نتائج کے خلاف احتجاج میں تشدد کا رنگ دَر آیا
قومی اسمبلی کی2 اور صوبائی اسمبلی کے 4حلقوں میں پیپلزپارٹی کامیاب
عام انتخابات میں ضلع گھوٹکی میں پیپلزپارٹی پارلیمینٹرین نے کلین سوئپ کیا، ضلع کی 2 قومی اور 4 صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر سابق حکمراں جماعت کے امیدواروں نے کام یابی سمیٹی۔
قومی اسمبلی کے حلقے این اے 200 پر پی پی پی کے سردار علی گوہر خان مہر نے 86 ہزار 383 ووٹ حاصل کر کے آزاد امیدوار سردار میر خالد احمد لوند کو شکست دی۔ سردار خالد احمد لوند اس حلقہ سے کئی بار کام یاب ہو چکے ہیں اور یہ ان کا آبائی حلقہ ہے، لیکن اس بار انہیں باہر سے آئے ہوئے سردار علی گوہر خان مہر نے مات دیدی ہے۔
یہ حلقہ اوباڑو، ڈہرکی اور میرپورماتھیلو کی 3 تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں سردار خالد احمد لوند کا بہت اثر رسوخ رہا ہے اور یہ سحر اب ٹوٹ چکا ہے۔ یہاں پر پاکستان پیپلزپارٹی کے نام زَد امیدوار سابق وزیراعلا سندھ سردار علی محمد مہر بھاری اکثریت سے کام یاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے 124453 ووٹ حاصل کر کے دس جماعتی اتحاد کے عطا اللہ بخاری اور آزاد امیدوار عبدالرزاق مہر کو شکست دی۔ یہ حلقہ مہر فیملی کا آبائی حلقہ ہے اور 1988ء کے انتخابات کے سوا کبھی بھی انہیں یہاں سے شکست نہیں ہوئی۔
سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 5 گھوٹکی 1 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار اور دس جماعتی اتحاد کے متفقہ امیدوار نیشنل پیپلزپارٹی کے رہنما سردار شہریار خان شر کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ پی پی پی کے امیدوار ڈاکٹر مہتاب حسین ڈہر 34 ہزار 113 ووٹ لے کر کام یاب ہوئے۔ جام مہتاب ڈہر 2002ء، 2008ء کے بعد اب2013ء میں بھی رکن اسمبلی بن گئے ہیں۔ گھوٹکی تحصیل کی پی ایس6، گھوٹکیII پر پیپلزپارٹی اور دس جماعتی اتحاد کے درمیان مقابلہ ہوا۔
مقابلے میں پی پی پی کے نام زَد امیدوار سردار علی نواز عرف راجا خان مہر 53 ہزار 977 ووٹ لے کر کام یاب ہو چکے ہیں۔ پی ایس7 گھوٹکی III پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے امیدوار درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر عبدالخالق قادری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے سردار احمد علی پتافی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور بالآخر پیپلزپارٹی کا سہ رنگی پرچم کام یاب رہا۔ سردار احمد علی پتافی 40 ہزار 798 ووٹ کے ساتھ سر فہرست رہے اور پیر عبدالخالق قادری صرف 1358 ووٹ سے ناکام رہے۔
پی ایس8 گھوٹکی IV پر بھی فنکشنل اور پیپلزپارٹی کے درمیان مقابلہ ہوا۔ پی پی پی کی جانب سے نوجوان قیادت چیف سردار احمد بخش مہر اور فنکشنل لیگ کی جانب سے بھی نوجوان میر بابر لوند کو میدان میں اتارا گیا۔ پی پی پی کے سردار محمد بخش مہر 61712 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی اور پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بن گئے ہیں۔
دوسری جانب این اے 200 پر ہارنے والے آزاد امیدوار سردار میر خالد احمد خان لوند کے ہزاروں حمایتیوں نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج بھی کیا اور دھرنا بھی دیا۔ خالد لوند نے الزام لگایا کہ اوباڑو اور ڈہرکی میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے۔ جس کے شواہد بھی ہمارے پاس ہیں۔ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی شکایات کے ازالے تک نتائج جاری نہیں کیے جائیں۔
دوسری طرف احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے عدالت میں داخل ہو کر وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران ججوں نے عمارت کی دیواریں پھلانگ کر ایک قریبی گھر میں پناہ لی۔ واقعے کے کئی گھنٹوں بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری عدالت پہنچی جس پر مشتعل افراد فرار ہوگئے۔ اس کی خبریں آنے کے بعد اعلا عدلیہ نے بھی اس کا نوٹس لیا اور رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اوباڑو تھانے پر سول جج محمد اسلام الحق آرائیں کی مدعیت میں سردار میر خالد احمد لوند، میاں شفیق، شہریار شر، نذیر احمد لوند سمیت 3035 افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
اوباڑو میں انتخابی سیاست میں پیش آنے والا اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے اس کی مذمت کی ہے۔ اس طرح کے واقعے کے بعد ڈسرکٹ سیشن جج خالد حسین شاہانی نے اوباڑو بار اور بینچ پہنچ کر ججز اور وکلا سے ہم دردی کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس عمل داروں کی نا اہلی کے باعث یہ واقعہ ہوا ہے اور حکام بالا کو رپورٹس ارسال کر دی ہیں۔11 مئی کو منتخب ہو کر کام یابی کی ہیٹ ٹرک کرنے والے ڈاکٹر جام مہتاب ڈہر گزشتہ دور حکومت میں بھی وزیر رہے اور آئندہ کابینہ میں بھی ان کا نام سر فہرست ہے، جب کہ مرکز میں سردار علی گوہر اور سردار علی محمد مہر حزب اختلاف کی نشستیں سنبھالیں گے۔
قومی اسمبلی کے حلقے این اے 200 پر پی پی پی کے سردار علی گوہر خان مہر نے 86 ہزار 383 ووٹ حاصل کر کے آزاد امیدوار سردار میر خالد احمد لوند کو شکست دی۔ سردار خالد احمد لوند اس حلقہ سے کئی بار کام یاب ہو چکے ہیں اور یہ ان کا آبائی حلقہ ہے، لیکن اس بار انہیں باہر سے آئے ہوئے سردار علی گوہر خان مہر نے مات دیدی ہے۔
یہ حلقہ اوباڑو، ڈہرکی اور میرپورماتھیلو کی 3 تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ اس حلقے میں سردار خالد احمد لوند کا بہت اثر رسوخ رہا ہے اور یہ سحر اب ٹوٹ چکا ہے۔ یہاں پر پاکستان پیپلزپارٹی کے نام زَد امیدوار سابق وزیراعلا سندھ سردار علی محمد مہر بھاری اکثریت سے کام یاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے 124453 ووٹ حاصل کر کے دس جماعتی اتحاد کے عطا اللہ بخاری اور آزاد امیدوار عبدالرزاق مہر کو شکست دی۔ یہ حلقہ مہر فیملی کا آبائی حلقہ ہے اور 1988ء کے انتخابات کے سوا کبھی بھی انہیں یہاں سے شکست نہیں ہوئی۔
سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 5 گھوٹکی 1 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار اور دس جماعتی اتحاد کے متفقہ امیدوار نیشنل پیپلزپارٹی کے رہنما سردار شہریار خان شر کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ پی پی پی کے امیدوار ڈاکٹر مہتاب حسین ڈہر 34 ہزار 113 ووٹ لے کر کام یاب ہوئے۔ جام مہتاب ڈہر 2002ء، 2008ء کے بعد اب2013ء میں بھی رکن اسمبلی بن گئے ہیں۔ گھوٹکی تحصیل کی پی ایس6، گھوٹکیII پر پیپلزپارٹی اور دس جماعتی اتحاد کے درمیان مقابلہ ہوا۔
مقابلے میں پی پی پی کے نام زَد امیدوار سردار علی نواز عرف راجا خان مہر 53 ہزار 977 ووٹ لے کر کام یاب ہو چکے ہیں۔ پی ایس7 گھوٹکی III پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے امیدوار درگاہ عالیہ بھرچونڈی شریف کے سجادہ نشین پیر عبدالخالق قادری اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے سردار احمد علی پتافی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا اور بالآخر پیپلزپارٹی کا سہ رنگی پرچم کام یاب رہا۔ سردار احمد علی پتافی 40 ہزار 798 ووٹ کے ساتھ سر فہرست رہے اور پیر عبدالخالق قادری صرف 1358 ووٹ سے ناکام رہے۔
پی ایس8 گھوٹکی IV پر بھی فنکشنل اور پیپلزپارٹی کے درمیان مقابلہ ہوا۔ پی پی پی کی جانب سے نوجوان قیادت چیف سردار احمد بخش مہر اور فنکشنل لیگ کی جانب سے بھی نوجوان میر بابر لوند کو میدان میں اتارا گیا۔ پی پی پی کے سردار محمد بخش مہر 61712 ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی اور پہلی مرتبہ رکن اسمبلی بن گئے ہیں۔
دوسری جانب این اے 200 پر ہارنے والے آزاد امیدوار سردار میر خالد احمد خان لوند کے ہزاروں حمایتیوں نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاج بھی کیا اور دھرنا بھی دیا۔ خالد لوند نے الزام لگایا کہ اوباڑو اور ڈہرکی میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی ہے۔ جس کے شواہد بھی ہمارے پاس ہیں۔ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کی شکایات کے ازالے تک نتائج جاری نہیں کیے جائیں۔
دوسری طرف احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے عدالت میں داخل ہو کر وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس دوران ججوں نے عمارت کی دیواریں پھلانگ کر ایک قریبی گھر میں پناہ لی۔ واقعے کے کئی گھنٹوں بعد پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری عدالت پہنچی جس پر مشتعل افراد فرار ہوگئے۔ اس کی خبریں آنے کے بعد اعلا عدلیہ نے بھی اس کا نوٹس لیا اور رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اوباڑو تھانے پر سول جج محمد اسلام الحق آرائیں کی مدعیت میں سردار میر خالد احمد لوند، میاں شفیق، شہریار شر، نذیر احمد لوند سمیت 3035 افراد کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
اوباڑو میں انتخابی سیاست میں پیش آنے والا اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ ہے اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے اس کی مذمت کی ہے۔ اس طرح کے واقعے کے بعد ڈسرکٹ سیشن جج خالد حسین شاہانی نے اوباڑو بار اور بینچ پہنچ کر ججز اور وکلا سے ہم دردی کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس عمل داروں کی نا اہلی کے باعث یہ واقعہ ہوا ہے اور حکام بالا کو رپورٹس ارسال کر دی ہیں۔11 مئی کو منتخب ہو کر کام یابی کی ہیٹ ٹرک کرنے والے ڈاکٹر جام مہتاب ڈہر گزشتہ دور حکومت میں بھی وزیر رہے اور آئندہ کابینہ میں بھی ان کا نام سر فہرست ہے، جب کہ مرکز میں سردار علی گوہر اور سردار علی محمد مہر حزب اختلاف کی نشستیں سنبھالیں گے۔