قاتل بلیو وہیل اور مومو گیم بالآخر سائبر کرائم کی زد میں
بلیووہیل اور مومو گیم جیسی قاتل گیمز کی وجہ سے کئی ممالک میں خودکشیوں کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
KARACHI:
انگریزی کی ایک معروف کہاوت ہے "Excess Of Everything Is Bad" لیکن بدقسمتی! سے انسان کو جب کوئی منفی رجحان یا غیرضروری خواہش مغلوب کر لیتی ہے تو کوئی نصیحت اس کے کام نہیں آتی۔
ایسا ہی کچھ دور جدید کے ایک بڑے منفی رجحان یعنی ویڈیو گیمز میں ہو رہا ہے۔ نت نئے انداز اور باسہولت رسائی کے ذریعے ویڈیو گیمز معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔
ماہرین کے مطابق بہت زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچے یا بڑے مختلف جسمانی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسے ویڈیو گیمز بہت زیادہ کھیلنے سے بچوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوجاتا ہے، گیمز میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے بچوں کو ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے، دوران کھیل آنکھوں کی حرکت تیز ہوجانے کے باعث آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے، پھر بہت سارے ویڈیو گیمز ایسے ہیں جن میں دوسروں کو قتل یا زدوکوب کرکے ان کی املاک تباہ کرنے کا لطف اٹھایا جاتا ہے، ایسی صورت حال ذہنوں میں تشدد ، ماردھاڑ اور لڑنے جھگڑنے کے گْر پیدا کر دیتی ہے......لیکن بات اب صرف منفی سرگرمی، جسمانی و نفسیاتی مسائل کی نہیں رہی بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے ان گیمز کی وجہ سے آج لوگ اپنی جانوں سے کھیلنے لگے ہیں۔
سوشل میڈیا کی معروف گیم بلیوویل چیلنچ کھیلنے والوں کو ایک کے بعد ایک مشکل ٹاسک دیا جاتا ہے اور آخری ٹاسک خودکشی ہوتا ہے۔ جبکہ ''مومو'' مختلف سوشل میڈیا جیسے واٹس ایپ، فیس بک اور یوٹیوب پر ایک اکاؤنٹ ہے،یہ اکاؤنٹ خواتین کی ڈراؤنی تصاویر پر مشتمل آرٹ ورک کا استعمال کرتا ہے،بلیو وہیل گیم کی طرح مومو چیلنج میں بھی شریک افراد کو مخصوص احکام پر عمل کرنے کا کہا جاتا ہے، ان احکامات میں اجنبی فون نمبروں پر لوگوں سے رابطہ کرنے اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے کا کہا جاتا ہے،اگر کوئی احکامات پر عمل نہ کرے تو اسے زیادہ پرتشدد تصاویر دکھا کر خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ بلیووہیل اور مومو گیم جیسی قاتل گیمز کی وجہ سے کئی ممالک میں خودکشیوں کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے اس لعنت نے وطن عزیز کا بھی رخ کر رکھا ہے، جس کے باعث مرنے مارنے کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ تاہم اب نومولود حکومت نے ان گیمز پر پابندی لگانے کا ایک درست فیصلہ کرکے اپنی نیک نامی میں اضافہ کا پربندھ کیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ ''پاکستان میں ایسی گیمزکی گنجائش نہیں، اس طرح کے گیمز بنانا اور پھیلانا سائبر کرائم کے زمرے میں آئے گا'' بلاشبہ یہ ایک احسن اقدام ہے، جس پر فوری طور پر عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انگریزی کی ایک معروف کہاوت ہے "Excess Of Everything Is Bad" لیکن بدقسمتی! سے انسان کو جب کوئی منفی رجحان یا غیرضروری خواہش مغلوب کر لیتی ہے تو کوئی نصیحت اس کے کام نہیں آتی۔
ایسا ہی کچھ دور جدید کے ایک بڑے منفی رجحان یعنی ویڈیو گیمز میں ہو رہا ہے۔ نت نئے انداز اور باسہولت رسائی کے ذریعے ویڈیو گیمز معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکی ہیں کہ چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی اس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔
ماہرین کے مطابق بہت زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنے والے بچے یا بڑے مختلف جسمانی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، جیسے ویڈیو گیمز بہت زیادہ کھیلنے سے بچوں کے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوجاتا ہے، گیمز میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے بچوں کو ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے، دوران کھیل آنکھوں کی حرکت تیز ہوجانے کے باعث آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے، پھر بہت سارے ویڈیو گیمز ایسے ہیں جن میں دوسروں کو قتل یا زدوکوب کرکے ان کی املاک تباہ کرنے کا لطف اٹھایا جاتا ہے، ایسی صورت حال ذہنوں میں تشدد ، ماردھاڑ اور لڑنے جھگڑنے کے گْر پیدا کر دیتی ہے......لیکن بات اب صرف منفی سرگرمی، جسمانی و نفسیاتی مسائل کی نہیں رہی بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے ان گیمز کی وجہ سے آج لوگ اپنی جانوں سے کھیلنے لگے ہیں۔
سوشل میڈیا کی معروف گیم بلیوویل چیلنچ کھیلنے والوں کو ایک کے بعد ایک مشکل ٹاسک دیا جاتا ہے اور آخری ٹاسک خودکشی ہوتا ہے۔ جبکہ ''مومو'' مختلف سوشل میڈیا جیسے واٹس ایپ، فیس بک اور یوٹیوب پر ایک اکاؤنٹ ہے،یہ اکاؤنٹ خواتین کی ڈراؤنی تصاویر پر مشتمل آرٹ ورک کا استعمال کرتا ہے،بلیو وہیل گیم کی طرح مومو چیلنج میں بھی شریک افراد کو مخصوص احکام پر عمل کرنے کا کہا جاتا ہے، ان احکامات میں اجنبی فون نمبروں پر لوگوں سے رابطہ کرنے اور اسی طرح کے دیگر کام کرنے کا کہا جاتا ہے،اگر کوئی احکامات پر عمل نہ کرے تو اسے زیادہ پرتشدد تصاویر دکھا کر خوفزدہ کیا جاتا ہے۔ بلیووہیل اور مومو گیم جیسی قاتل گیمز کی وجہ سے کئی ممالک میں خودکشیوں کے واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے اس لعنت نے وطن عزیز کا بھی رخ کر رکھا ہے، جس کے باعث مرنے مارنے کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ تاہم اب نومولود حکومت نے ان گیمز پر پابندی لگانے کا ایک درست فیصلہ کرکے اپنی نیک نامی میں اضافہ کا پربندھ کیا ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ ''پاکستان میں ایسی گیمزکی گنجائش نہیں، اس طرح کے گیمز بنانا اور پھیلانا سائبر کرائم کے زمرے میں آئے گا'' بلاشبہ یہ ایک احسن اقدام ہے، جس پر فوری طور پر عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے۔