نگرانوں کی نقصان دہ نگرانی
پہلے با اختیار صدر مرضی کی نگراں مقررکرتے تھے اور مرضی کے نتائج حاصل کرتے تھے۔
پاکستان میں منتخب حکومت اپنی مقررہ مدت پوری کرے یا نہ کرے مگر اب یہ بات آئین کا حصہ ہے کہ ملک میں عام انتخابات کرانے کے لیے ملک میں نگراں حکومتیں قائم ہوںگی۔ جن کی نگرانی میں تین ماہ میں الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کا عمل مقرر کرے گا اور نئی اسمبلیاں اپنے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو منتخب کرلیںگی تو نئے حکمران آتے ہی نگرانوں کی نگراں حکومتیں ختم ہوجائیںگی۔ نگراں حکومتوں کا سلسلہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں اور مدت پوری کرنے والی حکومتیں ہی وہاں عام انتخابات کراتی ہیں اور با اختیار الیکشن کمیشن ان کے اختیارات آئینی حدود میں رکھتا ہے اور انتخابات ہوجاتے ہیں۔
1970ء میں فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے متحدہ پاکستان میں جو انتخابات کرائے تھے انھیں کافی حد تک منصفانہ اور شفاف قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ نے یہ سوچ کر انتخابات کرائے تھے کہ معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اور کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کرے گی اور سب پارٹیاں ان کی محتاج ہوںگی تو وہ مرضی کی حکومت بنواکر خود کو صدر منتخب کروالیں گے اور اقتدار میں رہیںگے مگر انتخابات کے نتائج ان کی توقعات کے خلاف آئے۔
اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار نہ منتقل کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی جس میں ''ادھر تم، ادھر ہم'' اور مشرقی پاکستان میں منعقدہ نئی اسمبلی کے اجلاس میں جانے کے خواہش مندوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دینے والوں کو شاید پتہ نہیں تھا کہ بھارت ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے پاکستان سے جنگ کرے گا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دے گا۔ ملک کے دو لخت ہونے کی وجہ سے جنرل یحییٰ کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی کو باقی ملک کا اقتدار مل گیا۔
جس کے وزیراعظم بھٹو نے بعد میں بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں بھی اپنی حکومتیں بنوالیں اور 1977ء میں قبل از وقت کسی نگرانوں کے بغیر اپنی ہی حکومت میں انتخابات کراکر مرضی کی اکثریت حاصل کرکے دوبارہ حکومت بنالی جس کی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں ملک کو طویل ترین مارشل لا بھگتنا پڑا۔ آٹھ سال بعد جنرل ضیا نے اپنی حکومت میں غیر جماعتی انتخابات کرائے جس میں جونیجو حکومت وجود میں آئی، جمہوری بننے کی کوشش میں اپنی مدت گنوائی اور برطرف ہوئی۔
جس کے نتیجے میں واحد وزیراعلیٰ نواز شریف پھر پنجاب میں اقتدار میں رکھے گئے مگر جنرل ضیا الحق کو 1988ء کے انتخابات کے نتائج دیکھنا نصیب نہ ہوئے تو عوام نے کھل کر ووٹ دیے اور پیپلزپارٹی اکثریت لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ مگر دو سال ہی چل سکی اور منتخب صدر غلام اسحاق خان نے پی پی پی حکومت برطرف کرکے غلام مصطفی جتوئی کو پہلی بار نگراں وزیراعظم بناکر 1990ء میں نگرانوں کی حکومت کی ابتدا کی اور گزشتہ 28 سالوں سے ملک میں نگراں وزیراعظم اور نگراں وزرائے اعلیٰ مقرر ہوتے ہیں جو اپنی مرضی یا کسی اور کی مرضی کے وزیر بناتے ہیں اور منصفانہ کے بجائے متنازعہ انتخابات کراکر حکومتی مزے لے کر چلے جاتے ہیں اور ملک میں دھاندلی، دھاندلیوں کا شور چھوڑ جاتے ہیں۔
