غیرت کے نام پر قتل ایک دردمندانہ اپیل

وہ چار تھے انھیں شاید خوف تھا کہ کہیں ان بہادروں کا کوئی وار ضایع نہ چلا جائے۔


Shehla Aijaz September 05, 2018

خوبصورت چہرہ، کھلتی رنگت، آنکھوں سے تجسس اور ذہانت چھلکتی محض تیس برس کی عمر اور جذبے اور امنگیں اس قدر کہ ساری دنیا کے غم اپنے دامن میں بھر کر سب میں خوشیاں بانٹ دے۔

یہ ذکر ہے اس پیاری سی معصوم سی لڑکی آئینہ اکبر کا، جس کو انیس جون 2018ء کو غیرت کے نام پر اپنے آبائی گاؤں خان پور منجوالہ جاتے ہوئے راستے میں ویگن سے اتار کر سر پر گولیاں مار کر ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دیا گیا، وہ چار تھے انھیں شاید خوف تھا کہ کہیں ان بہادروں کا کوئی وار ضایع نہ چلا جائے لہٰذا انھوں نے اس کے ذہین دماغ کو نشانہ بنایا کہ زندہ بچنے کا کوئی امکان ہی نہ رہے۔

آسیہ اکبرکون تھی؟ کہاں رہتی تھی؟ کن حالات میں اس نے زندگی گزارتے اپنے اردگرد کے لوگوں کے غموں کو محسوس کیا اور انھیں سمیٹنے کی کوشش کرنے کا سوچا۔ ایک پاکیزہ اور خوبصورت سوچ جو اللہ کے بندوں کی مدد کے لیے ابھری یقینا وہ بہت اہم تھی، آسیہ اکبر ایک معروف سیاسی و سماجی کارکن اور متحدہ بلوچ موومنٹ خواتین ونگ کی سابقہ چیئرپرسن تھی ، شاعری سے شغف رکھتی تھی، سرائیکی ادب پر اسے عبور حاصل تھا، وہ مظلوم خواتین اور بچیوں کے اغوا اور ان کی بازیابی کے لیے بڑے دل سے کام کرتی تھی۔

اس کا عزم بہت بلند تھا، لیکن اس کو بظاہر شکست سے دوچار کرانے والے اس کے عزم کے سامنے طاقتورضرور تھے لیکن اندر سے ان کے دل خوف سے سہمے ہوئے تھے انھوں نے خود اس کی کامیابی کی لگائی بیل کی آبیاری کی ہے اس میں شاید قدرت کی جانب سے اس کا خون ہی درکار تھا اس کا وقت تو مقرر ہوچکا تھا البتہ قتل کی مکروہ کارروائی کی بدولت مجرموں کے ہاتھوں پر آسیہ اکبر کی کہانی لکھ دی گئی یہ کہانی کا ایک باب تھا اور اس کے آگے ایک کتاب منتظر ہے لکھنے کو ۔ آخر کب تک اپنی خواہشات کی ہوس معصوم لڑکیوں اور خواتین کو موت کی نیند سلاتی رہے گی۔ عزت، جائیداد، پیسہ اور رتبے کو غیرت کی آگ میں جھونکتی رہے گی آخر کب تک ہم اپنے سے کم تر کمزور لوگوں کو اپنے طاقت کے نشے میں سلاتے رہیں گے یہ سلسلہ کبھی بند ہوسکے گا بھی یا نہیں۔

آسیہ اکبر کی بہن اقصیٰ بی بی نے چند ماہ قبل اپنے شوہر سے خلع حاصل کی تھی اس کے بعد سے وہ غائب تھی۔ وہ خود دوسروں کی بیٹیوں کے لیے پریشان ہوکر ان کی بازیابی کے لیے نکل پڑتی تھی کیا اپنی بہن کو یوں ہی چھوڑ دیتی اس پر ستم رشتے داروں کے ساتھ جائیداد کے معاملات بھی درپیش تھے غالباً اقصیٰ بی بی کو بھی اپنی جان کا خوف ہے کہ موقع ملتے ہی اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔ لیکن ان تمام حالات کو جان کر ذرا کچھ دیر اپنے آپ کو آسیہ اکبر کی جگہ رکھ کر سوچیے وہ خود کس قدر خوفزدہ تھی کہ اسے اپنے دشمنوں سے بچنے کے لیے جگہ بدلنی پڑی، اس کی آواز اس کا احتجاج ظلم کے خلاف تھا جیسے اس کے اپنے رشتے دار بھی جان کے درپے ہوگئے۔

