پختون معاشرہ اور قومی تحریک
آج کے نوجوان گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے دور کی نسل ہے۔
پختون قومی وحدت کا فلسفہ ابھی تک قوم پرست تحریک کا بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے'اس نظریے کے بڑے داعی افضل خان لالا سے پوچھا کہ پختون قومی وحدت کیسے ممکن ہوگی؟ پاکستان کو توڑ کر یاافغانستان کو توڑ کر یا دونوں کو توڑ کر الگ پختون ریاست کاقیام؟ واضح جواب نہیں'بس یہی تکرار کہ پختون قوم کو ایک ہونا چائیے۔
روایتی قوم پرست تحریک کے رہنماؤں تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ پختونستان کیا ہے؟لیکن پاکستان کے اندر ایک صحیح جمہوری وفاقی نظام کے لیے کو شش کرنی ہے یا پختونستان اور گریٹر افغانستان کے کوہ قاف کی پری کے پیچھے دوڑنا ہے؟
اسی مخمصے نے قومی تحریک کو نہ ادھر کا رکھا نہ ادھر کا' یہ مسئلہ آج بھی قومی تحریک کے کارکنوں کے اندر ذہنی پریشانی کی وجہ بنا ہوا ہے؟ دوسری طرف زمینی حقائق کیا ہیں؟ میرے گاؤں کا ایک لوہار ہے 'اس سے میں نے کہا کہ ہم پختونوں کو پاکستان سے الگ کرکے افغانستان کے ساتھ شامل کریں گے'اس لیے تم ہمیں ووٹ دو'اس نے کہا کہ میرا ایک مسئلہ ہے کہ میں لاہور جاکر برانڈرتھ روڈ سے دس لاکھ کا مال لے آتا ہوں'مال قرض لاتا ہوں اور نقد بیچتا ہوں'مہینے میں ایک بار وہاں سے آدمی اگرائی کے لیے آتا ہے اور میں اس کو لاکھ دو لاکھ روپے دے دیتا ہوں'اس طرح اس کی رقم بھی اد ا ہوجاتی ہے اور مجھے بھی مناسب منافع مل جاتا ہے۔
کیا کابل میں یہ انتظام ہے؟ وکیل صاحب کیوں ہمارے رزق پر لات مارتے ہو' ہمارے دو ٹرک بھی کراچی تک چلتے ہیں'کابل کے ساتھ مل کر ہمیں بھوکوں نہیں مرنا'یہ حال تمام تجارت پیشہ ' کاروباری اور بر سر روزگار پختونوں کا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پختون قوم کا سب سے بڑا شہر کابل'کوئٹہ اور پشاور کے بجائے کراچی ہے اور کراچی کی ٹرانسپورٹ پر پختونوں کی اجارہ داری ہے بلکہ اب چوکیداری اور بوٹ پالش کی کہانی پرانی ہوگئی۔
پشاور سے کراچی تک چلنے والی اکثر ٹرانسپورٹ بھی پختونوں کی ہے 'پاکستان سے لے کر مشرق وسطی' یورپ'امریکہ اور جنوبی ایشیاء میں ملائیشیاء اورجاپان تک پھیلے ہوئے پختون محنت مزدوری اور کاروبار کرتے ہیں'یہ پختون پاکستان میں خوش ہیں 'اس کا ثبوت سابقہ تمام انتخابات ہیں'جس میں اکثریت ووٹ پاکستان نواز پارٹیوں کو ملتے رہے ہیں ۔
پاکستان کی بیوروکریسی اور سیکیورٹی اداروں میں کافی تعداد میں پختون ملازم ہیں۔ پختون قوم کے صاحب حیثیت افراد دیہات سے نکل کر شہروں اور خا ص کر اسلام آباد' پنجاب اور سندھ کے شہروں میں بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں'ان کے بچے امریکہ اور یورپ کی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں'ان کو '' لر او بر اور پختونستان'' کے نعروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پختونوں کے ترقی پسند پارٹیوں کے کارکن بھی پاکستان کے اندر پختونوں کے ایک متحدہ صوبے اور قومی حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن پاکستان سے جدا ہونے کے تصور کو پسند نہیں کرتی'تعلیم یافتہ طبقے کو یہ احساس بھی ہے کہ افغانستان ایک پسماندہ قبائلی معاشرہ ہے اور پاکستان ایک ترقی یافتہ ریاست ہے'1990ء کے بعد جو نسل پیدا ہوکر بڑی ہو گئی ہے وہ نہ تو باچا خان'نہ صمد خان شہید اور حیات شہید سے واقف ہے اور نہ ان کے کارناموں سے(محترم ولی خان کو تو پارٹی نے ان کی زندگی میں نظر انداز کردیا تھا) ۔
