اسکندر مرزا سے عارف علوی تک
اسکندر مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے، ان کے پر دادانے سراج الدولہ سے غداری کرکے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا
1956 میں جب پاکستان میں صدر کا عہدہ تخلیق ہوا تو پاکستان کے آخری گورنر اسکندر مرزا 23مارچ 1956 کو پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اسکندر مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے، ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ اسکندر مرزا افسر شاہی اور فوج کی پروردہ شخصیت تھے، اس لیے ملک کو جمہوریت سے آمریت کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ صدر کے عہدہ پر ہمیشہ فائز رہیں، اس لیے انہوں نے سیاست دانوں کا ایسا گروہ تیار کیا جس نے سازشوں کے تانے بانے تیار کیے۔ اسکندر مرزا کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں، لیکن ان کے اقتدار کو بھی آگ لگی گھر کے چراغ سے۔ اپنے ہی یار فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں ملک سے جلا وطن کر دیے گئے۔
واضح رہے اسی اسکندر مرزا نے ایوب خان کو اس سے قبل چیف مارشل لاء کے عہدہ تک پہنچایا تھا۔ خیر بغاوت کے ذریعے جنرل ایوب خان ملک پر قابض ہوگئے اور 27 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے پہلے آمر اور دوسرے صدر بن گئے۔ لیکن 1965ء کی بھارت مخالف جنگ میں قیادت کرنے والے آمر 1969ء کو اپوزیشن اور عوام کے دباؤ پر اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے۔ اگر پس منظر میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا پر مرزا صاحب سے ایوب خان کے اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنھبال لی اور اسکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمدید کہا، کیونکہ پاکستانی عوام اس دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔ ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو صدارتی طرز کا تھا، اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے، جب مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جزوی طور پر تھا۔ ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِمقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ یہی وجہ ان انتخابات کو مشکوک بناتی ہے۔
1965ء کی جنگ کے بعد طلبہ نے معاہدہ تاشقند کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو کافی شدت اختیار کرگئی۔ رفتہ رفتہ ایوب خان کے خلاف ایک قوت کی شکل اختیار کر گئی لیکن بعد ازاں بزور قوت دبا دیا گیا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان چھن جانے کے بعد بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، اور عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 1966ء میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان میں سیاسی اور عوامی دونوں سطحوں پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کا مترادف قرار دیا گیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خوں ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی۔ مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ 23 مارچ 1969ء کو یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحیٰی خان نے باقاعدہ مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔ 25مارچ 1969ء سے 20دسمبر 1971ء تک ملک کے تیسرے صدر اور دوسرے آمر بننے والے محمد یہی خان نے 1971ء کی جنگ میں حریف ملک بھارت سے شکست کھائی اور مستعفی ہوگئے۔
1973ء میں آئین کے تحت جب پاکستان پارلیمانی جمہوریہ نظام کی طرف گامزن ہوا تو 20 دسمبر 1971ء کو پاکستان کے چوتھے صدر کی حثیت سے عہدہ سنبھالنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم بننے کےلیے 13اگست 1973ء کو بطور صدر مستعفی ہوئے تو 14 اگست 1973 فضل الہی چودھری پاکستان کے پانچویں صدر بنادیے گئے۔ فضل الہی چودھری 1933ء میں گجرات ڈسٹرک بورڈ کے ارکان رہے 1944ء میں گجرات ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے صدر بنے، 1946ء میں پنجاب اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ ون یونٹ دور میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن بنے۔ 1965ء میں سینئر ڈپٹی اسپیکر بنے، 1969ء میں پیپلز پارٹی میں شریک ہوئے۔ دسمبر 1970 میں کھاریاں کے ایم این اے منتخب ہوئے، 1971ء میں قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 1973ء میں پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور پارلیمانی سیاست میں وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ وہ ستمبر 1978ء تک ملک کے صدر رہے اور جنرل ضیاء الحق کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے بعد مستعفی ہوگئے
