مثنوی زہر تعلیم

ویسے تو یہ مثنوی ’’ زہر عشق ‘‘ کی پیروڈی ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو اسے ’’ مثنوی قہر تعلیم ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq September 07, 2018
[email protected]

جس محلے میں تھا ہمارا گھر

اس میں رہتا تھا ایک کاریگر

کام لوہے کا کر رہا تھا وہ

بال بچوں کو پالتا تھا وہ

بیٹا اس کا تھا اک ''سیاہ جبیں''

کام کرتا تھا وہ بھی ساتھ وہیں

پھر این جی اوز نے کمال کیا

پڑھا لکھا کے لازوال کیا

ڈگری ایم اے کی اس نے حاصل کی

نوکری کے لیے پھر فائل کی

آج کل دفتروں میں پھرتا ہے

نو ویکنسی کی جاب سنتا ہے

چھوٹے اس کے جو تین بھائی تھے

چند سالوں میں وہ لوہار بنے

اور پھر صاحب روز گار بنے

بڑا بھائی جو ایم اے فائنل تھا

خود کشی کی طرف وہ مائل تھا

ویسے تو یہ مثنوی '' زہر عشق '' کی پیروڈی ہے لیکن اگر آپ چاہیں تو اسے '' مثنوی قہر تعلیم '' بھی کہہ سکتے ہیں اور زہر تعلیم بھی۔ہم اکثر جب پڑوسی ملک افغانستان کی تاریخ پڑھتے ہیں تو اپنی بے پناہ '' بصیرت '' (جوپاکستانیوں میں بہت زیادہ ہے ) کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ افغانستان کا شاہ غازی امان اللہ اور پھر اس کے بعد نور محمد ترکئی وہ احمق تھے جو غلط زمین میں غلط بیچ غلط وقت پر بو رہے تھے جس کے نتیجے میں اس ملک کے اندر یا کھیت ہی سمجھ لیجیے کچھ '' اُگا'' تو نہیں لیکن گھاس پھوس بے پناہ آگ آئی جسے چرنے کے لیے دنیا جہاں کے ہاتھی، گھوڑے، گدھے، بیل اور سانڈ آرہے ہیں کچھ چر رہے ہیں اور کچھ روند رہے ہیں یہی نتیجہ ہوتا ہے۔

غلط زمین میں غلط فصل غلط وقت پر بونے کا ۔

میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقان کا

اُگا ہے گھر میں ہر سو سبزہ و پرالی تماشا ہو

مدار اب کھودنے کے گھاس پر ہے میرے دربان کا

غازی امان اللہ جب یورپ سے لوٹ کر بادشاہ ہوا تو اس نے سوچا کہ افغانستان کو بھی یورپ کی طرح ماڈرن اور تعلیم یافتہ بنانا چاہیے اور یہ بھول گیا کہ ہر فصل کاشت کرنے کا دارومدار فصل یا بیج پر نہیں ہوتا ہر فصل کے لیے زمین، موسم اور آب و ہوا بھی لازماً مناسب ہونا چاہیے لیکن اس نے نہ سوچا نہ سمجھا نہ دیکھا نہ بھالا

نہ جوتا نہ کھودا مگر بیج ڈالا

نتیجہ یہ ہوا کہ خود بھی حکومت کھو بیٹھا اور افغانستان کو بھی مزید '' بنجر '' بنا ڈالا ۔ لیکن نور محمد ترکئی نے باوجود ایک ادیب ہونے کے تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیا۔ اسے بھی غازی امان اللہ خان کی طرح احمق اور بے وقوف ساتھی اور مشیر مل گئے اور یہ افغانستان پر ایک ایسی تباہی نازل کر گئے جو نہ جانے کب تھمے یا بالکل نہ ہی تھمے کیونکہ اب تو کھیت چرنے والے جانوروں کے قبضے میں ہے ۔پاکستان میں چاہے صورت شکل کچھ بدلی ہوئی ہو لیکن ماڈرن اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے آنے والا ہر فیشن ایبل نظریہ اپنانے کا مرض پایا جاتا ہے۔

