پاکستان کیلیے اولمپک میڈل جیتنا خواب ہے ارشد ندیم
بیرون ملک باقاعدہ ٹریننگ سے حصول ممکن بناسکتا ہوں، ایشین گیمز برانز میڈلسٹ
جیولین تھرور ارشد ندیم نے حالیہ ایشین گیمز میں برانز میڈل جیتا لیکن اب ان کا خواب اولمپک میں بھی ملک کیلیے تمغے کا حصول ہے۔
ارشد ندیم نے پاکستان کیلیے ایتھلیٹکس میں 24 برس بعد پہلا میڈل حاصل کیا ہے، وہ اس سے قبل گولڈ کوسٹ کامن ویلتھ گیمز میں وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بنانے میں ناکام رہے تھے لیکن جکارتہ ایشین گیمز میں انھوں نے یہ منزل حاصل کرلی تھی، ندیم نے جیولین تھرو ایونٹ میں 80.75 میٹر دوری پر گولہ پھینک کر کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا، چین کے کزہین لیو نے سلور جبکہ بھارت کے نیرج چوپڑا نے طلائی تمغہ قبضے میں کیا تھا.
ارشد ندیم سے قبل پاکستان نے ایتھلیٹکس ایشین گیمز میں آخری بار میڈل 1994 میں جیتا تھا، جب اقارب عباس نے ہیمر تھرو میں برانز میڈل اپنے نام کیا تھا، اس کے بعد سے پاکستان نے ایتھلیٹکس میں کوئی میڈل نہیں لیا تھا۔
''ایکسپریس ٹریبیون'' سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد ندیم نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں ایتھلیٹکس میں ملک کے لیے اتنے برسوں بعد کوئی اعزاز پانے میں کامیاب ہوا، مجھے اس جیت کی اہمیت کا اندازہ ہے، انھوں نے انڈر17 کرکٹ میں بھی حصہ لیا لیکن پھر اپنے مضبوط بازئووں کو دیکھتے ہوئے پیسر بننے کی بجائے ایتھلیٹکس میں قسمت آزمانے کا درست فیصلہ کیا، انھوں نے اس کامیابی پر اپنے کوچ فیض بخاری کا بطور خاص ذکر کیا، جنھوں نے انھیں پہلی بار دیکھ کر ایتھلیٹکس میں آنے کا مشورہ دیا تھا.
ارشد ندیم نے مزید بتایا کہ میں اسکول اور کالج میں کئی برسوں تک ایتھلیٹکس میں شرکت کرتا رہا تھا اور میری بھی دلچسپی اس میں تھی۔ انھوں نے پہلی بار میرے ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے مجھے اس فیلڈ میں آنے پر قائل کیا، رواں برس کامن ویلتھ گیمز میں پیش آنے والی انجری کے پیش نظر ندیم کو ایشین گیمز کی تیاریوں کیلیے صرف ایک ماہ10 یوم کا وقت مل پایا تھا۔
کامن ویلتھ گیمز کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ میں ان مقابلوں میں آٹھویں پوزیشن پانے میں کامیاب ہوسکا تھا، میں سیمی فائنلز میں جگہ نہیں بناپایا تھا۔ جس سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا، میں وہاں بھی فائنلز میں جگہ بنانے کا آرزومند تھا، واپڈا میں ملازمت یقینی ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا، 2016 میں انھیں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشنز کی جانب سے اسکالرشپ ملی، جس کی بدولت انھیں ماریشس میں آٹھ ماہ ٹریننگ پانے کا موقع مل پایا۔
ارشد ندیم نے مزید بتایا کہ میرا خواب ملک کیلیے اولمپکس گیمز میں بھی میڈل حاصل کرنا ہے لیکن اس کیلیے مجھے بیرون ملک باقاعدہ ٹریننگ درکار ہوگی، میں اپنے وطن کیلیے کچھ کرنا چاہتا ہوں، ایشین گیمز میں کامیابی کے بعد میرے اہداف واضح ہیں، اس حوالے سے وہ خاصے پُراعتماد بھی دکھائی دیے۔
ارشد ندیم نے پاکستان کیلیے ایتھلیٹکس میں 24 برس بعد پہلا میڈل حاصل کیا ہے، وہ اس سے قبل گولڈ کوسٹ کامن ویلتھ گیمز میں وکٹری اسٹینڈ پر جگہ بنانے میں ناکام رہے تھے لیکن جکارتہ ایشین گیمز میں انھوں نے یہ منزل حاصل کرلی تھی، ندیم نے جیولین تھرو ایونٹ میں 80.75 میٹر دوری پر گولہ پھینک کر کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا تھا، چین کے کزہین لیو نے سلور جبکہ بھارت کے نیرج چوپڑا نے طلائی تمغہ قبضے میں کیا تھا.