آج کے نوجوان گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے دور کی نسل ہے'اب شاید سیاست میں ''باچا خانی پکار کا دور گزر گیا ہے'آج کے نوجوانوں کے مسائل اور تقاضے مختلف ہیں۔یہ کون سی سیاست ہے کہ محمود خان اچکزئی دن رات چادر پہن کر پختون ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتا ہے اور ان کا بھائی گورنر صاحب شاید سو تے بھی سوٹ میں ہیں۔آج تک کوئی پختون افغانستان کو ہجرت کرکے نہیں گیا لیکن افغانی ہر وقت یہاں آنے کو بے چین رہتے ہیں۔
پنجابی اور بنگالی بھی دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں لیکن کوئی بھی ملک توڑ کر اتحاد کی بات نہیں کرتا'یہ الزام ختم کرنا ضروری ہے' بہت سے دوست یورپ اور امریکہ کے پر تعیش ماحول میں بیٹھ کر ملک توڑنے اور انتہا پسند قوم پرستی کی بات سوشل میڈیا پر کرتے ہیں' ان کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن یہاں کا ہر قوم پرست غدار بن جاتا ہے۔
موجودہ نسل بہت تیزی کے ساتھ مسائل کا حل چاہتی ہے'وہ جارحیت اور مزاحمت پسند ہیں' مزاحمت کی سیاست پانچ سال تک عمران خان کرتے رہے' ان کی مقبولیت میں اس مزاحمتی پالیسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے' اب وہ حکومت میں ہے' باہر مزاحمتی سیاست کرنے والے دو افراد ہیں'ایک PTM اور دوسری مریم نواز شریف'اگر یہ دونوں باہر نکلیں تو عوام اور نوجون نسل ان کے گرد جمع ہوتی ہے'باقی قوم پرست سیاستدانوں میں مزاحمت پسند سیاستدان کوئی نہیں ہے' سب روایتی سیاستدان ہیںاور حکومت میں حصے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں' اگر دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو ایک جلوس تک نہیں نکال سکتے۔
روایتی پختون قوم پرست قیادت دیہاتوں کے خوانین اور مالکان اراضی پر مشتمل تھی'اس لیے وہ فطری طور پر کسان تحریک کے مخالف تھے'قوم پرست سیاست کا سارا زور قومی حقوق کے حصول پر تھا'قومی حقوق کے حصول کے بعد ان وسائل کی تقسیم میں مزدور اور کسان کا کتنا حصہ ہوگا' اس سوال پر خاموشی تھی۔ مزدور اور محنت کش طبقے سے اتنا خوف تھا کہ اے این پی نے طلباء' وکلاء'ڈاکٹروں اور اساتذہ کی تنظیمیں تو بنائی ہیں لیکن مزدور اور کسان طبقے کے لیے کوئی تنظیم نہیں بنائی 'یہی حال دیگر قوم پرست پارٹیوں کا ہے۔