لیکن بدقسمتی سے ایک بار پھر جنرل ضیاء الحق نے بغاوت کردی اور یوں 16 ستمبر 1978ء کو صدر پاکستان کی کرسی فضل الہی چودھری سے جنرل ضیاء الحق کے اختیار میں آگئی۔ جنرل ضیاء الحق ملک کے وہ تیسرے آمر تھے جو مارشل لاء کے ذریعے چھٹے صدر پاکستان بننے میں کامیاب ہوگئے۔ ضیاء الحق نے ناصرف جہاد کے نام پر طالبان بنائے، بلکہ بھارت سے بنگلہ دیش کا بدلہ لینے کیلئے انڈیا میں سکھوں کی تحریک خالصتان شروع کروائی جو بھارت کے پنجاب اور کئی دیگر علاقوں پر مشتمل سکھوں کا ایک الگ ملک بنانے کےلیے تھی۔ اس کی قیادت اس سکھ جنرل کے ہاتھ میں دی گئی جو بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت بھارتی مسلح افواج کا کمانڈر تھا۔ مسلسل نو سال سے زائد عرصہ تک بطور آمر پاکستانی اقتدار پر قابض رہنے والے جنرل ضیاء الحق آخرکار 1988ء میں ایک طیارہ حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔
تاہم اس دوران غلام اسحاق خان کو ساتواں صدر بنایا گیا، لیکن انہوں نے نواز شریف کی منتخب حکومت کیخلاف 1993 میں سازش کی۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے روک دیا۔ فوجی دباؤ پر نواز شریف سے ایک معاہدے کے تحت 18 جولائی 1993 کو مستعفی ہوگئے۔ صدر غلام اسحاق خان کو آٹھویں آئینی ترمیم کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے جج اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار بھی حاصل تھا۔ لیکن ان کی نہ تو بے نظیر بھٹو سے اور نہ ہی بعد میں نواز شریف حکومت سے نبھ سکی۔ اور اگست 1990 میں بے نظیر حکومت اور اپریل 1993 میں نوازشریف حکومت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئی۔
18 جولائی 1993 سے 14 نومبر 1993 تک وسیم سجاد پاکستان کے نگران صدر رہے۔ جس کے بعد 14نومبر 1993 کو فاروق لغاری نے ملک کے آٹھویں صدر کی حثیت سے حلف سنبھالا، مگر ان کے نواز شریف سے شدید اختلافات کے باعث فوج کے دباؤ پر 2دسمبر 1997ء کو حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ سردار فاروق احمد خان لغاری نے صدر پاکستان کو منصب چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد اپنی نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ لاہور میں قائم کی جانے والی اس نئی جماعت کا نام ملت پارٹی رکھا گیا اور اس میں پیپلز پارٹی کے ناراض رہنماؤں اور کارکنوں نے شمولیت اختیار کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی جماعت ملت پارٹی کو اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ق میں ضم کر دیا۔ سردار فاروق لغاری نے 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب بھی ہوئے۔
ایک بار پھر وسیم سجاد دوسری مرتبہ 2دسمبر 1997 سے لے کر 1جنوری 1988 تک پاکستان کے نگران صدر مقرر رہے۔ 1جنوری 1998 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے رفیق تارڑ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نویں صدر کی حثیت سے حلف لیا، مگر بدقسمتی سے ایک بار پھر فوجی بغاوت ہوئی اور نواز شریف کے منتخب کردہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999ء کی بغاوت میں نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا؛ جس کے بعد رفیق تارڑ نے 20جون 2001 کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ محمد رفیق تارڑ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور پھر اسی سال ملک کے صدر بنے۔ ان کے دور میں صدر کے اختیارات کو بتدریج کم کیا گیا اور بالآخر تیرھویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات میں آئین کی روح کے مطابق مکمل طور پر کمی کردی گئی۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد انہیں عہدے سے نہیں ہٹایا گیا اور وہ سن دوہزار ایک تک صدر رہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک کے تیسرے آمر جبکہ دسویں صدر بن گئے۔ وہ مسلسل آٹھ سال اسلامی جمہوریہ پاکستان پر قابض رہے لیکن 2008 میں انہوں نے خود کو ہٹانے والی مہم کے پیش نظر اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ستمبر 2001ء میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد 13 ستمبر 2001ء کو پاکستان میں امریکی سفیر ونڈی چیمبر لین کے ذریعے پرویز مشرف کے سامنے واشنگٹن نے سات مطالبات رکھے جنہیں پرویز مشرف نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور یوں امریکی جنگ میں پاکستان باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا۔ راتوں رات تین دہائیوں پر مشتمل افغان پالیسی تبدیل کردی گئی۔ اس جنگ کے دوران پرویز مشرف نے امریکی ہدایات پر 689 افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 369 افراد بشمول خواتین کو امریکا کے حوالے کیا گیا۔ جنرل مشرف اپنی یاداشت پر مبنی کتاب In The Line Of Fire میں اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے ان افراد کے عوض امریکا سے کئی ملین ڈالرز کے انعام وصول کیے۔ یہ جملہ انہوں نے بعد ازاں اردو ترجمہ سے حذف کر دیا۔ اس دوران میاں محمد سومرو بھی نگران صدر بنائے گئے تھے۔
لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی الیکشن میں جیت کر اقتدار میں آئی تو بینظیر کے خاوند آصف علی زرداری نے گیارہویں صدر کی حثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کے دور میں 18 ویں ترمیم منظور ہوئی جس کے تحت صدر کے اختیارات کم کردیے گئے اور وزیر اعظم کو طاقتور بنایا گیا۔ آصف علی زرداری ایک سندھی بلوچ سیاست دان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں شامل حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں۔ حاکم علی زرداری بعد میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
5 سال حکومت کرنی والی جماعت پیپلزپارٹی 2013ء کے عام انتخابات میں ن لیگ سے شکست کا شکار ہوگئی اور مسلم لیگ ن نے اقتدار میں آکر 9 ستمبر 2013 کو ممنون حسین کو پاکستانی تاریخ کا بارھواں صدر پاکستان منتخب کروایا۔ ممنون حسین نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صدارتی منصب کے انتخاب میں حصہ لیا۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر ہیں۔ ممنون حسین کی مادری زبان اردو ہے، ممنون حسین کراچی میں قائم ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے مالک بھی ہیں۔
2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب رہی اور آج بالآخر تحریک انصاف کے بانی رہنما گنے جانے والے ڈاکٹر عارف علوی کو تحریک انصاف کی طرف پاکستان کا تیرھواں صدر منتخب کردیا گیا۔ عارف نے سیاسی زندگی ایک پولنگ کارندے کے طور پر شروع کی تھی، ایک مذہبی جماعت میں شامل ہوئے جس کے بعد سنہ 1996ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ اور ان کا شمار پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ سنہ 1996ء میں ہی وہ پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ایک سال کےلیے رکن بنے اور سنہ 1997ء میں وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر بن گئے۔ علوی نے پہلی بار قومی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر عام انتخابات 2013ء میں حلقہ این اے-250 (کراچی-12) سے جیتی۔ انہوں نے 77,659 ووٹ حاصل کیے اور خوش بخت شجاعت کو شکست دی۔ جبکہ اب دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست کےلیے عام انتخابات 2018ء میں این اے-247 (کراچی جنوبی-2) سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر دوبارہ کھڑے ہوئے اور دوبارہ منتخب ہوگئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
واضح رہے اسی اسکندر مرزا نے ایوب خان کو اس سے قبل چیف مارشل لاء کے عہدہ تک پہنچایا تھا۔ خیر بغاوت کے ذریعے جنرل ایوب خان ملک پر قابض ہوگئے اور 27 اکتوبر 1958 کو پاکستان کے پہلے آمر اور دوسرے صدر بن گئے۔ لیکن 1965ء کی بھارت مخالف جنگ میں قیادت کرنے والے آمر 1969ء کو اپوزیشن اور عوام کے دباؤ پر اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے۔ اگر پس منظر میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا پر مرزا صاحب سے ایوب خان کے اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنھبال لی اور اسکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمدید کہا، کیونکہ پاکستانی عوام اس دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔ ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو صدارتی طرز کا تھا، اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے، جب مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جزوی طور پر تھا۔ ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِمقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ یہی وجہ ان انتخابات کو مشکوک بناتی ہے۔
1965ء کی جنگ کے بعد طلبہ نے معاہدہ تاشقند کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو کافی شدت اختیار کرگئی۔ رفتہ رفتہ ایوب خان کے خلاف ایک قوت کی شکل اختیار کر گئی لیکن بعد ازاں بزور قوت دبا دیا گیا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان چھن جانے کے بعد بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، اور عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 1966ء میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان میں سیاسی اور عوامی دونوں سطحوں پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کا مترادف قرار دیا گیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔
نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خوں ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی۔ مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ 23 مارچ 1969ء کو یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحیٰی خان نے باقاعدہ مارشل لا نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔ 25مارچ 1969ء سے 20دسمبر 1971ء تک ملک کے تیسرے صدر اور دوسرے آمر بننے والے محمد یہی خان نے 1971ء کی جنگ میں حریف ملک بھارت سے شکست کھائی اور مستعفی ہوگئے۔
1973ء میں آئین کے تحت جب پاکستان پارلیمانی جمہوریہ نظام کی طرف گامزن ہوا تو 20 دسمبر 1971ء کو پاکستان کے چوتھے صدر کی حثیت سے عہدہ سنبھالنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم بننے کےلیے 13اگست 1973ء کو بطور صدر مستعفی ہوئے تو 14 اگست 1973 فضل الہی چودھری پاکستان کے پانچویں صدر بنادیے گئے۔ فضل الہی چودھری 1933ء میں گجرات ڈسٹرک بورڈ کے ارکان رہے 1944ء میں گجرات ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کے صدر بنے، 1946ء میں پنجاب اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ ون یونٹ دور میں مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن بنے۔ 1965ء میں سینئر ڈپٹی اسپیکر بنے، 1969ء میں پیپلز پارٹی میں شریک ہوئے۔ دسمبر 1970 میں کھاریاں کے ایم این اے منتخب ہوئے، 1971ء میں قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 1973ء میں پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے اور پارلیمانی سیاست میں وسیع تجربہ رکھتے تھے۔ وہ ستمبر 1978ء تک ملک کے صدر رہے اور جنرل ضیاء الحق کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے بعد مستعفی ہوگئے
لیکن بدقسمتی سے ایک بار پھر جنرل ضیاء الحق نے بغاوت کردی اور یوں 16 ستمبر 1978ء کو صدر پاکستان کی کرسی فضل الہی چودھری سے جنرل ضیاء الحق کے اختیار میں آگئی۔ جنرل ضیاء الحق ملک کے وہ تیسرے آمر تھے جو مارشل لاء کے ذریعے چھٹے صدر پاکستان بننے میں کامیاب ہوگئے۔ ضیاء الحق نے ناصرف جہاد کے نام پر طالبان بنائے، بلکہ بھارت سے بنگلہ دیش کا بدلہ لینے کیلئے انڈیا میں سکھوں کی تحریک خالصتان شروع کروائی جو بھارت کے پنجاب اور کئی دیگر علاقوں پر مشتمل سکھوں کا ایک الگ ملک بنانے کےلیے تھی۔ اس کی قیادت اس سکھ جنرل کے ہاتھ میں دی گئی جو بنگلہ دیش کی علیحدگی کے وقت بھارتی مسلح افواج کا کمانڈر تھا۔ مسلسل نو سال سے زائد عرصہ تک بطور آمر پاکستانی اقتدار پر قابض رہنے والے جنرل ضیاء الحق آخرکار 1988ء میں ایک طیارہ حادثے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔
تاہم اس دوران غلام اسحاق خان کو ساتواں صدر بنایا گیا، لیکن انہوں نے نواز شریف کی منتخب حکومت کیخلاف 1993 میں سازش کی۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے روک دیا۔ فوجی دباؤ پر نواز شریف سے ایک معاہدے کے تحت 18 جولائی 1993 کو مستعفی ہوگئے۔ صدر غلام اسحاق خان کو آٹھویں آئینی ترمیم کی شق اٹھاون ٹو بی کے تحت منتخب پارلیمان اور حکومت کو برطرف کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے جج اور مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری کا اختیار بھی حاصل تھا۔ لیکن ان کی نہ تو بے نظیر بھٹو سے اور نہ ہی بعد میں نواز شریف حکومت سے نبھ سکی۔ اور اگست 1990 میں بے نظیر حکومت اور اپریل 1993 میں نوازشریف حکومت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہوگئی۔
18 جولائی 1993 سے 14 نومبر 1993 تک وسیم سجاد پاکستان کے نگران صدر رہے۔ جس کے بعد 14نومبر 1993 کو فاروق لغاری نے ملک کے آٹھویں صدر کی حثیت سے حلف سنبھالا، مگر ان کے نواز شریف سے شدید اختلافات کے باعث فوج کے دباؤ پر 2دسمبر 1997ء کو حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ سردار فاروق احمد خان لغاری نے صدر پاکستان کو منصب چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد اپنی نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ لاہور میں قائم کی جانے والی اس نئی جماعت کا نام ملت پارٹی رکھا گیا اور اس میں پیپلز پارٹی کے ناراض رہنماؤں اور کارکنوں نے شمولیت اختیار کی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اپنی جماعت ملت پارٹی کو اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ق میں ضم کر دیا۔ سردار فاروق لغاری نے 2008ء میں ہونے والے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب بھی ہوئے۔
ایک بار پھر وسیم سجاد دوسری مرتبہ 2دسمبر 1997 سے لے کر 1جنوری 1988 تک پاکستان کے نگران صدر مقرر رہے۔ 1جنوری 1998 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے رفیق تارڑ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نویں صدر کی حثیت سے حلف لیا، مگر بدقسمتی سے ایک بار پھر فوجی بغاوت ہوئی اور نواز شریف کے منتخب کردہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999ء کی بغاوت میں نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا؛ جس کے بعد رفیق تارڑ نے 20جون 2001 کو اپنے عہدے سے استعفی دے دیا۔ محمد رفیق تارڑ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور پھر اسی سال ملک کے صدر بنے۔ ان کے دور میں صدر کے اختیارات کو بتدریج کم کیا گیا اور بالآخر تیرھویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات میں آئین کی روح کے مطابق مکمل طور پر کمی کردی گئی۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی طرف سے میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کے بعد انہیں عہدے سے نہیں ہٹایا گیا اور وہ سن دوہزار ایک تک صدر رہے۔
جنرل پرویز مشرف ملک کے تیسرے آمر جبکہ دسویں صدر بن گئے۔ وہ مسلسل آٹھ سال اسلامی جمہوریہ پاکستان پر قابض رہے لیکن 2008 میں انہوں نے خود کو ہٹانے والی مہم کے پیش نظر اس عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ ستمبر 2001ء میں امریکی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں کے بعد 13 ستمبر 2001ء کو پاکستان میں امریکی سفیر ونڈی چیمبر لین کے ذریعے پرویز مشرف کے سامنے واشنگٹن نے سات مطالبات رکھے جنہیں پرویز مشرف نے فوری طور پر تسلیم کر لیا اور یوں امریکی جنگ میں پاکستان باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا۔ راتوں رات تین دہائیوں پر مشتمل افغان پالیسی تبدیل کردی گئی۔ اس جنگ کے دوران پرویز مشرف نے امریکی ہدایات پر 689 افراد کو گرفتار کیا جن میں سے 369 افراد بشمول خواتین کو امریکا کے حوالے کیا گیا۔ جنرل مشرف اپنی یاداشت پر مبنی کتاب In The Line Of Fire میں اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے ان افراد کے عوض امریکا سے کئی ملین ڈالرز کے انعام وصول کیے۔ یہ جملہ انہوں نے بعد ازاں اردو ترجمہ سے حذف کر دیا۔ اس دوران میاں محمد سومرو بھی نگران صدر بنائے گئے تھے۔
لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی الیکشن میں جیت کر اقتدار میں آئی تو بینظیر کے خاوند آصف علی زرداری نے گیارہویں صدر کی حثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کے دور میں 18 ویں ترمیم منظور ہوئی جس کے تحت صدر کے اختیارات کم کردیے گئے اور وزیر اعظم کو طاقتور بنایا گیا۔ آصف علی زرداری ایک سندھی بلوچ سیاست دان اور ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی سیاسی ساتھیوں میں شامل حاکم علی زرداری کے بیٹے ہیں۔ حاکم علی زرداری بعد میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔
5 سال حکومت کرنی والی جماعت پیپلزپارٹی 2013ء کے عام انتخابات میں ن لیگ سے شکست کا شکار ہوگئی اور مسلم لیگ ن نے اقتدار میں آکر 9 ستمبر 2013 کو ممنون حسین کو پاکستانی تاریخ کا بارھواں صدر پاکستان منتخب کروایا۔ ممنون حسین نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صدارتی منصب کے انتخاب میں حصہ لیا۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر ہیں۔ ممنون حسین کی مادری زبان اردو ہے، ممنون حسین کراچی میں قائم ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے مالک بھی ہیں۔
2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب رہی اور آج بالآخر تحریک انصاف کے بانی رہنما گنے جانے والے ڈاکٹر عارف علوی کو تحریک انصاف کی طرف پاکستان کا تیرھواں صدر منتخب کردیا گیا۔ عارف نے سیاسی زندگی ایک پولنگ کارندے کے طور پر شروع کی تھی، ایک مذہبی جماعت میں شامل ہوئے جس کے بعد سنہ 1996ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ اور ان کا شمار پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ سنہ 1996ء میں ہی وہ پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹو کونسل کے ایک سال کےلیے رکن بنے اور سنہ 1997ء میں وہ پی ٹی آئی سندھ کے صدر بن گئے۔ علوی نے پہلی بار قومی اسمبلی کی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر عام انتخابات 2013ء میں حلقہ این اے-250 (کراچی-12) سے جیتی۔ انہوں نے 77,659 ووٹ حاصل کیے اور خوش بخت شجاعت کو شکست دی۔ جبکہ اب دوسری مرتبہ قومی اسمبلی کی نشست کےلیے عام انتخابات 2018ء میں این اے-247 (کراچی جنوبی-2) سے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر دوبارہ کھڑے ہوئے اور دوبارہ منتخب ہوگئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