ریاست سیاست اور تاریخ
متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے سیاسی جماعتوں میں نئے لیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔
مقتدا علی خان بنیادی طور پر استاد ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کے مضمون میں پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد اپنی منشاء سے تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا اور سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے باوجود تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
مقتدا علی خان نے منصور حلاج سے عقیدت اور ان کے نعرہ ''انا الحق ''سے متاثر ہوکر اپنے نام کے ساتھ منصورکا لاحقہ لگایا ۔مقتدا منصور اس ملک کے گنتی کے اساتذہ میں شامل ہیں جنہوں نے تدریس کے ساتھ مطالعے کو اولیت دی اور تحریرکو اپنا شعار بنایا۔ اردو کے علاوہ سندھی اور انگریزی میں بھی لکھتے ہیں۔ مقتدا منصورکی چوتھی کتاب ''ریاست، سیاست اور تاریخ'' شایع ہوگئی ہے۔
اس کتاب میں 17 اہم موضوعات پر مصنف نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ کتاب 192 صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا پہلا موضوع '' سیکیولر ازم اور مذہبی شدت پسندی'' ہے جس کا انھوں نے تاریخ کے آئینے میں جائزہ لیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ سیکیولر معاشرے سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں رنگ، نسل، لسان، عقیدہ، صنف اور ثقافتی پس منظرکی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ۔ مقتدا منصور نے اس آرٹیکل میں انتہاپسندی کی مربوط تعریف کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انتہا پسند وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے نظریات اور عقائدکی برتری پر اصرارکرتے ہیں اور دیگر عقائد ونظریات کے حامل لوگوں کوکمتر اور گمراہ تصورکرتے ہیں۔
ایسے لوگ اپنے نظریات اور عقائد سے مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو گمراہ، بھٹکا ہوا اور منکر دین قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کے فتوے تک صادرکرتے ہیں اور انھیں انھی بنیادوں پر قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ سیاست میں انتہاپسندی سے مراد ایسے نظریات کا فروغ ہے جو جمہوریت کی جگہ شخصی یا کسی مخصوص عقیدے یا نظریے کی بنیاد پر ریاست کے قیام پر اصرارکریں ۔ انتہاپسندی صرف مذہبی عقائد کے حوالے سے نہیں ہوتی بلکہ سیاسی افکار اور سماجی رویے کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔
مقتدا منصور لکھتے ہیں کہ ریاستی اقتدارواختیار کی نچلی سطح پر عدم مرکزیت اور اختیارات کی نچلی ترین سطح تک منتقلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لہٰذا جو سیاسی قوتیں مختلف حیلوں بہانوں سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں وہ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ان کے مسائل کو الجھانے کا سبب بن رہی ہیں ۔اس کتاب کا اہم آرٹیکل ''سندھ کی سیاست کے مدوجزر'' ہے۔ مقتدا نے اس طویل آرٹیکل میں 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد سندھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد سندھ کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پھر قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی صرف سندھ میں آبادکاری سندھ کی تعلیمی ومعاشی صورتحال وفاقی دارالحکومت کراچی کا معاملہ کراچی طلبہ کی تحریک سے اہم موضوعات کا بے خوفی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ انگریزی کی آمدکے وقت اور اس کے بعد سندھ کی سماجی تشکیلات کچھ اس طرح تھیں کہ اس صوبے میں مسلمان اکثریت میں تھے لیکن ان کی اکثریت غیر ہاری تھی یا پھر جاگیردار جب کہ مڈکل کلاس پر ہندو حاوی تھے۔
انگریزی دور میں یہ تضاد زیادہ نمایاں اور واضح ہوتا چلاگیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے جاگیرداروں نے سندھ میں ہندوؤں کی پیدا کردہ سندھی قوم پرستی کے برخلاف مسلم قوم پرستی کا نظریہ اپنایا۔ سندھ میں ہندو اقلیت میں تھے مگر پوری مڈل کلاس انھی پر مشتمل ہونے کی بناء پر انھوں نے سندھ میں اربن معاشرت کو جنم دیا۔ مسلم زمینداروں نے مسلم لیگ کی مدد سے سندھ کو بہرحال بمبئی سے علیحدہ کرالیا مگر اس کے باوجود 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بہت کم ووٹ حاصل کرسکی۔