قوم پرست سیاستدانوں کو سوچنا چائیے کہ آج کی معروضی صورت حال میں 1930ء کے نعرے اور سیاست نہیں چل سکتے'پختون قوم کے دانشوروں کی ذمے داری ہے کہ نئے دور کے تقاضوں کا تجزیہ کریں اور آج کی قوم پرستی کی شکل اور اس کے لوازمات پر غور کرنے پر اس کے اصول طے کریں۔میری ناقص رائے میں قومی مسائل کا نیا نکتہ نظر ہونا چائیے' پرانا نوآبادیاتی نیشنلزم ختم'اب گلوبلائزیشن کا نیشلزم اور اس نظریے کو باقاعدہ اسٹڈی سرکل میں لانا۔ صوبائی خود مختاری اب تمام پارٹیوں کا نعرہ ہے'قومی خودمختاری اور قومی مسائل کے حل کے لیے نیو سوشل کنٹریکٹ کے لیے پوری قومی تحریک کا متفق ہونا اور اس کے لیے جدوجہد کرنا چائیے۔
دہشتگردی کے خلاف ٹھوس منصوبہ بندی ہونی چائیے'قومی سوال زندہ ہے بلکہ پختون قوم کی مشکلات بڑھ گئی ہیں'افغانستان 'ہندوستان اور پاکستان کے ایک دوسرے میں مداخلت سے پختونوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے'اس سلسلے میں جارحانہ پالیسی اختیار کرنی ہوگی'تاکہ پاکستانی اور ہمسایوں کی پالیسی میں مثبت تبدیلی ممکن بنائی جا سکے لیکن اس کے لیے قوم پرست پارٹیوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے'سوال یہ ہے کہ لوگ PTM اور PTIکی طرف کیوں جاتے ہیں اور یہ کیوں بنتی ہیں؟۔ کیا قوم پرست قیادت نے کبھی کو شش کی ہے'کہ یوم آزادی پر تحریک آزادی کے مجاہدین کو یاد کریں؟ پختونوں کے اندر گلوبلائزیشن کے زیر اثر کلچرل تبدیلیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈارون کے مطابق۔''فطرت میں اپنی بقاء کے لیے کسی نسل کا بہت طاقتور یا ہوشیار ہونا ضروری نہیں ہے'کیونکہ یہ دونوں خصوصیات رکھنے والی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف وہ نسلیں باقی رہ جاتی ہیں جو ماحول کے ساتھ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں''۔یہی قانون معاشروں اور سیاسی تحریکوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اب پرانی سیاست نہیں چلے گی'نیشنلزم اور سیاست کے پرانے اسلوب بدلنے ہوں گے 'ورنہ مٹ جائیں گے۔
روایتی قوم پرست تحریک کے رہنماؤں تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ پختونستان کیا ہے؟لیکن پاکستان کے اندر ایک صحیح جمہوری وفاقی نظام کے لیے کو شش کرنی ہے یا پختونستان اور گریٹر افغانستان کے کوہ قاف کی پری کے پیچھے دوڑنا ہے؟
اسی مخمصے نے قومی تحریک کو نہ ادھر کا رکھا نہ ادھر کا' یہ مسئلہ آج بھی قومی تحریک کے کارکنوں کے اندر ذہنی پریشانی کی وجہ بنا ہوا ہے؟ دوسری طرف زمینی حقائق کیا ہیں؟ میرے گاؤں کا ایک لوہار ہے 'اس سے میں نے کہا کہ ہم پختونوں کو پاکستان سے الگ کرکے افغانستان کے ساتھ شامل کریں گے'اس لیے تم ہمیں ووٹ دو'اس نے کہا کہ میرا ایک مسئلہ ہے کہ میں لاہور جاکر برانڈرتھ روڈ سے دس لاکھ کا مال لے آتا ہوں'مال قرض لاتا ہوں اور نقد بیچتا ہوں'مہینے میں ایک بار وہاں سے آدمی اگرائی کے لیے آتا ہے اور میں اس کو لاکھ دو لاکھ روپے دے دیتا ہوں'اس طرح اس کی رقم بھی اد ا ہوجاتی ہے اور مجھے بھی مناسب منافع مل جاتا ہے۔
کیا کابل میں یہ انتظام ہے؟ وکیل صاحب کیوں ہمارے رزق پر لات مارتے ہو' ہمارے دو ٹرک بھی کراچی تک چلتے ہیں'کابل کے ساتھ مل کر ہمیں بھوکوں نہیں مرنا'یہ حال تمام تجارت پیشہ ' کاروباری اور بر سر روزگار پختونوں کا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پختون قوم کا سب سے بڑا شہر کابل'کوئٹہ اور پشاور کے بجائے کراچی ہے اور کراچی کی ٹرانسپورٹ پر پختونوں کی اجارہ داری ہے بلکہ اب چوکیداری اور بوٹ پالش کی کہانی پرانی ہوگئی۔
