قانون سب کے لیے

ہمارے کئی بنیادی مسائل میں سے یہ بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کا نفاذ مختلف طبقوں کے لیے یکساں نہیں ہے۔


Abdul Qadir Hassan September 06, 2018
[email protected]

عارف علوی کے صدر منتخب ہونے کے ساتھ ہی حکومت کے تقریباً تمام آئینی عہدوں پر انتخابات مکمل ہو گئے ہیں یعنی حکومت کی مشینری پوری ہو چکی ہے بس اب اسے چلانے کی ضرورت ہے جس کا آغاز عمران خان کی سربراہی میں کچھ دن پہلے ہی ہو چکا ہے بلکہ حکومت کی شروعات کے ساتھ ہی اس کے بارے میں تبصرے بھی شروع ہو چکے ہیں، ان مشورہ نما تبصروں میں ان گنت بولیاں بولی جا رہی ہیں ہر کوئی اپنے عقل و فہم کے مطابق حکومت کی چند دن کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فی الحال مفت مشورے دے رہا ہے چونکہ تحریک انصاف مفت مشوروں کی عادی ہے اور اس کے سادگی پسند سربراہ عمران خان جو اس وقت وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہیں وہ مفت مشوروں پر ہی عمل کرتے ہیں حقیقت میں وہ کنجوس آدمی ہیں اس لیے مشورہ دانوں کو مفت مشورے دینے پر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔

عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد میں مظلوم کے حق میں آواز بلند کی انھوں نے مظلوموں کے ساتھ تھانہ کچہری اور پٹواری کے حلقے میں روا رکھے جانے والے سلوک کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا، ان کی آواز پر عوام جوق در جوق ان کی جانب کھچے چلے آئے اور پاکستان کی تاریخ کے نسبتاً شفاف ترین انتخابات کے بعد ان کی پارٹی کو اقتدار مل گیا۔ ان کی حکومت کیسی ہو گی ملک کی ترقی کے لیے ان کے پاس کیا حکمت عملی ہے غربت زدہ اور پسے ہوئے عوام کی خوشحالی کے لیے ان کے پاس وہ کون سے منصوبے ہیں جن سے پاکستان کے مظلوم طبقے کو فائدہ پہنچے گا،ان باتوں کا جواب اگلے چند ماہ میں مل جائے گا کیونکہ ایک نئی حکومت کو ملکی معاملات درست کرنے اور اپنی ٹیم بنانے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے اور ہماری حکومت اس وقت اس عمل سے گزر رہی ہے ۔

عمران خان اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اپنی سیاسی ٹیم کے علاوہ انتظامی ٹیم بھی تشکیل دے رہے ہیں اور انتظامی ٹیم کے لیے وہ اپنے چند بیورو کریٹ دوستوں کے مشوروں پر عمل کر رہے ہیں ، بظاہر ان کے دوست مفت مشوروں سے ان کو نواز رہے ہیں لیکن افسر شاہی کے نمایندے اپنے ساتھیوں کو ہی حکومت میں فٹ کر رہے ہیں، وزیر اعظم کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کو انھی لوگوں سے کام چلانا پڑے گاکیونکہ ملک کی افسر شاہی میں سے ہی انھوں نے انتظامیہ کا انتخاب کرنا ہے البتہ ان کی کوشش ہے کہ جو بھی شخص کسی اہم عہدے پر تعینات کیا جائے اس کی شہرت اچھی ہو ۔

عمران خان نے عوام کو جو شعور دیا ہے اور جس طرح کے احتساب کی بات وہ گزشتہ کئی برسوں سے کرتے آرہے ہیں اب جب وہ حکومت میں آئے ہیں تو ان کا پالا ایسے لوگوں سے پڑ رہا ہے جن کی گھٹی میں کرپشن ہے اور ایسے لوگ ہر اہم جگہ پر موجود ہیں اب یہ ان کے مشورہ دان ساتھیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے دوست عمران خان کو آزمودہ افسر شاہی کے شکنجے سے کیسے نکالتے ہیں یا پھر وہ بھی اپنے ساتھیوں کی ہی حمائت کرتے ہیں۔

عمران خان کی سیاسی ٹیم کے ایک عہدیدار بابر اعوان جو کہ بطور مشیر پارلیمانی امور ان کے ساتھ کام شروع کر رہے تھے ان کے خلاف نیب نے نندی پور سکینڈل میں ملوث ہونے پر ریفرنس دائر کیا جس کے بعد انھوں نے مشیر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔بابر اعوان یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے قانون کی بالادستی کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے اور وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کر کے دوبارہ کوئی حکومتی عہدہ سنبھالیں گے۔

انھوں نے ایک مثال قائم کی ہے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا اگر استعفیٰ لیا بھی گیا ہے تو یہ بھی ایک مثال ہی ہے کہ عمران خان اپنی ٹیم کی شفافیت پر یقین رکھتے ہیں اور اگر ان کی ٹیم کے کسی ممبر کے خلاف کوئی کیس سامنے آتا ہے تو وہ اسے ٹیم سے علیحدہ کر کے کیس کا سامنا کرنے کے لیے کہیں گے اس طرح کی مثالیں اس ملک میں ندارد ہیں اور یہ ان لوگوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو کہ عمران خان کی ٹیم کا حصہ ہیں یا بننا چاہتے ہیں کہ ان کو اپنے معاملات میں شفافیت رکھنی ہو گی۔ یہی وہ ویژن ہے جس کی عمران خان بات کرتے ہیں وہ ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو اور جب معاشرے کے ہر ایک فرد پر یکساں طور پر قانون کا نفاذ ہو گا تب ہی انصاف کی یقینی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔

ہمارے کئی بنیادی مسائل میں سے یہ بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کا نفاذ مختلف طبقوں کے لیے یکساں نہیں ہے مظلوم طبقے پر ملک کا ہر ایک قانون لاگو ہوتا ہے جب کہ بااثر لوگ اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے قانون کی زد سے بچ جاتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد اس کی کئی مثالیں بکھری پڑی ہیں کئی رئیس زادے اپنی طاقت کے زعم میں قانون کو پامال کرنے کے باوجود بچ گئے۔

ہم نے بطور ریاست خود اپنے شہریوں کے مجرموں کو باعزت بیرون ملک روانہ کیا۔ ہماری حکومت جس نے قانون کے نفاذ کا اعلان اپنی ذات سے کرنے کا اعلان کیا ہے یہ اعلان اور بابر اعوان کا استعفیٰ یہ پتہ دے رہا ہے کہ اس ملک میں اب قانون کا دور آنے والا ہے جس کی نظر میں سب برابر ہوں گے اور آنے والے دنوں میں سب کے لیے یہی معیار اپنایا جائے گا۔اپنے آپ کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے بابر اعوان نے ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے ۔کچھ اسی قسم کی توقعات اور امیدیں عوام کو موجودہ حکومت سے ہیں۔دیکھتے ہیں حکومت عوامی امنگوں پر کیسے پورا اترتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں