پیپلز پارٹی کا سندھ میں دیگر جماعتوں کو حکومت میں شامل کرنے کا فیصلہ

سندھ میں حکومت سازی کے لیے اسٹیج تیار ہے ، نومنتخب سندھ اسمبلی کا اجلاس آج منعقد ہورہا ہے جس میں نو منتخب ارکان حلف...


G M Jamali May 28, 2013
فوٹو : فائل

سندھ میں حکومت سازی کے لیے اسٹیج تیار ہے ، نومنتخب سندھ اسمبلی کا اجلاس آج منعقد ہورہا ہے جس میں نو منتخب ارکان حلف اٹھائیں گے ۔

یہی اسمبلی آئندہ ایک دو روز میں قائد ایوان کا انتخاب کرے گی اور اس سے ایک بار پھر صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوجائے گی۔ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ حکومت سازی کے لیے اسے کسی دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم پیپلزپارٹی کی یہ کوشش ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ، مسلم لیگ (ن) ، فنکشنل مسلم لیگ اور تحریک انصاف کو بھی حکومت میں شامل کرے ، مفاہمت کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے پارٹی رہنماؤں کو خصوصی ہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔ مذکورہ جماعتیں حکومت میں شامل ہوں یا نہ ہوں لیکن پیپلز پارٹی نے مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی اسمبلی سے باہر سیاسی جماعتوں سے بھی رابطے کر رہی ہے تاکہ صوبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موثر حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔



گزشتہ ہفتے کا سب سے اہم واقعہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں شہبازشریف کی کراچی آمد تھا، انھوں نے اس دورے کے دوران ایم کیو ایم کی قیادت سے کوئی رابطہ نہیں کیا ۔ وہ پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل ) کو وفاقی حکومت میںشمولیت کی دعوت دینے کے لیے کراچی آئے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں حُروں کے روحانی پیشوا اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر پگارا سے ملاقات کی ۔ میاں شہبازشریف نے اس دورے میں یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم کے ساتھ کوئی سیاسی اتحاد قائم نہیں کرنا چاہتی اور وفاقی حکومت میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا جائے گا ۔ اس صورت حال پر ایم کیو ایم کی قیادت کا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ۔

شاید ایم کیو ایم کی قیادت بھی یہ طے کرچکی ہے کہ وہ بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے رابطہ نہیں کرے گی لیکن سندھ حکومت میں شمولیت کے حوالے سے بھی ایم کیو ایم نے کوئی حکمت عملی ابھی تک واضح نہیں کی ہے ۔ سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ عام انتخابات کے فوراًبعد ایم کیو ایم کے اندر پیدا ہونے والے بحران اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تطہیری عمل کی وجہ سے ایم کیو ایم کی قیادت نے سارے معاملات خوش اسلوبی سے حل کرلیے ہیں ۔ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کے خلاف کراچی میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے ۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا بھی اعلان کردے گی ۔



اس مرتبہ پیپلزپارٹی عجیب وغریب حالات میں سندھ میں حکومت تشکیل دے رہی ہے۔ 1971ء سے اب تک جب بھی پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت بنائی ہے، وفاق میں بھی اس کی حکومت ہوتی تھی۔ پہلی دفعہ ایسا ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت بنارہی ہے اور اسلام آباد میں اس کی حکومت نہیں ہے ۔1971ء، 1977ء، 1988ء، 1993ء اور 2008ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی مرکز اور سندھ میں حکومتیں تھیں ۔1990ء اور 1997ء کے عام انتخابات میں اگرچہ سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی اکثریت تھی لیکن صوبے میں اسے حکومت نہیں بنانے دی گئی ۔ پیپلزپارٹی کے ارکان کو توڑا گیا اور اسمبلی میں اس کی سادہ اکثریت کو ختم کرنے کے لیے متعدد حربے استعمال کیے گئے ۔

پیپلز پارٹی اپنے قیام سے لے کر آج تک پہلی مرتبہ وفاق میں اپنی حکومت نہ ہونے کے باوجود سندھ میں حکومت بنا رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس حکومت کو چلنے دیا جائے گا ؟ پیپلز پارٹی کے بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ1988ء، 1993ء اور 2008ء کے عام انتخابات کے بعد مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور اس نے ان ادوار میں نہ صرف پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومتوں کو خوش دلی سے قبول کیا بلکہ مکمل تعاون بھی کیا ۔

اب مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے لیے خیرسگالی کے اسی جذبے کا اظہار کرے گی لیکن پیپلزپارٹی کے بعض دیگر حلقے اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پیپلزپارٹی کے ساتھ کبھی رعایت نہیں کی گئی اور اسے کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع ضایع نہیں کیا گیا ہے ۔ بعض قوتیں اب بھی یہ کوشش کریں گی کہ پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکومت نہ چلنے دی جائے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بعض خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ انتخابی عذرداریاں الیکشن ٹریبونلز کی بجائے براہ راست ہائی کورٹ میں دائر کی جا رہی ہیں اور یہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت کو ختم کرنے کا ایک حربہ ہے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس 88 ٹھٹھہ سے نومنتخب رکن اویس مظفر بھی بارہا اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا جائے گا ۔

ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے پورے ملک میں پیپلز پارٹی کا مینڈیٹ چرانے میں کامیابی حاصل کی وہ سندھ کا مینڈیٹ بھی چرانے کی کوشش کریں گے لیکن پیپلز پارٹی ملک کے سیاسی اور جمہوری استحکام کے لیے پر امن طریقے سے ان سازشوں کا مقابلہ کرے گی ۔

پیپلزپارٹی کی قیادت کے ان خیالات کے پیش نظر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو کس طرح تبدیل کیا جائے گا ؟ حالانکہ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد سادہ اکثریت سے بھی زیادہ ہے۔ سندھ اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں میں 118 نشستوں پر کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے ۔ 12 نشستوں کا نتیجہ نہیں آیا ہے ۔ ان 12 نشستوں میں سے بھی زیادہ تر پیپلز پارٹی کو ملنے کی توقع ہے ۔ 118 نوٹیفائیڈ نشستوں میں سے67 نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس ہیں ۔

اس تناسب سے اسے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی ملیں گی ۔ 168 کے ایوان میں حکومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کو کل 85 نشستوں کی ضرورت ہے ۔ اس کے پاس90 سے زیادہ نشستیں ہوجائیں گی ۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کوئی رکن فلور کراسنگ بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنی پارٹی تبدیل کرسکتا ہے ۔

کسی پارٹی میں فارورڈ بلاک بنانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسمبلی میں اس پارٹی کے 51 فیصد ارکان فارورڈ بلاک میں شامل ہوں ۔ اس بات کا بھی سندھ اسمبلی میں کوئی امکان نہیں ہے تو پھر پیپلزپارٹی کی سندھ اسمبلی میں اکثریت کو کیسے ختم کیا جائے گا ۔ ایک تھیوری یہ بھی چل رہی ہے کہ فی الحال پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں حکومت بنانے دی جائے گی ۔ اس حکومت سے مسلم لیگ (فنکشنل) ، مسلم لیگ (ن) ، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کو باہر رکھا جائے گا۔

ایک سال کے بعد پیپلزپارٹی کے آٹھ دس ارکان کو استعفیٰ دلواکر ان کی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے اور ان ارکان کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ دیئے جائیں گے ۔ اس ایک سال کے عرصے میں پیپلز پارٹی میں جو لوگ ''ناراض'' ہوں گے ان پر کام کیا جائے گا ۔

توقع کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سندھ میں ایسا نہیں کرے گی ۔ وہ وفاق پاکستان کے استحکام کو درپیش چینلنجوں سے آگاہ ہے۔ اگر یہ تھیوری کچھ لوگوں کے ذہن میں ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرنے دے گی ۔ دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی نئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سندھ کی حکومت کو چلانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ سندھ کے لوگ اس بات کی بھی توقع کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کوئی غیر معمولی اور غیر روایتی اقدامات کریں گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