حکومت اور زرعی اصلاحات
ہمارے وزیر اعظم ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی سے قومی مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ملک کی کسی حکومت نے زرعی اصلاحات کے نفاذ میں سنجیدگی نہیں دکھائی۔ حکومت قومی مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے، لیکن قومی مسائل میں حکومت کے ایجنڈے میں بھی زرعی اصلاحات کا ذکر نہیں ۔
کیا وجہ ہے کہ ملک کے اس اہم ترین مسئلے سے دانستہ اغماز برتا جا رہا ہے ، اس سے قبل بھی ہم نے زرعی اصلاحات کے مسئلے پر بار بار حکومتوں کی توجہ مبذول کرائی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی سیاسی اور مذہبی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ یہ مسئلہ ملک کے بنیادی مسئلوں میں سے ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی سے قومی مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن زرعی اصلاحات جیسے بنیادی مسئلے پر عمران حکومت بھی خاموش نظر آتی ہے حالانکہ یہ مسئلہ اپنی نوعیت اور اہمیت کے حوالے سے ایک اہم قومی مسئلہ ہے۔
اس مسئلے کو ایک اہم قومی مسئلہ بنانے کی راہ میں وہ جاگیردار اور وڈیرے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جو قانون ساز اداروں میں موجود ہیں، اس مسئلے کی اہمیت پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ بڑے منظم انداز میں کیا جاتا ہے کہ ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کردیا گیا ہے ۔ اس پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور ایجنڈے میں یہ اہم مسئلہ شامل نظر نہیں آتا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہر اس ملک میں جہاں جاگیردارانہ نظام رہا سخت زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں اور جاگیردارانہ نظام کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔
ہمارے ملک میں زرعی اصلاحات میں کس قدر بد دیانتی کی گئی، اس کا اندازہ بار بار ہونے والی زرعی اصلاحات سے کیا جاسکتا ہے دنیا کے ان ملکوں میں جہاں جاگیردارانہ نظام موجود تھا ایک ہی بامعنی زرعی اصلاحات سے جاگیردارانہ نظام کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا لیکن پاکستان میں بار بار زرعی اصلاحات نافذ کرنے کے باوجود آج بھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام باقی ہے۔ اس حوالے سے دو باتوں پر غور ضروری ہے ایک یہ کہ پاکستان میں تین بارکی زرعی اصلاحات کے باوجود آج بھی جاگیردار اور وڈیرے لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں دوسرے یہ کہ پاکستان کا جاگیردار طبقہ سیاست اور اقتدار پر کس طرح قابض رہا ؟
ان سوالوں کے جواب کے لیے قیام پاکستان سے قبل تحریک پاکستان پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ممکنہ طور پر جو علاقے شامل ہونے والے تھے وہ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے حامل تھے ان علاقوں میں رہنے والے جاگیرداروں کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ ملک تقسیم کی طرف جا رہا ہے تو ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی اور آہستہ آہستہ مسلم لیگ پر قابض ہوتے چلے گئے۔ جب 1947 میں ملک تقسیم ہوا تو مسلم لیگ میں شامل جاگیردار اور وڈیرے اقتدار کے مالک بن گئے اقتدار میں آنے کی وجہ جاگیردارانہ نظام اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔ سیاست جاگیرداروں کے گھر کی لونڈی بن گئی۔
جاگیردار طبقے کی طاقت اور سازشوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کے دست راست وزیر اعظم لیاقت علی خان جب ملک میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے حوالے سے مشاورت کرنے لگے تو اس طبقے نے ایک منظم سازش کے تحت راولپنڈی کے ایک جلسے میں انھیں قتل کرادیا اور قتل کی سازش پر پردہ ڈالنے کے لیے لیاقت علی خان کے قاتل کو بھی قتل کرادیا۔ 1947 سے 1958 تک ملک پر مکمل طور پر جاگیرداروں اور وڈیروں کا قبضہ رہا۔
1958 میں جب ایوب خان نے ''جمہوری'' حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو ایوب خان کے مشیروں نے ایوب خان کو بتایا کہ پاکستان میں جاگیردار طبقہ بہت مضبوط اور سازشی ہے، اس کی طاقت کو نہ توڑا گیا تو وہ ایوب حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایوب خان نے نیک نیتی سے نہیں بلکہ اپنے اقتدارکے تحفظ کے لیے زرعی اصلاحات کا پانسا پھینکا۔ ایوب خان کی اس چال سے جاگیردار اور وڈیرے خائف ہوگئے اور کنونشن لیگ بناکر ایوب خان کی خدمت میں پیش کی۔
