جنوبی پنجاب کے لیے سردار عثمان بزدار‘آخری موقع 

جب سے سردار عثمان بزدار نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ ان کے خلاف سازشیں اور میڈیا ٹرائل جاری ہے۔

msuherwardy@gmail.com

آج کل سردار عثمان بزدار کی شکل میں سرائیکی وسیب کی تخت لاہور پر حکومت ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن تخت لاہور سرائیکی وسیب کے ماتحت آگیا ہے۔ ہر طرف جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب ہی چھایا نظرآ رہا ہے۔ کبھی ملتان میں کہا جاتا تھا کہ ہم قیدی ہیں تخت لاہور کے اور آجکل تخت لاہور کہہ رہا ہے کہ ہم قیدی ہیں جنوبی پنجاب کے۔ پنجاب پر جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب کی حکومت ایسے ہی ہے جیسے کے پی میں ہزارہ کی حکومت آجائے۔ سندھ پر کراچی کی حکومت آجائے۔ یہ سب ناممکن نہیں ہے لیکن ممکن ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آجکل جنوبی پنجاب صوبے کی جدوجہد کرنے والوں کو بھی وقتی طور پر اپنی جدوجہد معطل کر دینی چاہیے۔ اب تو سردار عثمان بزدار کی شکل میں انھیں پورے پنجاب کی حکومت مل گئی ہے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب والے کر کیا رہے ہیں۔ قدرت نے انھیں پورے پنجاب کی حکومت دے دی ہے۔ انھیں تو جنوبی پنجاب کی ترقی کے لیے اکٹھے ہوجانا چاہیے۔ سردار عثمان بزدار کے ساتھ کھڑے ہوجانا چاہیے۔ سردار عثمان بزدار کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کے خلاف سازش سمجھنا چاہیے۔

جب سے سردار عثمان بزدار نے وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ ان کے خلاف سازشیں اور میڈیا ٹرائل جاری ہے۔ کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم تھے کچھ ہمیں بھی مرنے کا شوق تھا کے مصداق کچھ تو سردار عثمان بزدار نئے نئے ہیں لیکن کچھ شہر کے لوگ بھی ظالم ہیں۔ انھیں تخت لاہور سے تو شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ تخت لاہور کے نمایندے چاہے اپوزیشن سے ہوں یا حکمران اتحاد سے کسی نے بھی سردار عثمان بزدار کو دل سے قبول نہیں کیا۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تخت لاہور کے میڈیا نے بھی سردار عثمان بزدار کو قبول نہیں کیا۔ کہیں نہ کہیں یہ سوچ قائم ہے کہ ہائے یہ کہاں سے آگیا۔ اس لیے میڈیا کے اندر بھی ان کے لیے ایک جانبداری نظر آرہی ہے۔ انھیں ان جرائم کی سزا بھی دی جا رہی ہے جو انھوں نے کیے بھی نہیں۔ ان کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جیسا جب کوئی غریب آدمی کسی اعلیٰ عہدہ پر پہنچ جائے تو کوئی اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اسی طرح مجھے لگتا ہے کہ تخت لاہور کے ذمے داران ایک سوچے سمجھے گیم پلان کے تحت جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کے سردار عثمان بزدار کو نہ تو قبول کرنے دے رہے ہیں اور نہ ہی قبول کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ مشکل میں نظر آتے ہیں۔

ویسے تو سرائیکی وسیب اور جنوبی پنجاب کا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں اپنے ہی لوگوں کی قبولیت نہیں ہے۔ آپ یوسف رضا گیلانی کی مثال ہی لے لیں ۔ انھوں نے بطور وزیر اعظم ملتان کے لیے بہت کام کیا۔ جنوبی پنجاب کے لیے بہت کام کیا۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی آواز اٹھائی ۔ ایک کمیشن بھی بنوایا۔ ملتان کی ترقی میں یوسف رضاگیلانی کے کاموں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ملتان کے صحافیوں کو مرکزی مقام پر رکھا۔ لیکن دیکھ لیں جنوبی پنجاب اور ملتان نے یوسف رضاگیلانی سے وفا نہیں کی۔ اس کی نسبت آپ لاہور کو دیکھ لیں۔ لاہور نے ہمیشہ تخت لاہور کے وارثان شریف فیملی سے وفا کی ہے۔

ملکی حالات کچھ بھی ہوں، مارشل لاکا دور ہو یا جمہوری دور ہو لاہور نے شریف فیملی سے وفا کی ہے۔ جب کہ مقابلے میں جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب میں اپنی سیاسی قیادت کے لیے ایسا نظر نہیں آتا۔ لہذا میرے خیال میں اس بار جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کے پاس سردار عثمان بزدار کی شکل میں آخری موقع ہے۔ اگر اس بار سردار عثمان بزدار خدانخواستہ ناکام ہو گئے تو جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کو دوسری باری کے انتظار میں کئی دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں۔ شاید تخت لاہور دوبارہ ایسا موقع نہ دے۔


لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سردار عثمان بزدار کو جنوبی پنجاب کی سیاسی قیادت سے ابھی تک وہ حمایت نہیں ملی ہے جو ملنی چاہیے تھی۔ مجھے جنوبی پنجاب ابھی سردار عثمان بزدار کی پشت پر نظر نہیں آرہا۔ وہ بھی خاموشی سے دیکھ رہا ہے۔ ویسے تو جنوبی پنجاب کے ارکان سردار عثمان بزدار کے ارد گرد شہد کی مکھیوں کی طرح نظرآتے ہیں۔ لیکن وہ سردار عثمان بزدار کا بازو بننے کے بجائے ان پر بوجھ بن رہے ہیں۔ ان ارکان کو کیسے سمجھ آئے گی سرائیکی وزیر اعلیٰ کے طور پر یہ ٹھیک ہے کہ سردار عثمان بزدار پر ان کا پہلا حق ہے۔ لیکن یہ حق یک طرفہ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ انھیں بھی سردار عثمان بزدار کو سیاسی طاقت دینی ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ ملتان میں سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ ایک کنونشن منعقد کریں اور جنوبی پنجاب کی ترقی اور محرومیوں کے خاتمہ کے لیے یک نکاتی ایجنڈے پر سردار عثمان بزدار کی حمایت کا اعلان کریں۔ یہ درست ہے کہ سردار عثمان بزدار بار بار کہہ رہے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا مسئلہ آئی سی یو میں ہے اور اسے آئی سی یو سے نکالنا ہے۔ لیکن اس کے لیے جنوپی پنجاب کو اپنی سیاسی طاقت سردار عثمان بزدار کو دینی ہوگی۔ وہاں جنوبی پنجاب کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے ایک دو یا تین سالہ پروگرام کا اعلان ہونا چاہیے۔ یہی روڈ میپ سردار عثمان بزدار کی پہچان ہوگا۔ یہی ان کا ایجنڈا ہوگا۔ انھیں تخت لاہور کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تحریک انصاف کے تخت لاہور کے وارثان خود ہی اس کا خیال رکھ لیں گے۔ اگر ایک سال تخت لاہور کی فکر نہ بھی کی جائے گی تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ لیکن اگر سردار عثمان بزدار ناکام ہو گئے تو جنوبی پنجاب پر یقیناً قیامت ہی آجائے گی۔

مجھے تو جنوبی پنجاب کے صحافیوں کی بھی سمجھ نہیں آرہی، وہ سالہا سال سے نجی محفلوں میں جنوبی پنجاب کا مقدمہ خوب لڑتے ہیں۔لیکن اب جنوبی پنجاب کا وزیر اعلیٰ آگیا ہے تو کہاں ہیں۔ انھیں جنوبی پنجاب کے سردار عثمان بزدار کو طاقت دینی چاہیے۔ یہ طاقت انھیں تخت لاہور سے نہیں مل سکتی۔

لیکن کچھ کام سردار عثمان بزدار کو بھی کرنے چاہیے۔ یہ درست ہے کہ آئین پاکستان میں طے شدہ طریقہ کار کے تخت جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا عملا نا ممکن ہے۔ نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی کی مصداق نہ دو تہائی ہو گی نہ صوبہ بنے گا۔ عمران خان کا سو دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کا اعلان حقیقت بننا ممکن نظر نہیں آرہا ۔ اس لیے جنوبی پنجاب کو اقتدار منتقلی کے لیے کچھ آئوٹ آف بکس کام کرنے ہونگے۔

مثال کے طور پر سردار عثمان بزادر ملتان میں وزیر اعلیٰ کے ایک مستقل کیمپ دفتر کا قیام عمل میں لا سکتے ہیں۔ اب تو فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ ہفتہ میں دو ون ملتان میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر لاہور سے بیٹھ کر ملتان پر حکومت ہو سکتی ہے تو دو دن ملتان میں بیٹھ کر لاہور پر بھی حکومت ہو سکتی ہے۔ شہباز شریف کے دور میں ملتان میں ایک سب سیکریٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تھا لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔ لیکن اب تو تین ماہ میں سیکریٹریٹ قائم ہو سکتا۔ ہر محکمہ کا ایڈیشنل سیکریٹری وہاں بیٹھ سکتا ہے۔ اب تو ای میل واٹس ایپ اور ویڈیو کال کا دور ہے۔ فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کاغذ پلک جھپکتے لاہور سے ملتان اور ملتان سے لاہور پہنچ سکتا ہے۔ ایسے میں ملتان میں سردار عثمان بزدار کا سب سیکریٹریٹ جنوبی پنجاب کی محرمیوں میں کمی کرے گا۔ جب صوبہ بنے گا تو بن جائے گا۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ سردا ر عثمان بزدار رضیہ غنڈوں میں گھری کی طرح اپنوں کی ہی سازشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے اپنے ہی ان کی ناکامی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔ تا کہ ان کی باری آسکے۔ اس لیے ان کے پاس وقت کم ہے۔ انھیں جو بھی کرنا ہے جلدی کرنا ہے۔ پہلے ہی کافی دیرہو چکی ہے۔
Load Next Story