جمہوریت کی خاطر
دنیا کی تمام بڑی اور مستحکم جمہوریتوں میں عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری پر بہت زور دیا جاتا ہے۔
یہ سطریں جب آپ کی نظر سے گزریں گی، اس وقت ہندوستانی سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے میں 24 گھنٹے رہ گئے ہوں گے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرے گی، لیکن اب تک ہندوستانی سپریم کورٹ جمہوریت اور جمہوری اداروں کی پشت پرکھڑی رہی ہے اور اس نے متعدد ایسے فیصلے کیے ہیں جو حکمران طبقے کے لیے ناگوار خاطر تھے۔ اسی لیے لوگوں کا خیال ہے کہ اس بار بھی سپریم کورٹ ہندوستانی پارلیمان کے تقدس ،آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی پشت پناہی کرے گی۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کی تمام بڑی اور مستحکم جمہوریتوں میں عدلیہ کی آزادی اور غیرجانبداری پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ عدلیہ اگر آزاد نہ ہو توکسی بھی حکمران کے لیے جمہوریت کو تباہ وبربادکردینا بہت آسان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ بیسویں صدی میں ایسے کئی مطلق العنان حکمران گزرے ہیں جو عوام کے بھاری بھرکم مینڈیٹ سے منتخب ہوکر اور جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہوئے آئے تھے۔ عوام گزشتہ حکومتوں کی نا اہلیوں سے تنگ تھے،انھوں نے ان حکمرانوں کو مسیحاخیال کیا یہ تو ایک ڈیڑھ دہائی کے بعد انھیں اندازہ ہوا کہ وہ فریب نظرکا شکار ہوئے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر انھوں نے دھوکا کھایا ہے ۔
گزشتہ صدی میں اس کی سب سے بڑی مثال جرمنی کی ہے ۔ پہلی جنگ عظیم میں بری طرح شکست کھانے کے بعد جب ایڈولف ہٹلر جرمن قوم کی عزت نفس کی بحالی اور معیشت کواپنے قدموں پرکھڑا کر دینے کا نعرہ لگاتا ہوا اٹھا تو جرمنوں نے اس کی راہ میں آنکھیں بچھائیں ۔ اس بارے میں رچرڈ ایوانس نے اپنی کتاب میں ہمیں یاد دلایا ہے کہ ہٹلرکی نیشنل سوشلسٹ پارٹی نے مئی 1928کے انتخابات میں صرف 3 فی صد ووٹ لیے تھے لیکن 5 برس بعد جولائی 1932میں ہونے والے انتخابات میں اس کی جماعت نے 37 فی صد ووٹ لیے اور وہ جرمن قوم کے مقدرکا مالک بن گیا۔ عوام کے ووٹوں سے کامیابی حاصل کرنے والا یہ حکمران جمہوریت پسند ہونے کا دعوے دار تھا۔
اس صورت حال کے بارے میں وولکر اولبرچ کا کہنا ہے کہ اس کے جرمن چانسلر ہونے کے قانونی اور آئینی ہونے پرکوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔ قدامت پرست جرمن سیاستدانوں کا خیال تھا کہ وہ ایڈولف ہٹلرکو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے کیونکہ وہ سیاسی میدان میں طویل تجربہ رکھتے ہیں جب کہ ہٹلر ان کے سامنے کا طفل مکتب تھا۔ یوں بھی وہ ایک کولیشن گورنمنٹ کا سربراہ تھا اور دوسری کئی سیاسی جماعتوں کی خوشنودی اسے درکار تھی ۔
تجربہ کار سیاستدانوں کے یہ تمام اندازے نقش بر آب ثابت ہوئے ۔ ہٹلر اپنے قریبی مشیروں بہ طور خاص اپنی پروپیگنڈا مشین کے سربراہ جوزف گوئیبلز اورگوئرنگ کی مشاورت پر عمل کرتے ہوئے ایک دیو قامت سیاسی رہنما کے طور پر ابھرا ۔ اس کی شخصیت صرف جرمنی ہی نہیں ، یورپ کے دوسرے ملکوں کے سربراہوں سے بھی قدوقامت میں کہیں آگے نکل گئی۔
