نئے پاکستان کی جانب پہلا قدم
اگر پی ٹی آ ئی نے کارکردگی نہ دکھائی تو اس کا حشر ان سے بھی بد تر ہوگا۔
ISLAMABAD:
کاش! ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اتنی اکثریت ملتی کہ وہ کسی دوسری پارٹیوں کی مدد کے بغیر اپنی حکومت بنا لیتی اور اپنے منشور پر من وعن کام کرتی اور پانچ سال کے بعد عوام کو اندازہ ہو جاتا کہ حکمراں جماعت نے کتنا کام کیا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں ہمیشہ یہ ہی زوردیا کہ انھیں بھاری اکثریت ملے گی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، PTI نے تقریباً ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ لیے۔
پی ٹی آئی کو زیادہ تر ووٹ شہری علاقوں سے ملے جہاں سیاسی شعور بھی زیادہ ہے اور جہاں ووٹر اپنے فیصلہ کرنے میں آزاد بھی ہے۔ پی پی پی نے سندھ میں اتنی اکثریت حاصل کر لی ہے کہ اس نے اپنی صوبائی حکومت بغیرکسی کی مددکے بنالی ہے۔ اس دفعہ پی پی پی کو 2013ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں ملی ہیں، اس کا کریڈٹ بلاول بھٹوکوجاتا ہے انھوں نے بڑی محنت کی ہے، لیکن پھر بھی وہ پنجاب میں صرف پانچ نشستیں لے سکے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ اب پی پی پی پاکستان کی پارٹی نہیں رہی نہ بینظیر اور ذوالفقارعلی بھٹوکی پارٹی ہے، 2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں پی پی پی کا سیاسی گراف بہت گِرچکا ہے۔ اس کی تمام ذمے داری اس پارٹی کی قیادت پر ہے۔
اگر آصف زرداری اصل محور لاڑکانہ کی بجائے لاہورکو رکھتے اور پنجاب کے سیاستدانوں جو پی پی پی سے وابستہ ہیں، انھیں زیادہ اختیار دیتے اوراپنے فیصلوں میں انھیں برابرکا حصہ دیتے تو 2008ء کے انتخابات میں ہی پی پی پی بینظیرکی شہادت سے کافی اکثریت لے لیتی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کی حکومت کیا ان علاقوں پر بھرپور توجہ دے گی جہاں سے انھیں شکست ہوئی جیسے کراچی میں لیاری سے شکست ہوئی وہ بھی بلاول بھٹو جیسی شخصیت کو۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ پی پی پی نے گزشتہ دس سال میں ان شہری حلقوں پرکوئی توجہ نہ دی اور جن کو بھی وزیراعلیٰ بنایا، جن میں قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ جیسے سینئر لوگ تھے، مگر ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ تو آصف زرداری کی بہن تھیں۔ ان وزرائے اعلیٰ نے اس شہر میں کوئی ترقیاتی کام نہ کیا نہ سرکلر ریلوے، نہ پانی، نہ ٹرانسپورٹ، نہ بجلی کی مناسب ترسیل، نہ ہی شہر کے انفرا اسٹرکچر پرکام کیا۔
اب اگر بلاول بھٹو واقعی آزاد اور بااختیارچیئرمین ہیں تو امید ہے وہ سب سے پہلے اپنے شکست زدہ علاقوں پر تو جہ دیں گے اور سندھ کے شہری علاقوں کے بنیادی مسائل پر توجہ دیں گے۔ ورنہ آیندہ الیکشن میں اندرون سندھ بھی ناکامی دیکھنا نصیب ہوسکتی ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں پی پی پی کی ناکامی کا ذکر سندھ کے شہری علاقوں میں اور پنجاب اور کے پی کے میں ہارنے کا ذکرکیا تھا۔ بہت سے سنجیدہ لوگ پی پی پی کو ہی ووٹ دینا چاہتے تھے، مگر اس دفعہ پارٹی کی کارکردگی سے عوام مایوس ہوگئے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ پنجاب میں پی پی پی سے وابستہ وہ لوگ جو ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیر بھٹوکو اپنا لیڈر مانتے تھے، ان میں اکثریت بہترین پارلیمنٹرین کی ہے جو شکست کھا گئے اور جو پی پی پی کو چھوڑکر PTI میں چلے گئے، اگر وہ دوبارہ مل کر پھر بھٹو کی پارٹی کو زندہ کرنا چاہیں تو وہ پی پی پی پنجاب یا بھٹو پارٹی پاکستان کے نام ایک نئی پارٹی بناکرکھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں، اور شاید بھٹو کے نظریے اس کی سیاست کو زندہ رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
دوسری جانب سندھ میں گورنرکے عہدے کے لیے اٹھنے والا واویلا ہے مگر میری نظر میں عمران اسماعیل بہت با صلاحیت سیاستدان ہیں، جھوٹ نہیں بولتے،اگر وہ پارلیمنٹ میں ہوتے تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ گورنرکا منصب غیر سیاسی ہے۔ یہ آئینی عہدہ ہے،اس کا تعلق ریاست سے ہے،گورنر بننے کے بعد وہ سیاست نہیں کرسکتے، بہتر تو یہ تھا کہ کسی اردو اسپیکنگ ایسی شخصیت کا انتخاب ہوتا جو غیر سیاسی ہوتی۔
سابق جنرل یا سابق جج صاحبان میں سے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا اور سندھ میں اس روایات کو قائم رکھنا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ سندھی ہو توگورنر غیر سندھی شہری ہو، تاکہ شہرکے لوگ مطمئن رہیں۔ پی ٹی آئی کو اس بات کا ذہن میں رکھنا ہے کہ انھیں سندھ کے ان شہریوں نے سب سے زیادہ ووٹ دیے جوکبھی ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کو ملتے تھے اور یہ بات بڑی اہم ہے۔
پی ٹی آئی کو اندرون سندھ ووٹ برائے نام ملے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اندرون سندھ وہ توجہ نہ دی جو دینی چاہیے تھی اور سندھ کے شہروں میں خاص طورکراچی میں جو لوگ لاپتہ ہوئے ان سب کے ازالے کے لیے سویلین اداروں کو مضبوط اور غیرسیاسی بنا کر عوام میں اعتماد بحال کیا جائے، خاص طور پر ایم کیو ایم پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ کراچی کا میئر تبدیل کریں، موجودہ میئرکے ہوتے ہوئے، اس شہر میں کوڑا اُٹھانے اور شہرکی صفائی کا کوئی کام نہ ہوا اور شاید یہی وجہ ایم کیو ایم کی سندھ کے شہروں میں شکست کی ہے۔
ایم کیو ایم کے پاس آج بھی باصلاحیت لوگ موجود ہیں۔ میری نظر میں ارشد وہرہ زیادہ با صلاحیت تھے مگر انھیں اختیار اور موقع نہ دیا وہ دل برداشتہ ہوکر پی ایس پی میں چلے گئے۔ سندھ کے شہریوں نے ایم کیو ایم کی تقسیم کو قبول نہ کیا اور سب کو رد کردیا۔ اب ایک ہی راستہ ہے چاہے ایم کیوایم (خالد مقبول ہو) یا (فاروق ستار ) یا پی ایس پی یا حقیقی۔ ان سب کو ملکر پاکستان متحدہ مومنٹ کے نام سے پارٹی بنانی چاہیے جو شہری حقوق کے لیے تحریک چلائے۔
مجھے یقین ہے عوام میں انھیں بہت مقبولیت ملے گی، کیونکہ اس بار انتخابات میں لسانیت اور مذہبیت کے نام پرکسی کو ووٹ نہیں ملے بلکہ عوام نے سیاسی شعورکا مظاہرہ کرکے قابلیت اور صلاحیت اورکارکردگی پر ووٹ دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تیس سال سے سیاست کرنے والے بڑے نام آج شکست سے دوچار ہوئے، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، غلام احمد بلور، چوہدری نثار جو قومی اسمبلی میں نہ جاسکے۔
