ایوب خان کے خلاف تحریک میں بازو پر گولیاں لگیں

نومنتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کی زندگی پر ایک نظر۔


Rizwan Tahir Mubeen September 05, 2018
نومنتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی کی زندگی پر ایک نظر۔ فوٹو: فائل

اُن کے ہاں اب تیسری پیڑھی دندان ساز ہے۔۔۔ البتہ ڈاکٹر عارف علوی اپنے والد ڈاکٹر الٰہی علوی سے میدان سیاست کی مماثلت بھی رکھتے ہیں۔۔۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عارف علوی کے صاحب زادے ڈاکٹر اواب علوی کارزار سیاست میں آتے ہیں یا نہیں۔۔۔ بٹوارے کے بعد عارف علوی کے والد باقاعدہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہے، لیکن اُدھر وہ مسلم لیگ یوپی کے صدر تھے، جہاں بنگال اور پنجاب کی طرح سب سے زیادہ مخصوص چھے مخصوص مسلم نشستوں نے پاکستان کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا۔۔۔

ڈاکٹر عارف علوی چھے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں، انہوں نے پچھلی بدھ (29 اگست) کو ہی اپنی 59 ویں سال گرہ منائی، 1964ء میں کراچی کے ایک سرکاری اسکول سے میٹرک کے بعد آدم جی کالج سے انٹر کیا اور شہر بھر میں آٹھویں پوزیشن پر آئے، اس کے بعد لاہور ڈینٹل کالج سے گریجویشن کیا اور اپنے والد کے ساتھ پریکٹس کرنے لگے۔ 1975ء میں یونیورسٹی آف مشی گن سے Prosthodontics میں ماسٹرز کیا۔ 2012ء میں 'روزنامہ ایکسپریس' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بیرون ملک وہ یہ ڈگری حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی 1969ء سے باقاعدہ انتخابی سیاست میں موجود ہیں، یہ زمانہ طالب علمی کا تھا، جب انہوں نے 'لاہور ڈینٹل کالج' میں آزاد حیثیت میں طلبہ یونین کی صدارت کا چناؤ لڑا اور فتح یاب ہوئے، جنرل ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کا بھی حصہ بنے، اسی زمانے میں احتجاج کے دوران تشدد کا شکار ہوئے اور بازو میں دو گولیاں پیوست ہوئیں، جس کے سبب ان کے ہاتھ کی انگلیاں مفلوج رہیں۔۔۔

عارف علوی بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی کی تصانیف کی طرف بھی متوجہ ہوئے، لیکن وہ 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے کسی بھی تعلق کی تردید کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا حصہ ضرور رہے، لیکن پھر 1980ء کے عشرے میں فاصلے بڑھتے گئے، اس کے بعد نواب زادہ نصر اللہ خان کے ہم رکاب ہونے کے بارے میں بھی بہت غوروخوض کیا۔

وقت گزرتا گیا۔۔۔ 1996ء میں 'پاکستان تحریک انصاف' کا ظہور ہوا، جس پر انہوں نے ابتداً بھپتی کسی کہ 'اب پاکستان میں سیاست دانوں کا اتنا فقدان بھی نہیں کہ کرکٹرز کو اِس میدان میں آنا پڑے'، لیکن پھر سنجیدگی سے سوچا اور نجیب ہارون اور ناظم حاجی کے ساتھ لاہور میں عمران خان سے ملے اور صوبہ سندھ میں تحریک انصاف کا بار اٹھایا۔ 1997ء میں وہ صوبائی صدر ہوگئے، اسی برس ڈیفنس، کراچی سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی ہوئے، مگر اِس چناؤ میں تو عمران خان بھی نہ جیت سکے تھے، تو اُن کے کسی امیدوار کی فتح کے بارے میں کیوں کر سوچا جا سکتا ہے۔۔۔

ڈاکٹر عارف علوی 2001ء میں تحریک انصاف کے نائب صدر اور 2007ء میں سیکریٹری جنرل جیسے اہم عہدے پر فائز ہوئے، اس دوران ہی تحریک انصاف نے تیسری مضبوط سیاسی قوت کے طور پر خود کو منوانا شروع کیا۔

1970ء میں وہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی مولانا ظفر احمد انصاری کے پولنگ ایجنٹ بنے، جنہیں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل تھی، انہوں نے پیپلزپارٹی کے بیرسٹر کمال اظفر کو شکست سے دوچار کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 43 سال بعد ڈاکٹر عارف علوی بھی اسی حلقے (اُس وقت کا حلقہ 250) سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2013ء میں یہ تحریک انصاف کی کراچی میں واحد نشست تھی، جس پر تحریک انصاف جیتی۔

انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کی خوش بخت شجاعت کو ہرایا۔ یوم انتخاب اس حلقے میں انتخابی سامان اور عملے کی عدم موجودگی کے سبب پولنگ تاخیر کا شکار ہوئی۔۔۔ اور بعد میں مخصوص علاقوں میں دوبارہ پولنگ کرائی گئی، متحدہ نے پورے حلقے میں دوبارہ چناؤ کا مطالبہ کیا، جو نہیں مانا گیا تو انہوں نے مخصوص پولنگ کا بائیکاٹ کردیا، یوں عارف علوی اس اہم نشست پر فتح یاب قرار پائے۔

یہی وہ نشست ہے جس پر سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی نے ایم کیو ایم کی نسرین جلیل کو شکست دی، (جب کہ ان کے مقابل ممنون حسین بھی تھے) پھر 2008ء میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت نے پیپلزپارٹی کے مرزا اختیار بیگ پر سبقت حاصل کی، ماضی میں یہ حلقہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ، ایم کیوایم کے مرکزی راہ نما ایم اے جلیل اور نواز لیگ کے کیپٹن حلیم صدیقی کا حلقۂ انتخاب رہا ہے، اب یہاں کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی کے ایوان صدر کے مکین بننے سے اس حلقے کی اہمیت میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔

نئی حلقہ بندیوں کے بعد قومی اسمبلی کا یہ حلقہ 250 کے بہ جائے 247 کہلایا، انہوں نے دوبارہ یہ نشست جیتی اور 90 ہزار 907 ووٹ لیے، جو کراچی میں عمران خان کے 91 ہزار 373 ووٹوں کے بعد سب سے زیادہ بنتے ہیں۔۔۔ اور اتفاق سے دونوں کی برتری بھی 65 ہزار ووٹوں کے لگ بھگ رہی اور دونوں ہی اراکین کو وزیراعظم اور صدر بننے کے باعث اپنی اپنی نشستیں چھوڑنا پڑیں۔ اب عارف علوی تیرہویں صدر پاکستان بن گئے ہیں، تو یہ امر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کہ اِسی حلقے سے 2002ء میں ممنون حسین بھی نواز لیگ کے امیدوار رہے، وہ کام یاب تو نہ ہوئے، لیکن 11 سال بعد وہ صدر بن گئے، اُس وقت ممنون حسین سابق گورنر سندھ تھے، اب اسی جگہ کے صوبائی حلقے (پی ایس 111) سے فتح یاب عمران اسماعیل گورنر سندھ بن گئے ہیں۔ گویا یہاں گورنری کے بعد آنے والا ہارا اور جیتنے والا بعد میں گورنر بنا۔

ڈاکٹر عارف علوی بھی رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد صدر مملکت بنے۔ ان سے پہلے اس عہدے سے پہلے قومی اسمبلی کے رکن بننے والوں میں فاروق لغاری اور آصف زرداری شامل ہیں، اگر ممنون حسین 2002ء کا انتخاب جیت جاتے تو وہ بھی اس فہرست میں ہوتے۔ جب کہ فاروق لغاری اور آصف زرداری عہدۂ صدارت کے بعد بھی منتخب ایوان کے رکن بنے۔ صدر اور آرمی چیف رہنے کے بعد قومی اسمبلی کی خواہش جنرل پرویز مشرف نے بھی کی، مگر 2013ء میں ان کے کاغذات نام زَدگی منظور نہ ہو سکے۔

ڈاکٹر عارف الرحمن علوی کی ذاتی زندگی کی بات کی جائے تو 1972ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، ان کی ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ مطالعے کے بے حد شوقین ہیں ڈاکٹر عارف علوی نے 1992ء میں کراچی کی 'سندھی مسلم سوسائٹی' میں پریکٹس شروع کی، جہاں آج اُن کا 'علوی ڈینٹل ہاسپٹل' قائم ہے۔ وہ 'کراچی ڈینٹل کالج' کے اعزازی پروفیسر اور 'پاکستان ڈینٹل ایسوسی ایشن ' کے متحرک رکن ہیں، اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ برصغیر سے 'ورلڈ ڈینٹل فیڈریشن' کے پہلے منتخب کونسلر ہیں اور انہی کی معاونت سے ہندوستان کو بھی اس تنظیم میں نمائندگی ملی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں