متحدہ قومی موومنٹ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں
شہر قائد کے سیاسی منظر میں متحدہ قومی موومنٹ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیاں سب خبروں پر حاوی رہیں۔
شہر قائد کے سیاسی منظر میں متحدہ قومی موومنٹ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیاں سب خبروں پر حاوی رہیں۔
اس تبدیلی کا سلسلہ یوں تو 19 اور20 مئی کی درمیانی شب اس وقت شروع ہوا جب متحدہ کے قائد الطاف حسین نے کارکنوں سے خطاب کے دوران رابطہ کمیٹی سے یہ شکوہ کیا کہ عمران خان کے الزامات کے جواب میں رابطہ کمیٹی بیٹھی سنتی رہی۔۔۔! ان کے اس خطاب کے دوران کچھ مشتعل کارکنان کی جانب سے بد نظمی بھی دیکھنے میں آئی۔
اس کے بعد الطاف حسین کی جانب سے تنظیم کے اندر تطہیر کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور پہلے کراچی تنظیمی کمیٹی اور پھر رابطہ کمیٹی تحلیل کر دی گئی۔ کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق نگراں حماد صدیقی اپنی بنیادی رکنیت ختم ہوجانے کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔
اتوار کے روز کارکنوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران الطاف حسین نے نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا، جس کے مطابق ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر نصرت، ناصر جمال اور ندیم نصرت (لندن) کو نیا ڈپٹی کنوینر بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول اور ڈاکٹر نصرت پچھلی رابطہ کمیٹی میں بھی ڈپٹی کنوینرتھے، تاہم سیاسی منظر سے نسبتاً پرے رہے، اور زیادہ تر ڈاکٹر فاروق ستار اور انیس قائم خانی وغیرہ نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ اس اعتبار سے اب ان پر تنظیم کے حوالے سے خاصی بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔
الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی تحلیل کرنے کے بعد چند دن کے لیے عارضی رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دی جو نئی رابطہ کمیٹی بننے تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ الطاف حسین نے اس دوران واضح کیا کہ عوام کے لیے مشکلات کا سبب بننے والے عناصر کے لیے متحدہ میں کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کارکنوں کے چندہ مانگنے، زمینوں پر قبضے سمیت ٹھیکے داری وغیرہ میں شامل ہونے کی سخت ممانعت کی اور اس کے لیے قطعی عدم برداشت کے الفاظ استعمال کیے۔ قائد متحدہ نے کسی بھی غلط کام کی شکایات کے لیے لندن فیکس کرنے کی ہدایت کی۔
ساتھ ہی کہا کہ جن کے نام نئی رابطہ کمیٹی میں نہیں آئے ان کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں اور انہیں اصلاح کا وقت دیا جا رہا ہے۔ جو معیار پر پورا اترے گا اور اپنی اصلاح کرے گا، اسے واپس بھی لایا جا سکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروںکا کہنا ہے کہ شکست یا مشکلات کے بعد اپنی خامیوں اور کم زوریوں کا جائزہ لینا ہی سود مند اور دانش مندانہ عمل ثابت ہوتا ہے اور متحدہ کی جانب سے بھی اندرونی سطح پر کی جانے والی تبدیلیاں اس ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہیں۔ الطاف حسین کی جانب سے کیے جانے والے کڑے اقدام، نظم وضبط کے خلاف سخت شکایات پر ان کے بھر پور ایکشن کا پتا دیتے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے شہر میں انتخابی دھاندلی کے خلاف ایک مقامی ہوٹل میں کُل جماعتی کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں شہر بھر میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کانفرنس میں متحدہ اور اے این پی کی جانب سے شرکت نہیں کی گئی۔ کانفرنس میں نائب چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کے علاوہ کراچی سے نو منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی بھی شریک تھے۔ دیگر راہ نماؤں میں تاج حیدر (پیپلز پارٹی)، محمد حسین محنتی (جماعت اسلامی)، جام مدد علی (فنکشنل لیگ)، اویس نورانی (جمعیت علمائے پاکستان)، نہال ہاشمی (نواز لیگ)، حلیم عادل شیخ (ق لیگ)، جلال محمود شاہ (سندھ یونائیٹڈ پارٹی) ودیگر نے شرکت کی۔
مشترکہ اعلامیے کے موقع پر پیپلزپارٹی اور عوامی تحریک نے فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کے مطالبے کی مخالفت کی۔ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاج بھی جاری رہا۔ اس حوالے سے بنارس چوک پر منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے بھی فوج کے زیر نگرانی کراچی اور حیدرآباد میں دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ دُہرایا۔ این اے 250 کے انتخاب کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کی کمان حلقہ 239 سے تحریک انصاف کے امیدوار سبحان علی ساحل نے سنبھال لی ہے۔ کیماڑی میں انتخابی دھاندلی کے خلاف دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ کراچی میں سازش کے تحت ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔
انتخابی تنازعات کے ساتھ شہر میں اچانک بڑھنے والا بجلی بحران بھی اہم موضوع بنگیا۔ نام زَد وزیر اعلا پنجاب شہباز شریف نے کراچی میں پیر پگارا کو وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس موقع پر انہوں نے نہایت معنی خیز انداز میں کہا کہ ''کراچی میں بجلی آتی اور لاہور میں بجلی جاتی ہے۔'' کراچی میں بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے خلاف نو منتخب رابطہ کمیٹی کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی۔ جس میں رکن رابطہ کمیٹی حیدر عباس رضوی نے کہا کہ اگر ایک گھر کو روشن رکھنے کے لیے دوسرے گھر کو اندھیرے میں دھکیلا گیا تو اس سے وفاقیت متاثر ہوگی۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جوکابینہ کمیٹی کے فیصلوں کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح کے فیصلے کر رہے ہیں۔
کراچی کو نیشنل گرڈ سے علیحدہ کر کے 650 میگاواٹ بجلی کی فراہمی ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ایس ایس جی سی ایل کراچی کے حصے کی 90 ملین کیوبک گیس ایس این جی سی ایل کو منتقل کر رہی ہے، جو ایک گھر کو اندھیرے میں رکھ کر دوسرے گھر کو روشن کرنے کی احمقانہ حکمت عملی کے مترادف ہے۔ آنے والی حکومتوں کو توانائی کے بحران کے حل کے لیے قومی سوچ پیدا کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ چاہے پشاور، لاہور، کراچی یا اسلام آباد کا ہو، متحدہ اس کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے بھی شہر میں بجلی بحران کی سخت مذمت کی اور کہا کہ سخت گرمی میں کے ای ایس سی نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
شہر میں ہوئے ان تمام معاملات اور دھماچوکڑیوں کے ساتھ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے نو منتخب سندھ اسمبلی کا اجلاس آج طلب کر رکھا ہے، جس میں ایوان کے نو منتخب اراکین حلف اٹھائیں گے اور اس کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔ یوں تو پیپلزپارٹی کو صوبے میں حکومت بنانے کے لیے کسی اتحاد کی حاجت نہیں، لیکن اس کے باوجود توقع ہے کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی ایک بار پھر نئی صوبائی حکومت میں اتحادی ہوں گے۔ دوسری طرف ابھی تک متحدہ قومی موومنٹ کی صوبائی حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
متحدہ کے اس حوالے سے جاری ایک بیان کے مطابق انہوں نے ابھی سندھ میں حکومت یا حزب اختلاف میں بیٹھنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، تاہم اب اندرونی سطح پر بڑی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد توقع ہے کہ معمول کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوتے کے ساتھ ہی اس حوالے سے بھی یقیناً کوئی حکمت عملی طے کرلی جائے گی۔ نئی حکومت اور اس کے وزرا کے حوالے سے منظر واضح ہونے کے لیے رواں ہفتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
اس تبدیلی کا سلسلہ یوں تو 19 اور20 مئی کی درمیانی شب اس وقت شروع ہوا جب متحدہ کے قائد الطاف حسین نے کارکنوں سے خطاب کے دوران رابطہ کمیٹی سے یہ شکوہ کیا کہ عمران خان کے الزامات کے جواب میں رابطہ کمیٹی بیٹھی سنتی رہی۔۔۔! ان کے اس خطاب کے دوران کچھ مشتعل کارکنان کی جانب سے بد نظمی بھی دیکھنے میں آئی۔
اس کے بعد الطاف حسین کی جانب سے تنظیم کے اندر تطہیر کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور پہلے کراچی تنظیمی کمیٹی اور پھر رابطہ کمیٹی تحلیل کر دی گئی۔ کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق نگراں حماد صدیقی اپنی بنیادی رکنیت ختم ہوجانے کے بعد بیرون ملک چلے گئے۔
اتوار کے روز کارکنوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کے دوران الطاف حسین نے نئی رابطہ کمیٹی کا اعلان کیا، جس کے مطابق ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر نصرت، ناصر جمال اور ندیم نصرت (لندن) کو نیا ڈپٹی کنوینر بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول اور ڈاکٹر نصرت پچھلی رابطہ کمیٹی میں بھی ڈپٹی کنوینرتھے، تاہم سیاسی منظر سے نسبتاً پرے رہے، اور زیادہ تر ڈاکٹر فاروق ستار اور انیس قائم خانی وغیرہ نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ اس اعتبار سے اب ان پر تنظیم کے حوالے سے خاصی بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔
الطاف حسین نے رابطہ کمیٹی تحلیل کرنے کے بعد چند دن کے لیے عارضی رابطہ کمیٹی بھی تشکیل دی جو نئی رابطہ کمیٹی بننے تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ الطاف حسین نے اس دوران واضح کیا کہ عوام کے لیے مشکلات کا سبب بننے والے عناصر کے لیے متحدہ میں کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کارکنوں کے چندہ مانگنے، زمینوں پر قبضے سمیت ٹھیکے داری وغیرہ میں شامل ہونے کی سخت ممانعت کی اور اس کے لیے قطعی عدم برداشت کے الفاظ استعمال کیے۔ قائد متحدہ نے کسی بھی غلط کام کی شکایات کے لیے لندن فیکس کرنے کی ہدایت کی۔
ساتھ ہی کہا کہ جن کے نام نئی رابطہ کمیٹی میں نہیں آئے ان کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں اور انہیں اصلاح کا وقت دیا جا رہا ہے۔ جو معیار پر پورا اترے گا اور اپنی اصلاح کرے گا، اسے واپس بھی لایا جا سکتا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروںکا کہنا ہے کہ شکست یا مشکلات کے بعد اپنی خامیوں اور کم زوریوں کا جائزہ لینا ہی سود مند اور دانش مندانہ عمل ثابت ہوتا ہے اور متحدہ کی جانب سے بھی اندرونی سطح پر کی جانے والی تبدیلیاں اس ہی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہیں۔ الطاف حسین کی جانب سے کیے جانے والے کڑے اقدام، نظم وضبط کے خلاف سخت شکایات پر ان کے بھر پور ایکشن کا پتا دیتے ہیں۔
دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے شہر میں انتخابی دھاندلی کے خلاف ایک مقامی ہوٹل میں کُل جماعتی کانفرنس منعقد کی گئی۔ جس میں شہر بھر میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کانفرنس میں متحدہ اور اے این پی کی جانب سے شرکت نہیں کی گئی۔ کانفرنس میں نائب چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کے علاوہ کراچی سے نو منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی بھی شریک تھے۔ دیگر راہ نماؤں میں تاج حیدر (پیپلز پارٹی)، محمد حسین محنتی (جماعت اسلامی)، جام مدد علی (فنکشنل لیگ)، اویس نورانی (جمعیت علمائے پاکستان)، نہال ہاشمی (نواز لیگ)، حلیم عادل شیخ (ق لیگ)، جلال محمود شاہ (سندھ یونائیٹڈ پارٹی) ودیگر نے شرکت کی۔