مسلم لیگ کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے اور ''اسلام خطرے میں ہے'' کا نعرہ بلند کر کے سندھ میں اپنی کمزور پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے، چنانچہ سکھر میں ایک مسجد کے معاملے کو ازسرنو اٹھایا گیا ۔
مقتدا منصور، قیام پاکستان کے بعد سندھ کے سیاسی و سماجی منظرنامہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ معروف سیاسی دانشور حمزہ علوی کے مطابق پہلی عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی کساد بازاری نے ہندو مسلم کاروباری حلقوں کے درمیان تیز رفتار مسابقت پیدا کردی۔ مسلمان تاجروں کو اندازہ ہوگیا کہ وہ ہندو بنیے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح مسلم مڈل کلاس کے نوجوان مقابلے کے امتحان میں میرٹ پر ہندو نوجوان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔
کوٹے کی بنیاد پر منتخب ہوتے تھے، انھیں خدشہ تھا کہ آزاد ہند میں صرف میرٹ کی بنیاد پر مقابلے کے امتحانات اور تقرریاں ہونگی تو ان کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔ اس لیے یوپی، مدہیہ پردیش کی نوجوان مڈل کلاس مسلم لیگ کی جانب متوجہ ہوئی ۔ اکثر زمیندار شہروں میں عیاشی کے لیے آتے، فیوڈل اپنے ہاریوں اور کارندوں کو شہری علاقوں سے دور رکھتے تھے تاکہ ان پر اس طرز حیات کے اثرات مرتب نہ ہوجائیں ۔ وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سرگرمیوں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دسمبر 1952ء سے طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان مظاہروں کا مرکز شہرکا واحد میڈیکل کالج ڈاؤ تھا ۔
ان مظاہروں کی قیادت ڈی ایس ایف کے رہنماؤں ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی وغیرہ کررہے تھے۔ 8جنوری 1953ء کو طلبہ نے جلوس کی شکل میں جاکر وفاقی وزیر تعلیم کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ کا یہ جلوس جب پیراڈائز سینما (حالیہ پیراڈائز مارکیٹ) سے ذرا آگے پاسپورٹ آفس کی جانب بڑھا تو پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ مقتدا نے طلبہ کی پہلی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے یہ تحریر نہیں کیا کہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے طلبہ کے تمام مطالبات مان لیے تھے۔ پھر مصنف نے جوہر حسین اور واحد بشیر مرحوم کو اس تحریک سے منسلک کیا ہے۔ حقیقتاً یہ دونوں رہنما 1963ء کی این ایس ایف کی تحریک کے رہنما تھے۔
مصنف نے ''سیاسی تاریخ کا بے تیغ مجاہد ''کے عنوان کے تحت معراج محمد خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ معراج محمد خان 1960ء سے 1980ء تک تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر معاشرے میں ظلم و ستم اور نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد کی علامت بنے قطب ستارے کی طرح چمکتے رہے ۔جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عوامی حقوق کی جدوجہد میں صعوبتیں برداشت کرتے گزرا۔ عمر کے آخری چند برس بیماریوں کو جھیلتے ہوئے گزرا۔ ان کی پوری زندگی دیانتداری، اصول پسندی اور نظریاتی و فکری راسخ العقیدگی سے عبارت رہی۔ ایک آرٹیکل کا عنوان ''طلبہ سیاست کے تیس سال '' ہے۔
اس آرٹیکل میں وہ لکھتے ہیں کہ 1950ء سے 1980ء تک 30 برسوں کے دوران طلبہ سیاست نے قومی سیاست کو جو ممیز لگائی تھی اور نئی قیادت مہیا کی تھی اس کے اثرات ختم ہونے سے ملک کا سیاسی عمل میں جمود کا شکار ہوا۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے سیاسی جماعتوں میں نئے لیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ مقتدا صاحب نے اس کتاب میں نوآبادیاتی دور میں قائم ہونے والی جامعات ، کمیونسٹ پارٹی اور تقسیم ہند ، تاریخ، سیاست اور عصرے تقاضے ، ذرا اک نظر ادھر تھی، سیاست اور فکری رجحانات کے موضوعات پر آرٹیکل شامل ہیں مگر ان تحریروں کے مطالعہ سے بہت سے حقائق ذہن میں روشن ہوتے ہیں۔