اگر پی ٹی آ ئی نے کارکردگی نہ دکھائی تو اس کا حشر ان سے بھی بد تر ہوگا۔ شاید اس کا احساس پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ہے، 22 سال کی جدوجہد کے بعد عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ ان کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہوگی، انھیں سو دن میں بڑے اہم فیصلے کرنے ہونگے، ان ہی فیصلوں کے اثرات کی بنیاد پر عوام میں اعتماد بڑھے گا۔خاص طور پر پولیس کے محکمے میںا صلاحات لانی ہوگی۔
پولیس کے محکمے میں انھیں اعلیٰ افسران تعلیم یافتہ بھی ہیں اور مالی طور پر مستحکم بھی اس محکمے میں تطہیرکرنا ہو گی۔ جس دن پولیس کا محکمہ امن وامان کے لیے کسی اور ادارے کا محتاج نہیں ہوگا وہ دن اس کی کامیابی کا ہوگا۔ ہر تھانہ فلاحی انداز میں کام کرے تو عوام میں اعتماد ہوگا۔ پولیس اور عوام کو دوستی کرنا ہوگی۔اسی طرح معیشت کی بحالی اور پیداوار میں اضافہ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔
تعلیمی اداروں میں سلیبس کو یکسانیت دینا ہوگی فیس اور اخراجات کوکم کرنا ہوگا۔خاص طور پر جمہوری تقاضوں کا خیال کرنا ہوگا، صوبوں میں تجربہ کار منجھے ہوئے شفاف لوگوں کو وزیراعلیٰ لگانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ایک نگراں کمیٹی بنانی ہوگی جس میں دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی شامل کرنا ہوںگے،جو پی ٹی آئی کے منشورکو عملی جامہ پہنانے میں معاون ہوں اوراداروں میں ظلم اور زیادتی، بدعنوانی وغیرہ پر نظر رکھیں اور خاص طور پر نوجوانوں کو متعدد تفریح کے مواقعے دیں اور تمام اداروں کو احساس دلایا جائے وہ عوام کے خادم ہیں حاکم نہیں، پورے ملک میں ایک منظم نظام لایا جائے تاکہ لوگ اس سسٹم کے عادی ہوجائیں، تاکہ نئی حکومت نئے پاکستان کی تکیمل کے لیے اپنا پہلا قدم کامیابی سے اٹھا سکے۔
کاش! ان انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو اتنی اکثریت ملتی کہ وہ کسی دوسری پارٹیوں کی مدد کے بغیر اپنی حکومت بنا لیتی اور اپنے منشور پر من وعن کام کرتی اور پانچ سال کے بعد عوام کو اندازہ ہو جاتا کہ حکمراں جماعت نے کتنا کام کیا ہے۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں ہمیشہ یہ ہی زوردیا کہ انھیں بھاری اکثریت ملے گی، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا، PTI نے تقریباً ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ لیے۔
پی ٹی آئی کو زیادہ تر ووٹ شہری علاقوں سے ملے جہاں سیاسی شعور بھی زیادہ ہے اور جہاں ووٹر اپنے فیصلہ کرنے میں آزاد بھی ہے۔ پی پی پی نے سندھ میں اتنی اکثریت حاصل کر لی ہے کہ اس نے اپنی صوبائی حکومت بغیرکسی کی مددکے بنالی ہے۔ اس دفعہ پی پی پی کو 2013ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں ملی ہیں، اس کا کریڈٹ بلاول بھٹوکوجاتا ہے انھوں نے بڑی محنت کی ہے، لیکن پھر بھی وہ پنجاب میں صرف پانچ نشستیں لے سکے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ اب پی پی پی پاکستان کی پارٹی نہیں رہی نہ بینظیر اور ذوالفقارعلی بھٹوکی پارٹی ہے، 2013ء کے الیکشن کے مقابلے میں پی پی پی کا سیاسی گراف بہت گِرچکا ہے۔ اس کی تمام ذمے داری اس پارٹی کی قیادت پر ہے۔
اگر آصف زرداری اصل محور لاڑکانہ کی بجائے لاہورکو رکھتے اور پنجاب کے سیاستدانوں جو پی پی پی سے وابستہ ہیں، انھیں زیادہ اختیار دیتے اوراپنے فیصلوں میں انھیں برابرکا حصہ دیتے تو 2008ء کے انتخابات میں ہی پی پی پی بینظیرکی شہادت سے کافی اکثریت لے لیتی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ کی حکومت کیا ان علاقوں پر بھرپور توجہ دے گی جہاں سے انھیں شکست ہوئی جیسے کراچی میں لیاری سے شکست ہوئی وہ بھی بلاول بھٹو جیسی شخصیت کو۔
یہ سب اس لیے ہوا کہ پی پی پی نے گزشتہ دس سال میں ان شہری حلقوں پرکوئی توجہ نہ دی اور جن کو بھی وزیراعلیٰ بنایا، جن میں قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ جیسے سینئر لوگ تھے، مگر ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ تو آصف زرداری کی بہن تھیں۔ ان وزرائے اعلیٰ نے اس شہر میں کوئی ترقیاتی کام نہ کیا نہ سرکلر ریلوے، نہ پانی، نہ ٹرانسپورٹ، نہ بجلی کی مناسب ترسیل، نہ ہی شہر کے انفرا اسٹرکچر پرکام کیا۔
اب اگر بلاول بھٹو واقعی آزاد اور بااختیارچیئرمین ہیں تو امید ہے وہ سب سے پہلے اپنے شکست زدہ علاقوں پر تو جہ دیں گے اور سندھ کے شہری علاقوں کے بنیادی مسائل پر توجہ دیں گے۔ ورنہ آیندہ الیکشن میں اندرون سندھ بھی ناکامی دیکھنا نصیب ہوسکتی ہے۔ میں اپنے گزشتہ کالم میں پی پی پی کی ناکامی کا ذکر سندھ کے شہری علاقوں میں اور پنجاب اور کے پی کے میں ہارنے کا ذکرکیا تھا۔ بہت سے سنجیدہ لوگ پی پی پی کو ہی ووٹ دینا چاہتے تھے، مگر اس دفعہ پارٹی کی کارکردگی سے عوام مایوس ہوگئے۔
اس بات کا قوی امکان ہے کہ پنجاب میں پی پی پی سے وابستہ وہ لوگ جو ذوالفقارعلی بھٹو اور بینظیر بھٹوکو اپنا لیڈر مانتے تھے، ان میں اکثریت بہترین پارلیمنٹرین کی ہے جو شکست کھا گئے اور جو پی پی پی کو چھوڑکر PTI میں چلے گئے، اگر وہ دوبارہ مل کر پھر بھٹو کی پارٹی کو زندہ کرنا چاہیں تو وہ پی پی پی پنجاب یا بھٹو پارٹی پاکستان کے نام ایک نئی پارٹی بناکرکھویا ہوا مقام حاصل کرسکتے ہیں، اور شاید بھٹو کے نظریے اس کی سیاست کو زندہ رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
دوسری جانب سندھ میں گورنرکے عہدے کے لیے اٹھنے والا واویلا ہے مگر میری نظر میں عمران اسماعیل بہت با صلاحیت سیاستدان ہیں، جھوٹ نہیں بولتے،اگر وہ پارلیمنٹ میں ہوتے تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ گورنرکا منصب غیر سیاسی ہے۔ یہ آئینی عہدہ ہے،اس کا تعلق ریاست سے ہے،گورنر بننے کے بعد وہ سیاست نہیں کرسکتے، بہتر تو یہ تھا کہ کسی اردو اسپیکنگ ایسی شخصیت کا انتخاب ہوتا جو غیر سیاسی ہوتی۔
سابق جنرل یا سابق جج صاحبان میں سے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا اور سندھ میں اس روایات کو قائم رکھنا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ سندھی ہو توگورنر غیر سندھی شہری ہو، تاکہ شہرکے لوگ مطمئن رہیں۔ پی ٹی آئی کو اس بات کا ذہن میں رکھنا ہے کہ انھیں سندھ کے ان شہریوں نے سب سے زیادہ ووٹ دیے جوکبھی ایم کیوایم اور جماعت اسلامی کو ملتے تھے اور یہ بات بڑی اہم ہے۔
