تحریک انصاف فوری انصاف اور کڑا احتساب
عوام کو عمران خان سے بڑی توقعات اور امیدیں تھیں اور اب بھی ہیں۔
تحریک انصاف کو جو ووٹ ملے وہ انصاف اور احتساب کے نعرے پر ملے، اس کے ووٹرز پر امید ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں احتساب کا عمل اور انصاف کا سلسلہ شروع ہوجائیگا۔ عمران خان نے بھی اپنی پہلی تقریر میں اللہ کوگواہ بناکر وعدہ کیا کہ وہ کڑا انصاف کرینگے۔
عوام کو عمران خان سے بڑی توقعات اور امیدیں تھیں اور اب بھی ہیں۔ ان کی زیر صدارت ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلے کیے گئے کہ صدر، وفاقی وزرا و اراکین پارلیمنٹ کے صوابدیدی فنڈ پر پابندی عاید کردی گئی ہے، وزیر اعظم سمیت تمام وزرا سرکاری طیارے غیر ملکی سفر کے لیے استعمال نہیں کریںگے۔ وزیراعظم بھی خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریںگے۔
فرسٹ کلاس کے بجائے کلب کلاس میں سفرکریںگے، غیر ملکی دوروں میں بھی عام ایئر لائن کی کلب کلاس میں سفر کریںگے۔ ملک میں جاری میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبہ ایف آئی اے کی نگرانی میں آڈٹ کرائے جائیںگے۔ پوری دنیا کو حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کے لیے انگلش چینل سے 8 گھنٹے کی نشریات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا، کابینہ میں کیے گئے ان فیصلوں کو عوامی سطح پر سراہا گیا گوکہ اس میں بہت سے معاملات میں تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا مثلاً وزیراعظم نے میٹروبس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کا FIA کی نگرانی میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر FIA کا محکمہ اپنے زیر کنٹرول رکھا ہے۔
وزیراعظم کی چیئرمین نیب سے ملاقات میں بھی بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جارہاہے کیونکہ خود وزیراعظم اور ان کے سیاسی مخالفین ن لیگ اور پی پی پی وغیرہ کے مقدمات نیب میں زیر سماعت ہیں۔ جب کہ 9 وزرا اور 5 مشیروں میں سے 3 مشیر مشرف حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسلام آباد اور راولپنڈی سے ہے۔ خود پرویز مشرف بھی نیب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ 79 حکومتی اراکین جاگیردارانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ صدر وگورنرکی واجبی قسم کی تعلیم بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اہم قومی موضوعات کو نظر اندازکررہی ہے، قوم کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے نہ کوئی معاشی، زرعی وخارجہ پالیسی نظر آتی ہے، عوام کو خوش کرنے کے لیے جن نمائشی و علامتی قسم کے اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے وہ بھی عملی طور پرممکن نظر نہیں آتے خود پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عامر لیاقت کا کہنا ہے کہ 18 گاڑیوں اور چائے کی پیالیاں بچانے سے سادگی نہیں آئے گی۔
نثارکھوڑو نے بھی کہا ہے کہ قوم عمران سے باتیں نہیں عمل چاہتی ہے۔ کچھ حکومتی عہدیدار، سیاسی کارکن اور حکومتی متعلقین آپے سے باہر دکھائی دیتے ہیں جسکی وجہ سے شدت کے ساتھ شخصی و ذاتی معاملات اور کردار زیر بحث آرہے ہیں جسکی وجہ سے حکومتی عہدیداروں کو اپنے دفاع اور وضاحتوں کی مشقت سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اپوزیشن کو پروٹوکول اور سکیورٹی میں امتیاز کرنا سکھا رہے ہیں تو اپوزیشن حکومتی اراکین کوکنٹینر اور ایوانوں میں انداز تخاطب میں تمیز کرنا سکھا رہی ہے۔
سیاست کے میدان میں کھیلوں کی اصطلاحات استعمال کرنیوالے عمران خان اور ان کی ٹیم کھیل اور سیاست میں فرق ضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ کھیل کے میدان میں کپتان صرف ایک ٹیم جب کہ سیاست کے میدان میں حکومتی مسند اقتدار پر فائز ہونے کے بعد پوری قوم کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسے ان کا اعتماد حاصل کرکے انھیں ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