مشترکہ اعلامیے کے موقع پر پیپلزپارٹی اور عوامی تحریک نے فوج کی نگرانی میں انتخابات کرانے کے مطالبے کی مخالفت کی۔ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاج بھی جاری رہا۔ اس حوالے سے بنارس چوک پر منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے بھی فوج کے زیر نگرانی کراچی اور حیدرآباد میں دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ دُہرایا۔ این اے 250 کے انتخاب کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کی کمان حلقہ 239 سے تحریک انصاف کے امیدوار سبحان علی ساحل نے سنبھال لی ہے۔ کیماڑی میں انتخابی دھاندلی کے خلاف دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ کراچی میں سازش کے تحت ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔
انتخابی تنازعات کے ساتھ شہر میں اچانک بڑھنے والا بجلی بحران بھی اہم موضوع بنگیا۔ نام زَد وزیر اعلا پنجاب شہباز شریف نے کراچی میں پیر پگارا کو وفاقی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس موقع پر انہوں نے نہایت معنی خیز انداز میں کہا کہ ''کراچی میں بجلی آتی اور لاہور میں بجلی جاتی ہے۔'' کراچی میں بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کے خلاف نو منتخب رابطہ کمیٹی کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی۔ جس میں رکن رابطہ کمیٹی حیدر عباس رضوی نے کہا کہ اگر ایک گھر کو روشن رکھنے کے لیے دوسرے گھر کو اندھیرے میں دھکیلا گیا تو اس سے وفاقیت متاثر ہوگی۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جوکابینہ کمیٹی کے فیصلوں کو بالائے طاق رکھ کر اس طرح کے فیصلے کر رہے ہیں۔
کراچی کو نیشنل گرڈ سے علیحدہ کر کے 650 میگاواٹ بجلی کی فراہمی ختم کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف ایس ایس جی سی ایل کراچی کے حصے کی 90 ملین کیوبک گیس ایس این جی سی ایل کو منتقل کر رہی ہے، جو ایک گھر کو اندھیرے میں رکھ کر دوسرے گھر کو روشن کرنے کی احمقانہ حکمت عملی کے مترادف ہے۔ آنے والی حکومتوں کو توانائی کے بحران کے حل کے لیے قومی سوچ پیدا کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ چاہے پشاور، لاہور، کراچی یا اسلام آباد کا ہو، متحدہ اس کو اپنا مسئلہ سمجھتی ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے بھی شہر میں بجلی بحران کی سخت مذمت کی اور کہا کہ سخت گرمی میں کے ای ایس سی نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
شہر میں ہوئے ان تمام معاملات اور دھماچوکڑیوں کے ساتھ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے نو منتخب سندھ اسمبلی کا اجلاس آج طلب کر رکھا ہے، جس میں ایوان کے نو منتخب اراکین حلف اٹھائیں گے اور اس کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا۔ یوں تو پیپلزپارٹی کو صوبے میں حکومت بنانے کے لیے کسی اتحاد کی حاجت نہیں، لیکن اس کے باوجود توقع ہے کہ متحدہ اور پیپلزپارٹی ایک بار پھر نئی صوبائی حکومت میں اتحادی ہوں گے۔ دوسری طرف ابھی تک متحدہ قومی موومنٹ کی صوبائی حکومت میں شمولیت یا عدم شمولیت کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آتی۔
متحدہ کے اس حوالے سے جاری ایک بیان کے مطابق انہوں نے ابھی سندھ میں حکومت یا حزب اختلاف میں بیٹھنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، تاہم اب اندرونی سطح پر بڑی تبدیلیوں سے گزرنے کے بعد توقع ہے کہ معمول کی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہوتے کے ساتھ ہی اس حوالے سے بھی یقیناً کوئی حکمت عملی طے کرلی جائے گی۔ نئی حکومت اور اس کے وزرا کے حوالے سے منظر واضح ہونے کے لیے رواں ہفتہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