پہلی جنگ عظیم نے جرمنی کو معاشی بحران کی دلدل میں دھکیل دیا تھا ۔ بڑے بڑے صنعتی ادارے اپنی فیکٹریوں میں تالا ڈالنے پر مجبور ہوچکے تھے ، بینکوں کا دیوالیہ نکل گیا تھا ، بیروزگاری کا عفریت عوام کی گردنیں چبا رہا تھا اورکروڑوں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے ۔ ایسے میں ہٹلر جرمنی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ہوائی جہاز کے ذریعے گھوم گیا۔ اس نے چھوٹے اور بڑے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں آگ لگا دینے والی تقریریں کیں ۔ غربت سے عاجز و بیزار شہریوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے لیے لاکھوں کروڑوں ملازمتیں پیدا کرے گا ۔ ان کی زمینیں سونا اگلیں گی اور ان کے بند کارخانے زوروشور سے کام شروع کردیں گے ۔ اپنے مشیروں کی مدد سے اس نے میڈیا کو اپنے قبضے میں کیا ۔
اس نے اعلان کیا کہ وہ جرمنی کی عظمت کو نقصان پہنچانے والے ان گروہوں کوکچل کر رکھ دے گا جو اپنے آپ کو کمیونسٹ ، لبرل اور سوشلسٹ کہتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ وہ گروہ ہیں جو دیمک کی طرح جرمن قوم کی عظمت کو چاٹ گئے ہیں اور ان سے نجات حاصل کیے بغیر جرمن ایک عظیم قوم کی طرح دوبارہ نہیں ابھر سکتے۔ اس نے سب سے پہلے جرمنی کا نعرہ لگایا اور صبح سے شام ، رات سے صبح تک لوگ اس کی زبان سے دل خوش کرنے والے نعرے سنتے، ان نعروں پر یقین کرتے اور اپنی بد حالی کا مداوا ان دل فریب نعروں میں ڈھونڈتے۔
ہٹلر بہ ظاہر بے ساختہ اور زبانی تقریریں کرتا لیکن یہ تقریریں اس کی پروپیگنڈا مشینری کے لوگ نہایت احتیاط سے تیارکرتے جنھیں وہ یاد کرتا ۔ پھر لاکھوں کے مجمعے میں انھیں بے ساختہ انداز میں کرتا۔اس کی زبان غلیظ اور شرم ناک ہوتی لیکن اس کے سننے والوں کو اس کی باتوں سے گھن نہ آتی اور وہ اس کی گالیوں پر بھی اسے داد دیتے ۔
اخلاقی معیار پر پورے اترنے والے وہ جرمن جن کا تعلق اشرافیہ یا اعلیٰ متوسط طبقے سے تھا ، وہ اس کی بد زبانی پر سر پیٹتے لیکن اس خوف سے خاموش رہتے کہ کہیں جرمنی کا دشمن ہونے کا الزام لگاکر انھیں زد وکوب نہ کیا جائے یا ان کے گھر نہ لوٹ لیے جائیں، ان کی لڑکیاں نہ اٹھالی جائیں ۔ اپنی تقریروں میں وہ کہتا کہ جرمنی کے دشمنوں پر جرمانے عائدکرنے یا ان کی جائیدادیں ضبط کرنے سے کام نہیں چلے گا ۔ ایسے مرحلے پر سامنے موجود لاکھوں کا مجمع ہذیانی انداز میں چیختا کہ ''ان کی ہڈیاں توڑ دو ، انھیں پھانسی دو۔ ''
اس نے اپنے خلاف لکھنے والے اخباروں، صحافیوں اور ادیبوں کو''غدار'' اور''جھوٹے'' کے لقب سے پکارا ۔ وہ اخبار جوکھل کر اس کی مخالفت کرتے تھے انھیں ''یہودی پریس '' کا نام دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ آزادی تحریرکے نام پر یہ لوگ جرمن قوم کے مفادات سے غداری کررہے ہیں ۔ ابتداء میں ہٹلرکے ان نفرت بھرے نعروں کو اہمیت نہیں دی گئی اور لوگوں نے یہی سمجھا کہ ساری آفت جرمنی میں رہنے والی یہودی اقلیت ، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی گروہوں،کمیونسٹوں اور آزادیٔ فکر اور امن عالم کی بات کرنے والے مٹھی بھر صحافیوں کے سر آکر ٹل جائے گی ، لیکن جرمنی پر جو بھیانک خواب مسلط ہوا تھا ، اس کا ختم ہونا تو دورکی بات تھی ، وہ پھیلتا چلا گیا ۔
عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والی انجمنیں ممنوع ہوئیں، جسمانی طور سے معذور افراد سے نجات حاصل کی گئی ، ملک کے جمہوری ادارے بند کردیے گئے، صحافتی آزادی سلب کی گئی اور یہودیوں کو خوفناک دھمکیاں دی جانے لگیں ، مخالف نظریات رکھنے والے اخبارات کو بندش کا سامنا کرنا پڑا، حزب مخالف کے افراد اور یہودیوں کے کاروبار ضبط کیے گئے ۔ ان ضبطگیوں کا فائدہ گوئبلز،گوئر ینگ اور ہٹلرکو پہنچا ۔
ہٹلر نے سربراہِ مملکت ہونے کی حیثیت میں تنخواہ لینے سے انکارکردیا تھا ۔ بقول اس کے یہ حبِ وطن کے خلاف تھا لیکن دولت کمانے کا اس نے ایک نیا ذریعہ ایجاد کیا اور وہ یہ تھا کہ جب بھی اس کا چہرہ ڈاک کے ٹکٹ ، اخباروں یا رسالوں میں شایع ہوتا تو اسے ''رائلٹی'' ادا کی جاتی ۔ اس رائلٹی نے اسے امیر بنادیا جب کہ گوئرنگ ان لوگوں سے ''نذرانے'' لیتا جو اس سے مختلف فوائد حاصل کرتے تھے ۔ ان ''نذرانوں '' کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی ذاتی ریل تھی اور جرمنی کے مختلف علاقوں میں 5 شکارگاہیں ۔
27اور 28فروری کی رات جرمن پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں جو ریشتاغ کہی جاتی تھی آگ لگی، اس میں ذہنی طور پر ایک مخبوط الحواس ڈچ آرکیٹکٹ کا ہاتھ تھا لیکن اس کی آگ کو یہودیوں اورکمیونسٹوں کے سر منڈھ دیا گیا۔اس الزام میں متعدد افراد کی گرفتاریاں ہوئیں ، انھیں سخت سزائیں دی گئیں اور بعض موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔ ہٹلرکی جمہوریت دشمنی اور فوج دوستی کی داستان بہت طولانی ہے ۔
بات ہندوستان میں جمہوریت اور آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹنے سے شروع ہوئی تھی اور جا پہنچی بیسویں صدی کے ایک منتخب آمر ایڈولف ہٹلر تک ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم تاریخ کی طرف دھیان نہیں دیتے اور یہ نہیں سوچتے کہ 25، 50 یا 75برس پہلے دنیا کے مختلف علاقوں میں کیا ہوا تھا اور دیانتدار لوگوں کو ''غدار'' قرار دے کر جمہوریت کے کس طرح بخیے ادھیڑے گئے تھے ۔ کئی دہائیوں سے ہندوستانی جمہوریت جن خطرات سے دوچار ہے، اس کا بہ خوبی اندازہ ان ہندوستانی دانشوروں ، تاریخ دانوں اور صحافیوں کو ہے جنہوں نے ماضی کے حالات اور واقعات سے اپنا رشتہ جوڑے رکھا ہے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کو ان سیاست دانوں سے زیادہ خطرات ہوتے ہیں جو اپنے جمہوریت دشمن چہروں پر جمہوریت دوستی کا مکھوٹا چڑھائے ہوئے ہوتے ہیں ۔
ہمیں ہندوستان ، امریکا اور بعض دوسرے ملکوں کی تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے جہاں منتخب حکمران ، دعوے جمہوری ہونے کے کرتے ہیں لیکن جمہوریت کو روندنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جمہوری اصول کتابوں میں لکھے جاتے ہیں لیکن لکھے ہوئے لفظ اس وقت تک زندہ نہیں ہوتے اور انسانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے اہل نہیں ہوتے جب تک جمہوریت دشمنی سے دوچارکسی سماج کے ایماندار اور دلیر افراد جمہوریت کی خاطر مشکلات نہیں جھیلتے ۔