پشاور سے کراچی تک چلنے والی اکثر ٹرانسپورٹ بھی پختونوں کی ہے 'پاکستان سے لے کر مشرق وسطی' یورپ'امریکہ اور جنوبی ایشیاء میں ملائیشیاء اورجاپان تک پھیلے ہوئے پختون محنت مزدوری اور کاروبار کرتے ہیں'یہ پختون پاکستان میں خوش ہیں 'اس کا ثبوت سابقہ تمام انتخابات ہیں'جس میں اکثریت ووٹ پاکستان نواز پارٹیوں کو ملتے رہے ہیں ۔
پاکستان کی بیوروکریسی اور سیکیورٹی اداروں میں کافی تعداد میں پختون ملازم ہیں۔ پختون قوم کے صاحب حیثیت افراد دیہات سے نکل کر شہروں اور خا ص کر اسلام آباد' پنجاب اور سندھ کے شہروں میں بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں'ان کے بچے امریکہ اور یورپ کی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں'ان کو '' لر او بر اور پختونستان'' کے نعروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پختونوں کے ترقی پسند پارٹیوں کے کارکن بھی پاکستان کے اندر پختونوں کے ایک متحدہ صوبے اور قومی حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن پاکستان سے جدا ہونے کے تصور کو پسند نہیں کرتی'تعلیم یافتہ طبقے کو یہ احساس بھی ہے کہ افغانستان ایک پسماندہ قبائلی معاشرہ ہے اور پاکستان ایک ترقی یافتہ ریاست ہے'1990ء کے بعد جو نسل پیدا ہوکر بڑی ہو گئی ہے وہ نہ تو باچا خان'نہ صمد خان شہید اور حیات شہید سے واقف ہے اور نہ ان کے کارناموں سے(محترم ولی خان کو تو پارٹی نے ان کی زندگی میں نظر انداز کردیا تھا) ۔
آج کے نوجوان گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے دور کی نسل ہے'اب شاید سیاست میں ''باچا خانی پکار کا دور گزر گیا ہے'آج کے نوجوانوں کے مسائل اور تقاضے مختلف ہیں۔یہ کون سی سیاست ہے کہ محمود خان اچکزئی دن رات چادر پہن کر پختون ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کرتا ہے اور ان کا بھائی گورنر صاحب شاید سو تے بھی سوٹ میں ہیں۔آج تک کوئی پختون افغانستان کو ہجرت کرکے نہیں گیا لیکن افغانی ہر وقت یہاں آنے کو بے چین رہتے ہیں۔
پنجابی اور بنگالی بھی دونوں ملکوں میں تقسیم ہیں لیکن کوئی بھی ملک توڑ کر اتحاد کی بات نہیں کرتا'یہ الزام ختم کرنا ضروری ہے' بہت سے دوست یورپ اور امریکہ کے پر تعیش ماحول میں بیٹھ کر ملک توڑنے اور انتہا پسند قوم پرستی کی بات سوشل میڈیا پر کرتے ہیں' ان کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن یہاں کا ہر قوم پرست غدار بن جاتا ہے۔
موجودہ نسل بہت تیزی کے ساتھ مسائل کا حل چاہتی ہے'وہ جارحیت اور مزاحمت پسند ہیں' مزاحمت کی سیاست پانچ سال تک عمران خان کرتے رہے' ان کی مقبولیت میں اس مزاحمتی پالیسی کا بھی بڑا ہاتھ ہے' اب وہ حکومت میں ہے' باہر مزاحمتی سیاست کرنے والے دو افراد ہیں'ایک PTM اور دوسری مریم نواز شریف'اگر یہ دونوں باہر نکلیں تو عوام اور نوجون نسل ان کے گرد جمع ہوتی ہے'باقی قوم پرست سیاستدانوں میں مزاحمت پسند سیاستدان کوئی نہیں ہے' سب روایتی سیاستدان ہیںاور حکومت میں حصے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہیں' اگر دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوجائے تو ایک جلوس تک نہیں نکال سکتے۔
روایتی پختون قوم پرست قیادت دیہاتوں کے خوانین اور مالکان اراضی پر مشتمل تھی'اس لیے وہ فطری طور پر کسان تحریک کے مخالف تھے'قوم پرست سیاست کا سارا زور قومی حقوق کے حصول پر تھا'قومی حقوق کے حصول کے بعد ان وسائل کی تقسیم میں مزدور اور کسان کا کتنا حصہ ہوگا' اس سوال پر خاموشی تھی۔ مزدور اور محنت کش طبقے سے اتنا خوف تھا کہ اے این پی نے طلباء' وکلاء'ڈاکٹروں اور اساتذہ کی تنظیمیں تو بنائی ہیں لیکن مزدور اور کسان طبقے کے لیے کوئی تنظیم نہیں بنائی 'یہی حال دیگر قوم پرست پارٹیوں کا ہے۔
قوم پرست سیاستدانوں کو سوچنا چائیے کہ آج کی معروضی صورت حال میں 1930ء کے نعرے اور سیاست نہیں چل سکتے'پختون قوم کے دانشوروں کی ذمے داری ہے کہ نئے دور کے تقاضوں کا تجزیہ کریں اور آج کی قوم پرستی کی شکل اور اس کے لوازمات پر غور کرنے پر اس کے اصول طے کریں۔میری ناقص رائے میں قومی مسائل کا نیا نکتہ نظر ہونا چائیے' پرانا نوآبادیاتی نیشنلزم ختم'اب گلوبلائزیشن کا نیشلزم اور اس نظریے کو باقاعدہ اسٹڈی سرکل میں لانا۔ صوبائی خود مختاری اب تمام پارٹیوں کا نعرہ ہے'قومی خودمختاری اور قومی مسائل کے حل کے لیے نیو سوشل کنٹریکٹ کے لیے پوری قومی تحریک کا متفق ہونا اور اس کے لیے جدوجہد کرنا چائیے۔
دہشتگردی کے خلاف ٹھوس منصوبہ بندی ہونی چائیے'قومی سوال زندہ ہے بلکہ پختون قوم کی مشکلات بڑھ گئی ہیں'افغانستان 'ہندوستان اور پاکستان کے ایک دوسرے میں مداخلت سے پختونوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے'اس سلسلے میں جارحانہ پالیسی اختیار کرنی ہوگی'تاکہ پاکستانی اور ہمسایوں کی پالیسی میں مثبت تبدیلی ممکن بنائی جا سکے لیکن اس کے لیے قوم پرست پارٹیوں پر عوام کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے'سوال یہ ہے کہ لوگ PTM اور PTIکی طرف کیوں جاتے ہیں اور یہ کیوں بنتی ہیں؟۔ کیا قوم پرست قیادت نے کبھی کو شش کی ہے'کہ یوم آزادی پر تحریک آزادی کے مجاہدین کو یاد کریں؟ پختونوں کے اندر گلوبلائزیشن کے زیر اثر کلچرل تبدیلیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ثقافت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
ڈارون کے مطابق۔''فطرت میں اپنی بقاء کے لیے کسی نسل کا بہت طاقتور یا ہوشیار ہونا ضروری نہیں ہے'کیونکہ یہ دونوں خصوصیات رکھنے والی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف وہ نسلیں باقی رہ جاتی ہیں جو ماحول کے ساتھ تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہوں''۔یہی قانون معاشروں اور سیاسی تحریکوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔اب پرانی سیاست نہیں چلے گی'نیشنلزم اور سیاست کے پرانے اسلوب بدلنے ہوں گے 'ورنہ مٹ جائیں گے۔