اس وقت بھی بیک وقت کئی فیشن ایبل نعرے چل رہے ہیں جن میں سے ایک ''لٹریسی'' اور پڑھا لکھا پاکستان کا نعرہ سب سے زیادہ زور دار ہے ۔ اور چونکہ یہ '' بارآمد '' بھی بہت ہے، اس لیے گلی، گلی، کوچے، کوچے اور چپے چپے پر تعلیم فروشی کی دکانیں چھابڑیاں ٹھیلے اور کیبن کھل رہے ہیں ایک طرف محکمہ تعلیم تقریباً زیرو بجٹ تعلیم کے لیے سرگرم ہے اور چونکہ طریقہ تعلیم وہی لارڈ میکالے اور بابو پیدا کرنے کے لیے وضع کیا تھا اور ابھی تک چل رہا ہے اور مذکورہ'' مال '' دھڑا دھڑا پراڈکٹ کر رہی ہے ۔اس کے دیکھا دیکھی عیسائی تبلیغی مشینری سے اُگی ہوئی انگریزی میڈیم ہے جس کے نصابوں میں ابھی تک یونانی اور رومی دیو مالائیں نصاب کا حصہ ہیں جو زیادہ تر ہومر اورشیکسپئر شعراء کا نتیجہ فکر ہیں۔

اب بھلا دینی کاروبار والے کہاں پیچھے رہتے ہیں سو وہ بھی تھوک کے حساب سے'' علم ''پھیلا رہے ہیں جس کا بنیادی نکتہ دنیا بیزاری اور فکر آخرت پر مشتمل ہے۔ اب یہ تینوں طرز تعلیم اگر سارے ملک کے بچے بچے کو لٹریسی سے لیس کرکے پڑھا لکھا بنادیں گے تو ان سب کے لیے '' کام نہ کرنے '' کی نوکریاں کہاں سے آئیں گی ۔ کیونکہ تینوں ذرایع تعلیم میں کچھ اُگانا، بنانا، تعمیر کرنا، ایجاد کرنا تو سیکھا ہی نہیں جاتا صرف نوکری کرنا سکھایا جاتا ہے یا زیادہ سے زیادہ افسری اور رہنمائی کرنا ۔

میں اکثر بعض '' تعلیمی '' اداروں کی تقریبات میں بلایا جاتا ہوں ممکن حد تک تو ہم بچنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اتنے وسیع پیمانے پر بچوں کو بیکار اور محتاج بنانے کا یہ ظلم ہم سے دیکھا نہیں جاتا۔ ایسے موقع پر اکثراکبر الہ آبادی کا وہ مشہور مزاحیہ شعر ایک مکمل'' المیہ '' کے طور پر یاد آتا ہے،

یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

شعر بہت زیادہ عام ہے اس لیے اپنی معنومیت کھو چکا ہے لیکن حقیقت اپنی جگہ بہر حال موجود ہے۔ مجبوراً جب کسی ایسی تعلیمی تقریب میں جانا پڑ جاتا ہے تو ہم وہاں صرف ایک ہی بات کہتے ہیں کہ خدا کے لے بابو، نوکر، ڈاکٹر، انجینئر اور وکیل ضرور بناؤ لیکن ساتھ ہی'' انسان '' بھی بنادیا کرو۔ اسی لیے تو ہم مذکورہ پیشہ وروں کا رونا روتے ہیں کہ ان میں انسانیت نہیں ہوتی۔

فیشن ایبل نعروں جن سے کچھ لوگ کماتے بھی ہیں ان کو یک طرف کرکے دیکھیے تو چائلڈ لیبر اور پڑھے لکھے میں فرق یہی ہوتا ہے کہ چائلڈ لیبر سے نکلا ہوا اپنی روزی خود کماتا ہے اور پڑھا لکھا دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، چائلڈ لیبر والا چند سال سختیاں جھیل کر باقی زندگی آرام سے گزارتا ہے اور پڑھا لکھا چند سال '' آرام '' میں ضایع کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آرام رہتا ہے اگر زندہ رہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تعلیم بری ہے لیکن زمین اور موسم بھی تو سازگار ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں