دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ جاری

ہارنے والوں کی عوام سے اظہار تشکر کی نئی روایت

پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے الیکشن مہم کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ خود بھی اس بات سے بہ خوبی آگاہ رہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو کبھی بھی اتنی عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس قدر حالیہ انتخابات کے دوران دیکھنے میں آئی۔فوٹو : فائل

2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں کام یاب امیدواروں کی حقیقی آزمایش شروع ہوگئی ہے کہ انھوں نے جو وعدے کیے تھے ان کی تکمیل کے لیے وہ کیا حکمت عملی طے کرتے ہیں۔

2002ء کے عام انتخابات میں پی ایس 40 پر پیپلزپارٹی کے امیدوار کے مقابلے میں آزاد امیدوار سرسلطان احمدکھاوڑ کو کام یابی دلائی، لیکن وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے اور بدقسمتی سے خوشامدیوں کے چنگل میں پھنس گئے۔ جس کے نتائج انہیں اس انتخابات میں بھگتنے پڑے اور انہیں اس بار صرف چند سو ووٹ مل سکے۔ اس بار بھی 2002ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ لوگوں کے دلوں میں پیپلزپارٹی اور اس کے امیدواروں کے لیے نفرت تھی، مگر مخالف امیدواروں کی نااہلی، غیر سنجیدگی اور الیکشن کو صرف تماشا سمجھنے کے باعث جیتی ہوئی بازی کو شکست میں تبدیل کر دیا۔

پیپلزپارٹی کے امیدواروں نے الیکشن مہم کے دوران اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ خود بھی اس بات سے بہ خوبی آگاہ رہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو کبھی بھی اتنی عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جس قدر حالیہ انتخابات کے دوران دیکھنے میں آئی۔

این اے 207 شہداد کوٹ رتو ڈیرو سے صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے مد مقابل جے یو آئی کے نام زَد امیدوار سابق سینیٹر ڈاکٹرخالد محمود سومرو نے الیکشن میں ناکامی کے باوجود اپنے حلقے کے لوگوں سے ملاقات کرکے ان کا شکریہ ادا کیا، بعد ازاں مدرسہ اشاعت القرآن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد محمود سرمرو نے کہا کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابات کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہوا ہے۔ اس انتخابات میں دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے گئے۔ شکایات کے باوجود ہماری ایک نہ سنی گئی۔


الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کے ذریعے ہمیں لڑایا گیا، مگر عوام کے اعتماد کیے جانے پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی کے امیدوار نظیرحسین مگسی نے بھی اپنے حامی ووٹروں کا شکریہ ادا کیا۔ شہداد کوٹ کی تاریخ میں پہلی بار یہ عمل دیکھنے میں آیا کہ الیکشن ہارنے والے امیدوار لوگوں کے پاس جاکر حمایت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔

دوسری جانب منتخب نمائندوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ماضی کی روش کو ترک کر کے اپنے حلقے کے تمام لوگوں کی بلاامتیاز خدمت کریں۔ اس وقت شہداد کوٹ میں امیدوں کا مرکز فریال تالپور اور میر نادر علی خان مگسی ہیں۔ جن پر برسوں سے جاری مسائل کے حل کی ذمہ داری عاید ہوتی ہے، جو حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے جوں کے توں پڑے ہیں۔ اس وقت شہداد کوٹ کے سب سے بڑے اور اہم مسئلے پینے کے میٹھے پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا نظام کی بہتری، ہیلتھ کے مسائل، سڑکوں کی تعمیر اور روزگارکی فراہمی وغیرہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران پبلک اسکول کا میگا پراجیکٹ مکمل نہ ہو سکا۔ جس کا فریال تالپو نے دوبار سنگ بنیاد رکھا مگر آج بھی وہ نامکمل ہے۔ انھوں نے تعلقہ اسپتال میں ہیپٹاٹائٹس مرکز کا افتتاح کیا تاہم مرکز صرف افتتاحی بورڈ تک محدود رہا ہے۔ اگر یہ صورت حال رہی تو پھر مسائل برسوں تک جوں کے توں رہیں گے اور لوگ مسائل کے حل کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے روایتی حلقہ انتخاب کی ابتر حالت کو بہتر بنانا منتخب نمائندوں کی اولین ذمہ داری ہے۔

اگر انھوں نے محترمہ کی روح کے ساتھ انصاف نہ کیا تو پھر وہ عوامی مزاحمت سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کو باہمی اختلافات ختم کر کے ضلع کے اندر لوگوں کے بنیادی مسائل حل کریں۔ سابقہ پالیسی کو اپنانے کے بجائے بلا امتیاز لوگوں کو ریلیف فراہم کریں۔ ضلع میں دو قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کے منتخب ارکان ہیں، اگر وہ ماضی کے برعکس صرف اپنے اپنے حلقے کے مسائل کے حل پر توجہ دیں۔ ملنے والے فنڈز ایمان داری سے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں تو شاید لوگ کافی حد تک مسائل سے چھٹکارا پاسکیں۔ اب دیکھنا ہے کہ منتخب نمائندے اپنے حلقے کے لوگوں کو ریلیف دینے کے لیے کیا اقدام کرتے ہیں۔
Load Next Story