جاگیرداروں کی پسپائی کے بعد ایوب خان نے پسپائی قبول کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کی زمینیں جو زرعی اصلاحات میں ان سے چھین لی گئی تھیں انھیں واپس کردیں۔ اس طرح پہلی زرعی اصلاحات جاگیردارانہ نظام کو ختم نہ کرسکیں ،اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات کو بھی ناکام بنادیا گیا۔ ملک میں یہ پروپیگنڈا بڑے منظم انداز میں کیا گیا کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا ہے اس پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں زرعی اصلاحات کے مطالبے ختم ہوجائیں۔
جاگیردار صنعتی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنے رہے ہیں اگر ایوب خان کے دور میں کولمبو پلان کے تحت پاکستان کو بھاری اقتصادی امداد نہ ملتی تو پاکستان جانے کب تک صنعتی ترقی سے محروم رہتا۔ کولمبو پلان کے تحت ملنے والی امداد ہی سے کراچی میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا لیکن جاگیردار اور وڈیرے اپنی لاکھوں ایکڑ زمینیں بچانے میں کامیاب رہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک سیاسی وڈیرے کی نشان دہی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ آج بھی اس سیاسی وڈیرے کے قبضے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے۔
وزیر اعظم عمران خان زرعی زمینوں کی ملکیت کے حوالے سے ایک جامع سروے کرائیں ، ساری حقیقت سامنے آجائے گی ۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں اب بھی جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے اور سیاست میں فعال بھی ہے، صنعتکار تاریخی طور پر جاگیردارانہ نظام کا مخالف ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں صنعتکار جاگیردار کا سیاسی اتحادی ہے اور اسی اتحاد کے تحت جاگیردار طبقے کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے اقتدارکی پانچ سالہ مدت پوری کرسکی، ان حقائق کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کرکے ملک اور سیاست سے جاگیردارانہ اثرورسوخ کا خاتمہ کردے ۔
کیا وجہ ہے کہ ملک کے اس اہم ترین مسئلے سے دانستہ اغماز برتا جا رہا ہے ، اس سے قبل بھی ہم نے زرعی اصلاحات کے مسئلے پر بار بار حکومتوں کی توجہ مبذول کرائی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسی سیاسی اور مذہبی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں حالانکہ یہ مسئلہ ملک کے بنیادی مسئلوں میں سے ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ہمارے وزیر اعظم ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ دلچسپی سے قومی مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن زرعی اصلاحات جیسے بنیادی مسئلے پر عمران حکومت بھی خاموش نظر آتی ہے حالانکہ یہ مسئلہ اپنی نوعیت اور اہمیت کے حوالے سے ایک اہم قومی مسئلہ ہے۔
اس مسئلے کو ایک اہم قومی مسئلہ بنانے کی راہ میں وہ جاگیردار اور وڈیرے اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جو قانون ساز اداروں میں موجود ہیں، اس مسئلے کی اہمیت پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ پروپیگنڈہ بڑے منظم انداز میں کیا جاتا ہے کہ ملک سے جاگیردارانہ نظام ختم کردیا گیا ہے ۔ اس پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور ایجنڈے میں یہ اہم مسئلہ شامل نظر نہیں آتا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہر اس ملک میں جہاں جاگیردارانہ نظام رہا سخت زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں اور جاگیردارانہ نظام کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا۔
ہمارے ملک میں زرعی اصلاحات میں کس قدر بد دیانتی کی گئی، اس کا اندازہ بار بار ہونے والی زرعی اصلاحات سے کیا جاسکتا ہے دنیا کے ان ملکوں میں جہاں جاگیردارانہ نظام موجود تھا ایک ہی بامعنی زرعی اصلاحات سے جاگیردارانہ نظام کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا لیکن پاکستان میں بار بار زرعی اصلاحات نافذ کرنے کے باوجود آج بھی سندھ اور جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام باقی ہے۔ اس حوالے سے دو باتوں پر غور ضروری ہے ایک یہ کہ پاکستان میں تین بارکی زرعی اصلاحات کے باوجود آج بھی جاگیردار اور وڈیرے لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک ہیں دوسرے یہ کہ پاکستان کا جاگیردار طبقہ سیاست اور اقتدار پر کس طرح قابض رہا ؟
ان سوالوں کے جواب کے لیے قیام پاکستان سے قبل تحریک پاکستان پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ممکنہ طور پر جو علاقے شامل ہونے والے تھے وہ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے حامل تھے ان علاقوں میں رہنے والے جاگیرداروں کو جب یہ اندازہ ہوگیا کہ ملک تقسیم کی طرف جا رہا ہے تو ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنا شروع کردی اور آہستہ آہستہ مسلم لیگ پر قابض ہوتے چلے گئے۔ جب 1947 میں ملک تقسیم ہوا تو مسلم لیگ میں شامل جاگیردار اور وڈیرے اقتدار کے مالک بن گئے اقتدار میں آنے کی وجہ جاگیردارانہ نظام اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔ سیاست جاگیرداروں کے گھر کی لونڈی بن گئی۔
جاگیردار طبقے کی طاقت اور سازشوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کے دست راست وزیر اعظم لیاقت علی خان جب ملک میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے حوالے سے مشاورت کرنے لگے تو اس طبقے نے ایک منظم سازش کے تحت راولپنڈی کے ایک جلسے میں انھیں قتل کرادیا اور قتل کی سازش پر پردہ ڈالنے کے لیے لیاقت علی خان کے قاتل کو بھی قتل کرادیا۔ 1947 سے 1958 تک ملک پر مکمل طور پر جاگیرداروں اور وڈیروں کا قبضہ رہا۔
1958 میں جب ایوب خان نے ''جمہوری'' حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تو ایوب خان کے مشیروں نے ایوب خان کو بتایا کہ پاکستان میں جاگیردار طبقہ بہت مضبوط اور سازشی ہے، اس کی طاقت کو نہ توڑا گیا تو وہ ایوب حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ایوب خان نے نیک نیتی سے نہیں بلکہ اپنے اقتدارکے تحفظ کے لیے زرعی اصلاحات کا پانسا پھینکا۔ ایوب خان کی اس چال سے جاگیردار اور وڈیرے خائف ہوگئے اور کنونشن لیگ بناکر ایوب خان کی خدمت میں پیش کی۔
جاگیرداروں کی پسپائی کے بعد ایوب خان نے پسپائی قبول کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کی زمینیں جو زرعی اصلاحات میں ان سے چھین لی گئی تھیں انھیں واپس کردیں۔ اس طرح پہلی زرعی اصلاحات جاگیردارانہ نظام کو ختم نہ کرسکیں ،اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات کو بھی ناکام بنادیا گیا۔ ملک میں یہ پروپیگنڈا بڑے منظم انداز میں کیا گیا کہ پاکستان میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا ہے اس پروپیگنڈے کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں زرعی اصلاحات کے مطالبے ختم ہوجائیں۔
جاگیردار صنعتی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنے رہے ہیں اگر ایوب خان کے دور میں کولمبو پلان کے تحت پاکستان کو بھاری اقتصادی امداد نہ ملتی تو پاکستان جانے کب تک صنعتی ترقی سے محروم رہتا۔ کولمبو پلان کے تحت ملنے والی امداد ہی سے کراچی میں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا لیکن جاگیردار اور وڈیرے اپنی لاکھوں ایکڑ زمینیں بچانے میں کامیاب رہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے ایک سیاسی وڈیرے کی نشان دہی کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ آج بھی اس سیاسی وڈیرے کے قبضے میں ایک لاکھ ایکڑ زمین موجود ہے۔
وزیر اعظم عمران خان زرعی زمینوں کی ملکیت کے حوالے سے ایک جامع سروے کرائیں ، ساری حقیقت سامنے آجائے گی ۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں اب بھی جاگیردارانہ وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے اور سیاست میں فعال بھی ہے، صنعتکار تاریخی طور پر جاگیردارانہ نظام کا مخالف ہوتا ہے، لیکن پاکستان میں صنعتکار جاگیردار کا سیاسی اتحادی ہے اور اسی اتحاد کے تحت جاگیردار طبقے کی حکومت پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اپنے اقتدارکی پانچ سالہ مدت پوری کرسکی، ان حقائق کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں زرعی اصلاحات نافذ کرکے ملک اور سیاست سے جاگیردارانہ اثرورسوخ کا خاتمہ کردے ۔