ارشد ندیم سے قبل پاکستان نے ایتھلیٹکس ایشین گیمز میں آخری بار میڈل 1994 میں جیتا تھا، جب اقارب عباس نے ہیمر تھرو میں برانز میڈل اپنے نام کیا تھا، اس کے بعد سے پاکستان نے ایتھلیٹکس میں کوئی میڈل نہیں لیا تھا۔
''ایکسپریس ٹریبیون'' سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد ندیم نے کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں ایتھلیٹکس میں ملک کے لیے اتنے برسوں بعد کوئی اعزاز پانے میں کامیاب ہوا، مجھے اس جیت کی اہمیت کا اندازہ ہے، انھوں نے انڈر17 کرکٹ میں بھی حصہ لیا لیکن پھر اپنے مضبوط بازئووں کو دیکھتے ہوئے پیسر بننے کی بجائے ایتھلیٹکس میں قسمت آزمانے کا درست فیصلہ کیا، انھوں نے اس کامیابی پر اپنے کوچ فیض بخاری کا بطور خاص ذکر کیا، جنھوں نے انھیں پہلی بار دیکھ کر ایتھلیٹکس میں آنے کا مشورہ دیا تھا.
ارشد ندیم نے مزید بتایا کہ میں اسکول اور کالج میں کئی برسوں تک ایتھلیٹکس میں شرکت کرتا رہا تھا اور میری بھی دلچسپی اس میں تھی۔ انھوں نے پہلی بار میرے ٹیلنٹ کو دیکھتے ہوئے مجھے اس فیلڈ میں آنے پر قائل کیا، رواں برس کامن ویلتھ گیمز میں پیش آنے والی انجری کے پیش نظر ندیم کو ایشین گیمز کی تیاریوں کیلیے صرف ایک ماہ10 یوم کا وقت مل پایا تھا۔
کامن ویلتھ گیمز کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ میں ان مقابلوں میں آٹھویں پوزیشن پانے میں کامیاب ہوسکا تھا، میں سیمی فائنلز میں جگہ نہیں بناپایا تھا۔ جس سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا، میں وہاں بھی فائنلز میں جگہ بنانے کا آرزومند تھا، واپڈا میں ملازمت یقینی ہوجانے کے بعد انھوں نے اپنے والد کا ہاتھ بٹانا شروع کیا، 2016 میں انھیں انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف ایتھلیٹکس فیڈریشنز کی جانب سے اسکالرشپ ملی، جس کی بدولت انھیں ماریشس میں آٹھ ماہ ٹریننگ پانے کا موقع مل پایا۔
ارشد ندیم نے مزید بتایا کہ میرا خواب ملک کیلیے اولمپکس گیمز میں بھی میڈل حاصل کرنا ہے لیکن اس کیلیے مجھے بیرون ملک باقاعدہ ٹریننگ درکار ہوگی، میں اپنے وطن کیلیے کچھ کرنا چاہتا ہوں، ایشین گیمز میں کامیابی کے بعد میرے اہداف واضح ہیں، اس حوالے سے وہ خاصے پُراعتماد بھی دکھائی دیے۔