پی ٹی آئی کو اندرون سندھ ووٹ برائے نام ملے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اندرون سندھ وہ توجہ نہ دی جو دینی چاہیے تھی اور سندھ کے شہروں میں خاص طورکراچی میں جو لوگ لاپتہ ہوئے ان سب کے ازالے کے لیے سویلین اداروں کو مضبوط اور غیرسیاسی بنا کر عوام میں اعتماد بحال کیا جائے، خاص طور پر ایم کیو ایم پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ کراچی کا میئر تبدیل کریں، موجودہ میئرکے ہوتے ہوئے، اس شہر میں کوڑا اُٹھانے اور شہرکی صفائی کا کوئی کام نہ ہوا اور شاید یہی وجہ ایم کیو ایم کی سندھ کے شہروں میں شکست کی ہے۔
ایم کیو ایم کے پاس آج بھی باصلاحیت لوگ موجود ہیں۔ میری نظر میں ارشد وہرہ زیادہ با صلاحیت تھے مگر انھیں اختیار اور موقع نہ دیا وہ دل برداشتہ ہوکر پی ایس پی میں چلے گئے۔ سندھ کے شہریوں نے ایم کیو ایم کی تقسیم کو قبول نہ کیا اور سب کو رد کردیا۔ اب ایک ہی راستہ ہے چاہے ایم کیوایم (خالد مقبول ہو) یا (فاروق ستار ) یا پی ایس پی یا حقیقی۔ ان سب کو ملکر پاکستان متحدہ مومنٹ کے نام سے پارٹی بنانی چاہیے جو شہری حقوق کے لیے تحریک چلائے۔
مجھے یقین ہے عوام میں انھیں بہت مقبولیت ملے گی، کیونکہ اس بار انتخابات میں لسانیت اور مذہبیت کے نام پرکسی کو ووٹ نہیں ملے بلکہ عوام نے سیاسی شعورکا مظاہرہ کرکے قابلیت اور صلاحیت اورکارکردگی پر ووٹ دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تیس سال سے سیاست کرنے والے بڑے نام آج شکست سے دوچار ہوئے، مولانا فضل الرحمن، محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی، غلام احمد بلور، چوہدری نثار جو قومی اسمبلی میں نہ جاسکے۔
اگر پی ٹی آ ئی نے کارکردگی نہ دکھائی تو اس کا حشر ان سے بھی بد تر ہوگا۔ شاید اس کا احساس پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ہے، 22 سال کی جدوجہد کے بعد عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے۔ ان کے لیے اقتدار پھولوں کی سیج نہیں ہوگی، انھیں سو دن میں بڑے اہم فیصلے کرنے ہونگے، ان ہی فیصلوں کے اثرات کی بنیاد پر عوام میں اعتماد بڑھے گا۔خاص طور پر پولیس کے محکمے میںا صلاحات لانی ہوگی۔
پولیس کے محکمے میں انھیں اعلیٰ افسران تعلیم یافتہ بھی ہیں اور مالی طور پر مستحکم بھی اس محکمے میں تطہیرکرنا ہو گی۔ جس دن پولیس کا محکمہ امن وامان کے لیے کسی اور ادارے کا محتاج نہیں ہوگا وہ دن اس کی کامیابی کا ہوگا۔ ہر تھانہ فلاحی انداز میں کام کرے تو عوام میں اعتماد ہوگا۔ پولیس اور عوام کو دوستی کرنا ہوگی۔اسی طرح معیشت کی بحالی اور پیداوار میں اضافہ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا۔
تعلیمی اداروں میں سلیبس کو یکسانیت دینا ہوگی فیس اور اخراجات کوکم کرنا ہوگا۔خاص طور پر جمہوری تقاضوں کا خیال کرنا ہوگا، صوبوں میں تجربہ کار منجھے ہوئے شفاف لوگوں کو وزیراعلیٰ لگانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ایک نگراں کمیٹی بنانی ہوگی جس میں دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی شامل کرنا ہوںگے،جو پی ٹی آئی کے منشورکو عملی جامہ پہنانے میں معاون ہوں اوراداروں میں ظلم اور زیادتی، بدعنوانی وغیرہ پر نظر رکھیں اور خاص طور پر نوجوانوں کو متعدد تفریح کے مواقعے دیں اور تمام اداروں کو احساس دلایا جائے وہ عوام کے خادم ہیں حاکم نہیں، پورے ملک میں ایک منظم نظام لایا جائے تاکہ لوگ اس سسٹم کے عادی ہوجائیں، تاکہ نئی حکومت نئے پاکستان کی تکیمل کے لیے اپنا پہلا قدم کامیابی سے اٹھا سکے۔