پڑھنے والوں کے لیے سوچنے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے مزید کھوج لگانے کا خیال تقویت پاتا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کی سیاست اور سماجیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اچھا تحفہ ہے۔ فکشن ہاؤس لاہور نے کتاب شایع کی اور کتاب کی قیمت محض 400 روپے ہے۔
مقتدا علی خان نے منصور حلاج سے عقیدت اور ان کے نعرہ ''انا الحق ''سے متاثر ہوکر اپنے نام کے ساتھ منصورکا لاحقہ لگایا ۔مقتدا منصور اس ملک کے گنتی کے اساتذہ میں شامل ہیں جنہوں نے تدریس کے ساتھ مطالعے کو اولیت دی اور تحریرکو اپنا شعار بنایا۔ اردو کے علاوہ سندھی اور انگریزی میں بھی لکھتے ہیں۔ مقتدا منصورکی چوتھی کتاب ''ریاست، سیاست اور تاریخ'' شایع ہوگئی ہے۔
اس کتاب میں 17 اہم موضوعات پر مصنف نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ کتاب 192 صفحات پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا پہلا موضوع '' سیکیولر ازم اور مذہبی شدت پسندی'' ہے جس کا انھوں نے تاریخ کے آئینے میں جائزہ لیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ سیکیولر معاشرے سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں رنگ، نسل، لسان، عقیدہ، صنف اور ثقافتی پس منظرکی بنیاد پر شہریوں کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاتا ۔ مقتدا منصور نے اس آرٹیکل میں انتہاپسندی کی مربوط تعریف کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انتہا پسند وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے نظریات اور عقائدکی برتری پر اصرارکرتے ہیں اور دیگر عقائد ونظریات کے حامل لوگوں کوکمتر اور گمراہ تصورکرتے ہیں۔
ایسے لوگ اپنے نظریات اور عقائد سے مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو گمراہ، بھٹکا ہوا اور منکر دین قرار دیتے ہوئے ان کے قتل کے فتوے تک صادرکرتے ہیں اور انھیں انھی بنیادوں پر قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ سیاست میں انتہاپسندی سے مراد ایسے نظریات کا فروغ ہے جو جمہوریت کی جگہ شخصی یا کسی مخصوص عقیدے یا نظریے کی بنیاد پر ریاست کے قیام پر اصرارکریں ۔ انتہاپسندی صرف مذہبی عقائد کے حوالے سے نہیں ہوتی بلکہ سیاسی افکار اور سماجی رویے کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔
مقتدا منصور لکھتے ہیں کہ ریاستی اقتدارواختیار کی نچلی سطح پر عدم مرکزیت اور اختیارات کی نچلی ترین سطح تک منتقلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لہٰذا جو سیاسی قوتیں مختلف حیلوں بہانوں سے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہیں وہ عوام کی خدمت کرنے کے بجائے ان کے مسائل کو الجھانے کا سبب بن رہی ہیں ۔اس کتاب کا اہم آرٹیکل ''سندھ کی سیاست کے مدوجزر'' ہے۔ مقتدا نے اس طویل آرٹیکل میں 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد سندھ پر انگریزوں کے قبضہ کے بعد سندھ کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پھر قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی صرف سندھ میں آبادکاری سندھ کی تعلیمی ومعاشی صورتحال وفاقی دارالحکومت کراچی کا معاملہ کراچی طلبہ کی تحریک سے اہم موضوعات کا بے خوفی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ انگریزی کی آمدکے وقت اور اس کے بعد سندھ کی سماجی تشکیلات کچھ اس طرح تھیں کہ اس صوبے میں مسلمان اکثریت میں تھے لیکن ان کی اکثریت غیر ہاری تھی یا پھر جاگیردار جب کہ مڈکل کلاس پر ہندو حاوی تھے۔
انگریزی دور میں یہ تضاد زیادہ نمایاں اور واضح ہوتا چلاگیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ سندھ کے جاگیرداروں نے سندھ میں ہندوؤں کی پیدا کردہ سندھی قوم پرستی کے برخلاف مسلم قوم پرستی کا نظریہ اپنایا۔ سندھ میں ہندو اقلیت میں تھے مگر پوری مڈل کلاس انھی پر مشتمل ہونے کی بناء پر انھوں نے سندھ میں اربن معاشرت کو جنم دیا۔ مسلم زمینداروں نے مسلم لیگ کی مدد سے سندھ کو بہرحال بمبئی سے علیحدہ کرالیا مگر اس کے باوجود 1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ بہت کم ووٹ حاصل کرسکی۔