اب وعدوں، بھڑکوں اور للکاروں کا وقت گزرچکا ہے۔ وعدے نبھانے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے جو سو دنوں کا ہدف دیا تھا اس میں سے 15 دن گزر چکے ہیں۔ ان کے ہمدردوں اور مخالفوں نے وقت کی الٹی گنتی شروع کردی ہے اب تک تو اٹخ پٹخ کے سوائے کچھ نظر نہیں آرہا، کہیں رکن اسمبلی سر عام شہری پر تشدد کرتے آرہا ہے توکہیں وزیر خواتین کی کردارکشی کرتے ہوئے نظر آرہا ہے، کوئی وزیر محکمہ کے افسروں کی عزت نفس سے کھیلتا اور انھیں خوفزدہ کرتا نظر آرہا ہے جس پر افسران احتجاجاً چھٹیاں لے رہے ہیں یا پھر انھیں کھڈے لائن لگایا جارہا ہے۔
سڑکوں پر اشرافیہ کے غیر حکومتی رشتے دار قانون شکنی کرتے اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس میں بلاکر قانون کے رکھوالوں کو ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ ستم یہ کہ ان قانون شکن عناصر کی حمایت میں حکومتی پارٹی کی جانب سے رکن اسمبلی کی سرکردگی میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سول سروس جو دنیا بھر میں مانی جاتی تھی طویل عرصے سے سیاسی بنیادوں پر اس کی ساکھ اور وقار کو خراب کیا جا رہا ہے۔ پچھلی پارلیمنٹ کو فیڈرل سروس کمیشن کی رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ اس کے تحریر امتحان میں کامیابی کا نتیجہ صرف 3 فی صد رہا ۔ عہدوں کے لیے مطلوبہ افراد میسر نہیں ہیں ۔ یہ کیفیت ذہین و قابل نوجوانوں کی سول سروس سے بے رغبتی ظاہر کرتی ہے جو کبھی ان کا سنہرا سپنا اور ٹارگٹ ہوا کرتا تھا۔
سول سروس کے افسران کی سنجیدگی اور ان میں پائی جانے والی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند سال پیشتر انھوں نے اخلاقی اقدار اور پیشہ واریت کی بحالی کے لیے Moral Revival نامی تنظیم قائم کی تھی جس کا کہناتھا کہ سرکاری ملازمین سیاسی آقائوں کے ذاتی نوکر کے طور پر کام کرنا چھوڑدیں۔ تنظیم کا مقصد سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کرنا تھا تاکہ وہ اصولوں پر ڈٹے رہیں اور سول سروس آف پاکستان کا کھویا ہوا مقام، اس کی ساکھ اور وقار کو بحال کیا جاسکے۔
بیورو کریسی کو تیکنیکی بنیادوں پر دیگر ریاستی اداروں پرفوقیت و بالادستی ہوتی ہے اس کا براہ راست تعلق نظام حکومت کے لیے وضع کردہ امور، اصول و ضوابط، طریقہ کار اور پروٹوکول سے ہوتا ہے یہ ریاست کے نظام اور اداروں کے درمیان نظم و ضبط، ترتیب اور کمانڈ اینڈ کنٹرول فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کو سیاست اور بے جا مداخلت سے پاک رکھ کر ہی قانون کی بالادستی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
تحریک انصاف فوری انصاف اور کڑے احتساب کی بات کرتی ہے، عمران خان نے اپنی تقریر میں مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندرکرانے کے عزم کا اظہارکیا ہے ۔ نا انصافی قوموں کو افراتفری اور زوال کی طرف لے جاتی ہے، آج کل ہم اس کیفیت سے دو چار ہیں ۔ بدقسمتی سے پچھلے 20 سال سے عدالتوں کو نقصان پہنچانے اور انھیں سیاست زدہ کرنے کے لیے حکومت، سیاستدان، میڈیا اور خود وکلا اور وکلا تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔
پہلے بینچ وبارکے درمیان خلیج نظر آتی تھی، اب بینچ کے اندر تقسیم نظر آرہی ہے جوکسی طرح نیک شگون نہیں ہے ، ایک مستحکم و مربوط آزادانہ عدالتی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وکلا ججز، حکومت اور حکومتی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جرأت و دیانت داری سے فعال کردار ادا کریں اور ان کو عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ ٹی وی چینلز پر مقدمات کی کارروائیوں کے دوران تبصرے ان کے فیصلے تک پیش کردیے جاتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ بھی تنبیہ کرچکی ہے کہ اس قسم کے تبصرے عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں عوام سے دلوں میں رحم پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ شدت انتقام اور تصادم کی راہ سے گریز کرکے ہی بے رحمانہ احتساب اور انصاف کی فراہمی ممکن ہے جو پی ٹی آئی کا منشور اور حکومت کی تشکیل کا مقصد ہے اور جو اس کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بھی بنے گا۔
