گڈ لک زرداری
سیاست کے داؤ پیچ دکھانے کے ساتھ ساتھ زرداری صاحب کو بیک وقت دو محاذوں پر قانونی جنگ لڑنے کا مشکل مرحلہ بھی درپیش ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ جو سابق صدور آصف علی زرداری اور پرویز مشرف سے 2007ء سے لے کر اب تک کے اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ نواز شریف کے بعد اب ان دونوں کو ''ٹف ٹائم'' دینے کے موڈ میں ہے، تبھی چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے انھیں اپنی ملکی اور غیر ملکی جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کہا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر زرداری کے ظاہرکردہ اثاثہ جات ان کے کاغذات نامزدگی میں درج تفصیلات کے مطابق نہ پائے گئے تو عمر بھرکے لیے نا اہل قرار پا سکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے ان کے 2007ء سے لے کر اب تک کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی بیان حلفی کے ساتھ طلب کی ہیں۔ بینچ نے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کو بھی اسی عرصہ (2007- 2018ء) کے لیے ویسی ہی تفصیلات پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس نے آصف علی زرداری، پرویز مشرف اور ملک عبدالقیوم کوگزشتہ 10 برسوں میں ان کے اور ان کی بیگمات کے زیر استعمال رہنے والے بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کے مفصل گوشوارے بھی جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ان کی طرف سے پہلے داخل کرائے گئے بیانات حلفی پر عدم اطمینان ظاہرکرتے ہوئے انھیں نامکمل قرار دیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب عدالت عظمیٰ نے 2007ء سے لے کر اب تک بینظیر بھٹو، بلاول بھٹو زرداری، آصفہ اور بختاورکی زیر ملکیت جائیدادوں کی تفصیلات بھی مانگی ہیں۔ عدالت نے زرداری کو ان جائیدادوں کی تفصیلات بھی بتانے کے لیے کہا ہے جو ممکن ہے کسی ٹرسٹ کے نام سے ان کے زیرملکیت ہوں۔ قانونی ماہرین، جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے،کہتے ہیں کہ اگر زرداری کے اثاثہ جات ان کے کاغذات نامزدگی میں درج تفصیلات کے مطابق نہ پائے گئے تو انھیں آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت زندگی بھرکے لیے نااہل قراردیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، اگر عدالت عظمیٰ نے پوچھ لیا کہ ان جائیدادوں کی خریداری کے لیے پیسے کہاں سے آئے تو انھیں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ایکسپریس ٹریبیون میں شایع ہونے والی حسنات ملک کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے، جو بینچ کی طرف سے اپنے اصیلوں سے 2007ء سے اب تک ان کی ملکیت میں رہنے والی جائیدادوں کی تفصیلات طلب کیے جانے پر بظاہر پریشان لگ رہے تھے، مخاطب ہوکرکہا ''آپ کو صاف ہونے کے لیے لانڈری مہیا کردی گئی ہے۔''
انھوں نے جواباً کہا زرداری کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ ایک سیاستدان ہیں۔ میں حیران ہوں کہ انھیں اورکتنا عرصہ اس قسم کی بے سرو پا درخواستوں کی بنیاد پر مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے دریافت کرنے پرکہ بینچ مزید تفصیلات کیوں طلب کر رہا ہے، چیف جسٹس نے جواب دیا ''آپ (زرداری) عوامی عہدے پر فائز رہے ہیں۔ ہم آئین کے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت آپ کی دیانتداری کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔
نائیک نے جواب دیا کہ زرداری کو 9 سال تک جیل میں رہنے کے بعد بری کیا گیا تھا، حتیٰ کہ اب بھی نیب کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ انھوں نے بینچ سے سوال کیا کہ ''ان کے وہ 9 سال کون لوٹائے گا جو انھوں نے جیل میں گزارے اور جن کے دوران انھیں اپنی اہلیہ اور بچوں تک سے ملنے نہیں دیا جاتا تھا۔''اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے زرداری کے وکیل نے کہا کہ اگر انھوں نے تفصیلات فراہم کیں تو ہوسکتا ہے ان کے اثاثوں کے بارے میں انکوائری شروع کردی جائے۔انھوں نے کہا کہ زرداری پر 1997ء سے مسلسل مقدمہ چل رہا ہے۔ ان پر اٹک جیل میں بھی مقدمہ چل چکا ہے۔ انھوں نے پھر سوال کیا کہ ان کے جیل میں گزارے ہوئے 9 سال کا ازالہ کون کرے گا؟
Good Luck Zardari! /2
جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وہ عدالت کو مطمئن کردیتے ہیں تو شاید مالی طور پر معاوضہ تو نہ دیا جا سکے، مگر عدالت عظمیٰ انھیں سرٹیفکیٹ ضرور دے گی۔ " یہ ایک حساب سے بھرپور تلافی ہو گی۔" جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئے کہ" اگر آپ کلیئر ہو جاتے ہیں تو آپکو واضح تلافی ملے گی۔" نائیک نے اس پر ہلکے پھلکے انداز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا "ایک بار ڈسا ہوا، دو بار ڈرتا ہے۔" انھوں نے اپنی پہلے کہی ہوئی بات دہرائی کہ زرداری اثاثہ جات کیس میں بری ہوچکے ہیں اور ہائی کورٹ کو معاملہ نمٹانے دیا جائے۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئے کہ زرداری ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بری ہوئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ "آپ (زرداری) کا بیان حلفی نامکمل ہے اور شکوک وشبہات پیدا کر تا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں تمام جائیدادوں، حتیٰ کہ وہ جو کسی ٹرسٹ کی ملکیت میں ہوں، کی تفصیلات پیش کرنی چاہئیں، اس قسم کے ٹرسٹوں کی بھی چھان بین کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک (جہانگیر ترین نااہلی)کیس میں دیکھا گیا کہ مدعا علیہ کے دعویٰ کے برعکس کہ وہ ٹرسٹی نہیں ہے، وہی ٹرسٹ سے فائدہ اٹھانے والا اس کا اصل مالک تھا۔ بینچ نے نائیک سے کہا کہ وہ اپنے اصیل کے سوئس بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کریں۔
میجر (ریٹائرڈ) اختر شاہ ایڈووکیٹ نے، جو جنرل (ریٹارڈ) پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہوئے تھے، سابق آرمی چیف کی جائیدادوںاور بیرون ملک بینک اکاؤنٹس کی غیر دستخط اور غیر تصدیق شدہ اسٹیٹمنٹ پیش کی جس کے مطابق وہ دبئی میں 4ء 5 ملین یو اے ای درہم مالیت کے ایک اپارٹمنٹ، 2 لاکھ 30 ہزار یواے ای درہم مالیت کی 2015ء ماڈل کی ایک مرسیڈیز کار، 2017ء ماڈل کی ڈیڑھ لاکھ یو اے ای درہم مالیت کی ایک تاہو جیپ اور ایک لاکھ 30 ہزار یو اے ای درہم مالیت کی 2018ء ماڈل کی ایک امپالاکار کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دو بینک اکاؤنٹس ہیں جن میں سے یونین نیشنل بینک دبئی میں 92 ہزار 100 یواے ای درہم اور لندن میں 2 بروک اسٹریٹ پر واقع یونائیٹیڈ بینک میں 21 ہزار 550 پاؤنڈ رقم موجود ہے۔
وہ دانا گیس میں 2 لاکھ 68 ہزار653 یو اے ای درہم کے حصص کے بھی مالک ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ مشرف اپنی ساری تنخواہوں سے بھی ایسا اپارٹمنٹ خرید نہیں کر سکتے تھے جس کے وہ دبئی میں مالک ہیں۔ چیف جسٹس نے سابق چیف آف آرمی اسٹاف کے وکیل سے کہا کہ وہ بتائیں ان کے اصیل نے اتنا مہنگا فلیٹ کیسے خریدا۔ انھوں نے یہ بھی دریادت کیا کہ کیا مشرف نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں یہ اثاثے درج کیے تھے۔ اختر شاہ نے کہا وہ کوئی بھی بات کنفرم کرنے سے پہلے اپنے اصیل سے معلوم کریں گے۔
عدالت عظمیٰ نے مشرف سے کہا کہ وہ ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہوکر اپنے اثاثوں کی وضاحت کریں۔ اختر شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان سے جانے کے بعد مشرف نے دنیا بھر میں لیکچرز دئے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا " ریٹائرمنٹ کے بعد میں بھی یہی کروں گا۔" انھوں نے کہا "ہمیں ان (مشرف) کے پاکستان میں منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی چاہئیں۔" عدالت نے ملک قیوم کے معاملے کا بھی حوالہ دیا جنہوں نے بطور جج لاہور ہائی کورٹ بینظیر بھٹو کو شریفوں کے کہنے پر سزا سنائی تھی۔ بعد میں کیس کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی جو فیروز شاہ گیلانی نے قومی مفاہمتی آرڈر (این آر او) کے خلاف دائر کر رکھا ہے۔
اسی روز شایع ہونے والی عادل جواد کی ایک دوسری رپورٹ میں زرداری اور ان کی بہن ایم پی اے فریال تالپور کی 35 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیشی کو اعصابی جنگ قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ 25 منٹ کی تفتیش کے دوران زرداری کا رویہ شروع سے آخر تک احتجاجی تھا اور وہ سارا وقت سگریٹ پر سگریٹ سلگاتے رہے جب کہ انتہائی پرسکون نظر آنے والی فریال تالپور اپنے بھائی کو بھی خود پر قابو رکھنے کے لیے کہتی اور دلاسا دیتی پائی گئیں۔ دونوں بھائی بہن اپنے وکلاء اور پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ایف آئی اے کے دفتر پہنچے مگر ان سب کو الگ کمرے میں بٹھا کر ان دونوں سے تنہائی میں پوچھ گچھ کی گئی۔ یوں سیاست کے داؤ پیچ دکھانے کے ساتھ ساتھ زرداری صاحب کو بیک وقت دو محاذوں پر قانونی جنگ لڑنے کا مشکل مرحلہ بھی درپیش ہے، اور ہم اظہار خیر سگالی کے طور پر انھیں گڈ لک ہی کہہ سکتے ہیں۔