مسلم لیگ کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے اور ''اسلام خطرے میں ہے'' کا نعرہ بلند کر کے سندھ میں اپنی کمزور پوزیشن کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے، چنانچہ سکھر میں ایک مسجد کے معاملے کو ازسرنو اٹھایا گیا ۔
مقتدا منصور، قیام پاکستان کے بعد سندھ کے سیاسی و سماجی منظرنامہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ معروف سیاسی دانشور حمزہ علوی کے مطابق پہلی عالمی جنگ کے بعد پیدا ہونے والی کساد بازاری نے ہندو مسلم کاروباری حلقوں کے درمیان تیز رفتار مسابقت پیدا کردی۔ مسلمان تاجروں کو اندازہ ہوگیا کہ وہ ہندو بنیے کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح مسلم مڈل کلاس کے نوجوان مقابلے کے امتحان میں میرٹ پر ہندو نوجوان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔
کوٹے کی بنیاد پر منتخب ہوتے تھے، انھیں خدشہ تھا کہ آزاد ہند میں صرف میرٹ کی بنیاد پر مقابلے کے امتحانات اور تقرریاں ہونگی تو ان کی کامیابی ممکن نہیں ہوگی۔ اس لیے یوپی، مدہیہ پردیش کی نوجوان مڈل کلاس مسلم لیگ کی جانب متوجہ ہوئی ۔ اکثر زمیندار شہروں میں عیاشی کے لیے آتے، فیوڈل اپنے ہاریوں اور کارندوں کو شہری علاقوں سے دور رکھتے تھے تاکہ ان پر اس طرز حیات کے اثرات مرتب نہ ہوجائیں ۔ وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سرگرمیوں کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دسمبر 1952ء سے طلبہ نے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان مظاہروں کا مرکز شہرکا واحد میڈیکل کالج ڈاؤ تھا ۔
ان مظاہروں کی قیادت ڈی ایس ایف کے رہنماؤں ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی وغیرہ کررہے تھے۔ 8جنوری 1953ء کو طلبہ نے جلوس کی شکل میں جاکر وفاقی وزیر تعلیم کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ طلبہ کا یہ جلوس جب پیراڈائز سینما (حالیہ پیراڈائز مارکیٹ) سے ذرا آگے پاسپورٹ آفس کی جانب بڑھا تو پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 8 افراد ہلاک ہوئے۔ مقتدا نے طلبہ کی پہلی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے یہ تحریر نہیں کیا کہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت نے طلبہ کے تمام مطالبات مان لیے تھے۔ پھر مصنف نے جوہر حسین اور واحد بشیر مرحوم کو اس تحریک سے منسلک کیا ہے۔ حقیقتاً یہ دونوں رہنما 1963ء کی این ایس ایف کی تحریک کے رہنما تھے۔
مصنف نے ''سیاسی تاریخ کا بے تیغ مجاہد ''کے عنوان کے تحت معراج محمد خان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ معراج محمد خان 1960ء سے 1980ء تک تین دہائیوں کے دوران پاکستان کے سیاسی افق پر معاشرے میں ظلم و ستم اور نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد کی علامت بنے قطب ستارے کی طرح چمکتے رہے ۔جہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ عوامی حقوق کی جدوجہد میں صعوبتیں برداشت کرتے گزرا۔ عمر کے آخری چند برس بیماریوں کو جھیلتے ہوئے گزرا۔ ان کی پوری زندگی دیانتداری، اصول پسندی اور نظریاتی و فکری راسخ العقیدگی سے عبارت رہی۔ ایک آرٹیکل کا عنوان ''طلبہ سیاست کے تیس سال '' ہے۔
اس آرٹیکل میں وہ لکھتے ہیں کہ 1950ء سے 1980ء تک 30 برسوں کے دوران طلبہ سیاست نے قومی سیاست کو جو ممیز لگائی تھی اور نئی قیادت مہیا کی تھی اس کے اثرات ختم ہونے سے ملک کا سیاسی عمل میں جمود کا شکار ہوا۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے سے سیاسی جماعتوں میں نئے لیڈر کی آمد کا سلسلہ رک گیا۔ مقتدا صاحب نے اس کتاب میں نوآبادیاتی دور میں قائم ہونے والی جامعات ، کمیونسٹ پارٹی اور تقسیم ہند ، تاریخ، سیاست اور عصرے تقاضے ، ذرا اک نظر ادھر تھی، سیاست اور فکری رجحانات کے موضوعات پر آرٹیکل شامل ہیں مگر ان تحریروں کے مطالعہ سے بہت سے حقائق ذہن میں روشن ہوتے ہیں۔
پڑھنے والوں کے لیے سوچنے اور تحقیق کرنے والوں کے لیے مزید کھوج لگانے کا خیال تقویت پاتا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کی سیاست اور سماجیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اچھا تحفہ ہے۔ فکشن ہاؤس لاہور نے کتاب شایع کی اور کتاب کی قیمت محض 400 روپے ہے۔