آسیہ اکبر نے بارہا اپنے مسائل اپنی بہن کی گمشدگی کے لیے لوگوں کو جھنجھوڑا لیکن واہ رے بے حسی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی اور وہ اس وقت دنیا کے سامنے آئی جب اس کا چہرہ اس کے اپنے ہی خون سے رنگا ہوا تھا، مجرموں نے اس کے پیچھے جیسے شکاری کتے چھوڑ رکھے تھے وہ ایک کے بعد ایک جگہ بدلتی رہی کبھی ملتان تو کبھی ڈیرہ غازی خان، شاید ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ ایک پراسرار، پرتجسس کہانی کی مانند ہو لیکن ذرا سوچیے وہ کسی فلم کی مار دھاڑ سے بھرپور ہیروئن نہ تھی بلکہ ایک نازک سی لڑکی ہی تو تھی، اس وقت ویگن میں (جوکہ اس کے اپنے والد کی تھی جو مقامی ٹرانسپورٹر بھی ہیں) اس کے ہمراہ اس کے والدین اور بھائی بھی تھے جب کہ ویگن اس کا والد اکبر چلا رہا تھا، پولیس کے مطابق دو معلوم اور دو نامعلوم افراد نے اس ویگن کو راستے میں روکا اور اسے ویگن سے اتار کر قتل کردیا۔

عید الفطر کے دوسرے دن اس اندوہناک واقعے کی خبر اس قدر عام نہ ہوسکی تھی لیکن ڈھائی مہینے گزر جانے کے بعد بھی آسیہ اکبر کے مجرموں کے بارے میں کچھ علم نہیں، سننے میں آیا ہے کہ اس قتل کو عزت کے نام سے جوڑ کر مجرموں کو بچانے کی سازش کی جا رہی ہے اور دیت کے نام پر لاکھوں روپوں کے عوض ایک عظیم لڑکی کے قتل کی فائل کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ اس سازش کے بخیے کہاں سے کہاں ملتے ہیں اور کیسے ملتے ہیں خدا جانے لیکن آسیہ بی بی کے بعد کیا اقصیٰ بی بی کو بھی اسی بھینٹ چڑھانے کی اسکیم بنی جا رہی ہے۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایک بس ہوسٹس کے قتل کی واردات ہوئی تھی اس کا کیا بنا، کیا اس کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا ہوئی یا نہیں؟ ہم سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ہم سب کے اپنے مسائل اپنے مقاصد اور اپنے اثر و رسوخ ہیں ہم میں سے کتنے اس طرح کے مظلوم لوگوں کی مدد کرسکتے ہیں یا کر رہے ہیں لیکن ہم اب بھی مادیت پسندی کے خول سے نکل نہیں سکے، ہم اپنے لیے اپنے خاندان کے لیے اپنے پیاروں کے لیے کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں کہ اس طرح ہمارے نمبر بڑھ جائیں گے لوگوں کے دلوں میں عزت بڑھ جائے گی تعلقات میں سر جھکے ملیں گے ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دور میں جس طرح کا کردار ادا کر رہے ہیں اس بارے میں کیا لکھا جائے کہ خدا ہم سب کو خوف قیامت دے۔

ہم اپنے پیارے قانون نافذ کرنے والوں سے بھی اسی طرح خوف کھاتے ہیں جس طرح ہم قاتلوں، لٹیروں اور دنگا فساد کرنے والوں سے خوفزدہ رہتے ہیں، ایسے ماحول میں مظلوم لوگ میڈیا پرسنز کو اپنے لیے محفوظ ذریعہ سمجھتے ہیں انھیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جو ان کی مدد کرسکتا ہے کوئی تو ہے جو اوپر تک ان کی شنوائی کروا سکتا ہے، ہم آخر کیسے معاشرے کو پروان چڑھا رہے ہیں جہاں ہماری اپنی بہن بیٹیاں، مائیں بچیاں محفوظ نہیں ہیں، یہ ایک اسلامی ریاست ہے جہاں غیرت کے نام پر قتل کرنے کو روایات کا نام دے دیا جاتا ہے۔

آسیہ اکبر کے قتل میں سازش اس کے اپنے رشتے داروں کی ہے جسے بے نقاب کرنا اور اصل مجرموں تک پہنچنا اور ان کو کیفر کردار تک پہنچانا کوئی مشکل نہیں جہاں ہمارے یہاں چند سال کے بچے اور برسوں پہلے دفنائے مردے کو بھی قاتل ثابت کردیا جاتا ہے وہاں چلتے پھرتے اپنی طاقت کا زور دکھاتے مجرموں کو پکڑنا کیا ایک سوالیہ نشان ہے۔

آسیہ اکبر تو اس دنیا سے چلی گئی لیکن ہم سب کے لیے ایک واضح سوال چھوڑ گئی کہ کیا ہمارے چھوٹے شہروں اور گاؤں میں عورت کی یہی عزت اور مقام ہے کہ اس کی تمام تر تعلیم، تجربہ اور عزت کے باوجود کسی بھی طرح سے کسی کی بھی اپنی ناپاک خواہش کی تکمیل کے لیے باآسانی اس کے اپنے گھر والوں کے ساتھ قتل کردینا جائز ہے؟ ہمارے بڑے شہروں میں بھی صورتحال اس قدر خوشگوار نہیں ہے لیکن اپنے پیارے ملک میں خواتین کے ساتھ ہونے والی یہ زیادتیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ویسے تو لوگ کہہ رہے ہیں:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بہرحال ہماری وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ آسیہ اکبر کو آپ نہ بچا سکے پر اقصیٰ بی بی اور ان جیسی بہت سی بہنوں اور بیٹیوں کو تو بچا لیں، خدا ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے ۔(آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں