کی جائے۔کسی بھی اسپورٹس کی طرف توجہ دیجیے۔ ہمارے ملک میں نوعمری کی سطح پرکوئی توجہ نہیں دیتا۔ اگرایک بچہ، اچھا ایتھلیٹ بننے کا قدرتی ہنر رکھتاہے تو اسے شناخت کرکے آگے کیسے لایاجائے۔کسی کھلاڑی سے پوچھ لیجیے۔

نناوے فیصد لوگ، اپنی ذاتی محنت کے بل بوتے پرآگے نکلتے ہیں۔یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اسکولوں سے کسی بھی کھیل کاجوہرتلاش نہ کیا جائے۔پھرقوم اُمیدکرے بلکہ دعائیں مانگے کہ مقابلے میں ٹیم سرفراز ہوجائے۔ یہ بذات خود ناممکن کام ہے۔قدرت کے قوانین کے بھی خلاف ہے۔ پوری دنیا میں چھوٹی عمرکے بچوں اوربچیوں کے لیے باقاعدہ ادارے موجود ہیں۔انتہائی بلندسطح کے ماہرین انتہائی ریاضت سے اسکول جاکرٹیلنٹ کوشناخت کرتے ہیں۔ پھر ان کی تربیت کے لیے نرسریاں قائم ہیں۔سات آٹھ سال کی عمر سے ہی،قومی اداروں سے تعلق رکھنے والے اسپورٹس ماہرین،محنت شروع کروادیتے ہیں۔دس بارہ برس کی تربیت سے،بین الاقوامی سطح کے کھلاڑی پیدا ہوتے ہیں۔ جنکوکسی بھی مقابلے میں مات دیناناممکن ہے۔خود سوچیے۔ کیا،ان نرسریوں کے بغیر، کسی بھی ملک میں اچھے کھلاڑی سامنے لائے جاسکتے ہیں۔ قطعاًنہیں،بلکہ ہرگزنہیں۔

ہاں،ایک اورتکلیف دہ حقیقت۔ہم نے کرکٹ کو پیسہ کمانے کی مشین بنادیاہے۔اس میں حددرجہ معاوضہ بھی ہے اورمراعات بھی۔یہ کوئی غلط بات نہیں۔مگریہ سب کچھ،باقی تمام کھیلوں کی بربادی کے عوض کیاجارہاہے۔یعنی اب اگر کھلاڑی کے پاس پیسہ ہے توصرف کرکٹ میں۔باقی تمام کھیلوں کے ہیرو،تقریباًگمنامی اورسفیدپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔کئی تواپنے میڈل بازارمیں فروخت کرنے پر مجبورہوجاتے ہیں۔حکومتی بے اعتناعی اورمالی مشکلات میں انکاکوئی سہارا نہیں بنتا۔اکثراخبارمیں تصویرآتی ہے کہ ایک بوڑھاکھلاڑی،بازارمیں اپنے میڈل سامنے رکھ کرمالی امدادکے لیے صدادے رہاہوتا ہے۔

ہمارے عجیب معاشرے میں کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ کھیلوں کی بہتری کے لیے توجہ دے۔ کھلاڑیوں کوبے روزگاری کے عذاب سے باہر نکالے۔ ہمارے موجودہ نظام سے تو1920کے وہ انگریز افسر بہتر تھے جنہوں نے ہاشم خان کواسکواش کورٹ استعمال کرنے کی اجازت دیدی تھی۔جواسے روزچارآنے دیتے تھے، تاکہ وہ توجہ سے کھیل کی طرف دھیان دے۔ اسکواش کو آگے لے کر جائے۔اب تو واقعی، اکثر کھلاڑیوں کوکوئی چار آنے دینے کے لیے بھی تیارنہیں۔اچھے کھلاڑی اس طرح کیاخاک پیدا ہونگے!
Load Next Story