عوام کو عمران خان سے بڑی توقعات اور امیدیں تھیں اور اب بھی ہیں۔ ان کی زیر صدارت ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلے کیے گئے کہ صدر، وفاقی وزرا و اراکین پارلیمنٹ کے صوابدیدی فنڈ پر پابندی عاید کردی گئی ہے، وزیر اعظم سمیت تمام وزرا سرکاری طیارے غیر ملکی سفر کے لیے استعمال نہیں کریںگے۔ وزیراعظم بھی خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریںگے۔
فرسٹ کلاس کے بجائے کلب کلاس میں سفرکریںگے، غیر ملکی دوروں میں بھی عام ایئر لائن کی کلب کلاس میں سفر کریںگے۔ ملک میں جاری میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبہ ایف آئی اے کی نگرانی میں آڈٹ کرائے جائیںگے۔ پوری دنیا کو حکومت کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کے لیے انگلش چینل سے 8 گھنٹے کی نشریات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا، کابینہ میں کیے گئے ان فیصلوں کو عوامی سطح پر سراہا گیا گوکہ اس میں بہت سے معاملات میں تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا مثلاً وزیراعظم نے میٹروبس اور اورنج ٹرین کے منصوبوں کا FIA کی نگرانی میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر FIA کا محکمہ اپنے زیر کنٹرول رکھا ہے۔
وزیراعظم کی چیئرمین نیب سے ملاقات میں بھی بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جارہاہے کیونکہ خود وزیراعظم اور ان کے سیاسی مخالفین ن لیگ اور پی پی پی وغیرہ کے مقدمات نیب میں زیر سماعت ہیں۔ جب کہ 9 وزرا اور 5 مشیروں میں سے 3 مشیر مشرف حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسلام آباد اور راولپنڈی سے ہے۔ خود پرویز مشرف بھی نیب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ 79 حکومتی اراکین جاگیردارانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ صدر وگورنرکی واجبی قسم کی تعلیم بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اہم قومی موضوعات کو نظر اندازکررہی ہے، قوم کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے نہ کوئی معاشی، زرعی وخارجہ پالیسی نظر آتی ہے، عوام کو خوش کرنے کے لیے جن نمائشی و علامتی قسم کے اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے وہ بھی عملی طور پرممکن نظر نہیں آتے خود پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عامر لیاقت کا کہنا ہے کہ 18 گاڑیوں اور چائے کی پیالیاں بچانے سے سادگی نہیں آئے گی۔
نثارکھوڑو نے بھی کہا ہے کہ قوم عمران سے باتیں نہیں عمل چاہتی ہے۔ کچھ حکومتی عہدیدار، سیاسی کارکن اور حکومتی متعلقین آپے سے باہر دکھائی دیتے ہیں جسکی وجہ سے شدت کے ساتھ شخصی و ذاتی معاملات اور کردار زیر بحث آرہے ہیں جسکی وجہ سے حکومتی عہدیداروں کو اپنے دفاع اور وضاحتوں کی مشقت سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ وہ اپوزیشن کو پروٹوکول اور سکیورٹی میں امتیاز کرنا سکھا رہے ہیں تو اپوزیشن حکومتی اراکین کوکنٹینر اور ایوانوں میں انداز تخاطب میں تمیز کرنا سکھا رہی ہے۔
سیاست کے میدان میں کھیلوں کی اصطلاحات استعمال کرنیوالے عمران خان اور ان کی ٹیم کھیل اور سیاست میں فرق ضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ کھیل کے میدان میں کپتان صرف ایک ٹیم جب کہ سیاست کے میدان میں حکومتی مسند اقتدار پر فائز ہونے کے بعد پوری قوم کی ترجمانی کرتا ہے۔ اسے ان کا اعتماد حاصل کرکے انھیں ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔
اب وعدوں، بھڑکوں اور للکاروں کا وقت گزرچکا ہے۔ وعدے نبھانے کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی نے جو سو دنوں کا ہدف دیا تھا اس میں سے 15 دن گزر چکے ہیں۔ ان کے ہمدردوں اور مخالفوں نے وقت کی الٹی گنتی شروع کردی ہے اب تک تو اٹخ پٹخ کے سوائے کچھ نظر نہیں آرہا، کہیں رکن اسمبلی سر عام شہری پر تشدد کرتے آرہا ہے توکہیں وزیر خواتین کی کردارکشی کرتے ہوئے نظر آرہا ہے، کوئی وزیر محکمہ کے افسروں کی عزت نفس سے کھیلتا اور انھیں خوفزدہ کرتا نظر آرہا ہے جس پر افسران احتجاجاً چھٹیاں لے رہے ہیں یا پھر انھیں کھڈے لائن لگایا جارہا ہے۔
سڑکوں پر اشرافیہ کے غیر حکومتی رشتے دار قانون شکنی کرتے اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے نظر آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس میں بلاکر قانون کے رکھوالوں کو ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ ستم یہ کہ ان قانون شکن عناصر کی حمایت میں حکومتی پارٹی کی جانب سے رکن اسمبلی کی سرکردگی میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی سول سروس جو دنیا بھر میں مانی جاتی تھی طویل عرصے سے سیاسی بنیادوں پر اس کی ساکھ اور وقار کو خراب کیا جا رہا ہے۔ پچھلی پارلیمنٹ کو فیڈرل سروس کمیشن کی رپورٹ میں بتایاگیا تھا کہ اس کے تحریر امتحان میں کامیابی کا نتیجہ صرف 3 فی صد رہا ۔ عہدوں کے لیے مطلوبہ افراد میسر نہیں ہیں ۔ یہ کیفیت ذہین و قابل نوجوانوں کی سول سروس سے بے رغبتی ظاہر کرتی ہے جو کبھی ان کا سنہرا سپنا اور ٹارگٹ ہوا کرتا تھا۔
سول سروس کے افسران کی سنجیدگی اور ان میں پائی جانے والی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند سال پیشتر انھوں نے اخلاقی اقدار اور پیشہ واریت کی بحالی کے لیے Moral Revival نامی تنظیم قائم کی تھی جس کا کہناتھا کہ سرکاری ملازمین سیاسی آقائوں کے ذاتی نوکر کے طور پر کام کرنا چھوڑدیں۔ تنظیم کا مقصد سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کرنا تھا تاکہ وہ اصولوں پر ڈٹے رہیں اور سول سروس آف پاکستان کا کھویا ہوا مقام، اس کی ساکھ اور وقار کو بحال کیا جاسکے۔
بیورو کریسی کو تیکنیکی بنیادوں پر دیگر ریاستی اداروں پرفوقیت و بالادستی ہوتی ہے اس کا براہ راست تعلق نظام حکومت کے لیے وضع کردہ امور، اصول و ضوابط، طریقہ کار اور پروٹوکول سے ہوتا ہے یہ ریاست کے نظام اور اداروں کے درمیان نظم و ضبط، ترتیب اور کمانڈ اینڈ کنٹرول فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کو سیاست اور بے جا مداخلت سے پاک رکھ کر ہی قانون کی بالادستی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔
تحریک انصاف فوری انصاف اور کڑے احتساب کی بات کرتی ہے، عمران خان نے اپنی تقریر میں مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندرکرانے کے عزم کا اظہارکیا ہے ۔ نا انصافی قوموں کو افراتفری اور زوال کی طرف لے جاتی ہے، آج کل ہم اس کیفیت سے دو چار ہیں ۔ بدقسمتی سے پچھلے 20 سال سے عدالتوں کو نقصان پہنچانے اور انھیں سیاست زدہ کرنے کے لیے حکومت، سیاستدان، میڈیا اور خود وکلا اور وکلا تنظیمیں بھی شامل ہیں ۔
پہلے بینچ وبارکے درمیان خلیج نظر آتی تھی، اب بینچ کے اندر تقسیم نظر آرہی ہے جوکسی طرح نیک شگون نہیں ہے ، ایک مستحکم و مربوط آزادانہ عدالتی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ وکلا ججز، حکومت اور حکومتی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جرأت و دیانت داری سے فعال کردار ادا کریں اور ان کو عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ ٹی وی چینلز پر مقدمات کی کارروائیوں کے دوران تبصرے ان کے فیصلے تک پیش کردیے جاتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ بھی تنبیہ کرچکی ہے کہ اس قسم کے تبصرے عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں عوام سے دلوں میں رحم پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ شدت انتقام اور تصادم کی راہ سے گریز کرکے ہی بے رحمانہ احتساب اور انصاف کی فراہمی ممکن ہے جو پی ٹی آئی کا منشور اور حکومت کی تشکیل کا مقصد ہے اور جو اس کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بھی بنے گا۔