پہلے با اختیار صدر مرضی کی نگراں مقررکرتے تھے اور مرضی کے نتائج حاصل کرتے تھے جس کے بعد دو بڑی پارٹیوں نے طے کیا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک پر متفق ہوکر اسے نگراں وزیراعظم بنائیںگے اور اتفاق نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نگراں مقرر کرے گا۔ 2013ء میں اتفاق نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے ریٹائرڈ جج ہزار خان کھوسہ کو نگراں وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ مقرر کیے تھے جنھوں نے اپنی پسندیدہ پارٹیوں کو نوازا۔
اس وقت پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر عمران خان نے مسلسل 35 پنکچر لگانے کا الزام لگاتے رہے جو ثابت نہ ہوئے اور اب مسلم لیگ ن عمران خان کے حامی متنازعہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب پر شدید دھاندلیوں کے الزامات لگا رہی ہے اور باقی تین وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں پروفیسر حسن عسکری نے اپنی جانبداری خود ہی ثابت کردی تھی کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کامیاب ہوگئی اور پھر وہ مبارکباد دینے نو منتخب اسپیکر پرویز الٰہی کے گھر بھی گئے۔ وہ ماضی میں مسلم لیگ ن کی کھلی مخالفت کرتے تھے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن نے انھیں نگراں بنانے پر اعتراض بھی کیا تھا مگر انھیں نگراں بنانے والوں نے نہیں سنی تھی مگر حسن عسکری نے پارٹی بن کر پنجاب میں الیکشن کرائے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
2013ء کے نگراں وزیراعظم نے اپنے شہر صحبت پورکو ضلع بنوایا تھا اور 2018ء کے نگراں وزیراعظم ملک میں تفریح کرتے اور سوٹ پہننے کا شوق پورا کرتے رہے اور ان کی حکومت نے ایسے فیصلے بھی کیے جس کی وہ مجاز نہیں تھی۔ ان کے نگراں وزیر قانون و اطلاعات علی ظفر نے ڈھائی ماہ میں کروڑوں روپے بار ایسوسی ایشن کو خوش کرنے کے لیے بانٹ دیے۔
عمران خان نے نگراں وزیراعظم سے ایک وفاقی سیکریٹری کا تبادلہ کرایا جو غلط تھا۔ سابق نگراں وزیراعظم ناصر الملک پر سوات کے نجی دورے کے لیے سرکاری اخراجات کے استعمال کا بھی الزام ہے کہ وہ سرکاری مصروفیات میں ریاستی ذمے داریاں ادا کرنے کی بجائے تفریح اور پروٹوکول استعمال کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ پہنچا ہوا ہے جو خود بڑے سرمایہ دار اور سپریم کورٹ کے سربراہ رہے ہیں۔ یہ نگرانوں کا حال رہا ہے جو فائدے اٹھانے آتے ہیں اور غلط کام کرکے چلے جاتے ہیں تو ایسے نگرانوں کا کیا فائدہ جو عارضی طور پر لائے جاتے ہیں۔ نگرانوں سے بہتر ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل نگرانی کرے تاکہ جانے والی حکومت شاید جاتے جاتے عوام کا بھلا کر جائے اور ملک و قوم کا ٹیکس مزید تباہی سے محفوظ رہ سکے۔
1970ء میں فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے متحدہ پاکستان میں جو انتخابات کرائے تھے انھیں کافی حد تک منصفانہ اور شفاف قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جنرل یحییٰ نے یہ سوچ کر انتخابات کرائے تھے کہ معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی اور کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کرے گی اور سب پارٹیاں ان کی محتاج ہوںگی تو وہ مرضی کی حکومت بنواکر خود کو صدر منتخب کروالیں گے اور اقتدار میں رہیںگے مگر انتخابات کے نتائج ان کی توقعات کے خلاف آئے۔
اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار نہ منتقل کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی جس میں ''ادھر تم، ادھر ہم'' اور مشرقی پاکستان میں منعقدہ نئی اسمبلی کے اجلاس میں جانے کے خواہش مندوں کی ٹانگیں توڑ دینے کی دھمکیاں دینے والوں کو شاید پتہ نہیں تھا کہ بھارت ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے پاکستان سے جنگ کرے گا اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دے گا۔ ملک کے دو لخت ہونے کی وجہ سے جنرل یحییٰ کو اقتدار چھوڑنا پڑا تو پنجاب اور سندھ میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی کو باقی ملک کا اقتدار مل گیا۔
جس کے وزیراعظم بھٹو نے بعد میں بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں بھی اپنی حکومتیں بنوالیں اور 1977ء میں قبل از وقت کسی نگرانوں کے بغیر اپنی ہی حکومت میں انتخابات کراکر مرضی کی اکثریت حاصل کرکے دوبارہ حکومت بنالی جس کی دھاندلیوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں ملک کو طویل ترین مارشل لا بھگتنا پڑا۔ آٹھ سال بعد جنرل ضیا نے اپنی حکومت میں غیر جماعتی انتخابات کرائے جس میں جونیجو حکومت وجود میں آئی، جمہوری بننے کی کوشش میں اپنی مدت گنوائی اور برطرف ہوئی۔
جس کے نتیجے میں واحد وزیراعلیٰ نواز شریف پھر پنجاب میں اقتدار میں رکھے گئے مگر جنرل ضیا الحق کو 1988ء کے انتخابات کے نتائج دیکھنا نصیب نہ ہوئے تو عوام نے کھل کر ووٹ دیے اور پیپلزپارٹی اکثریت لے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ مگر دو سال ہی چل سکی اور منتخب صدر غلام اسحاق خان نے پی پی پی حکومت برطرف کرکے غلام مصطفی جتوئی کو پہلی بار نگراں وزیراعظم بناکر 1990ء میں نگرانوں کی حکومت کی ابتدا کی اور گزشتہ 28 سالوں سے ملک میں نگراں وزیراعظم اور نگراں وزرائے اعلیٰ مقرر ہوتے ہیں جو اپنی مرضی یا کسی اور کی مرضی کے وزیر بناتے ہیں اور منصفانہ کے بجائے متنازعہ انتخابات کراکر حکومتی مزے لے کر چلے جاتے ہیں اور ملک میں دھاندلی، دھاندلیوں کا شور چھوڑ جاتے ہیں۔
پہلے با اختیار صدر مرضی کی نگراں مقررکرتے تھے اور مرضی کے نتائج حاصل کرتے تھے جس کے بعد دو بڑی پارٹیوں نے طے کیا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک پر متفق ہوکر اسے نگراں وزیراعظم بنائیںگے اور اتفاق نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نگراں مقرر کرے گا۔ 2013ء میں اتفاق نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے ریٹائرڈ جج ہزار خان کھوسہ کو نگراں وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ مقرر کیے تھے جنھوں نے اپنی پسندیدہ پارٹیوں کو نوازا۔
اس وقت پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر عمران خان نے مسلسل 35 پنکچر لگانے کا الزام لگاتے رہے جو ثابت نہ ہوئے اور اب مسلم لیگ ن عمران خان کے حامی متنازعہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب پر شدید دھاندلیوں کے الزامات لگا رہی ہے اور باقی تین وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں پروفیسر حسن عسکری نے اپنی جانبداری خود ہی ثابت کردی تھی کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کامیاب ہوگئی اور پھر وہ مبارکباد دینے نو منتخب اسپیکر پرویز الٰہی کے گھر بھی گئے۔ وہ ماضی میں مسلم لیگ ن کی کھلی مخالفت کرتے تھے جس کے نتیجے میں مسلم لیگ ن نے انھیں نگراں بنانے پر اعتراض بھی کیا تھا مگر انھیں نگراں بنانے والوں نے نہیں سنی تھی مگر حسن عسکری نے پارٹی بن کر پنجاب میں الیکشن کرائے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
2013ء کے نگراں وزیراعظم نے اپنے شہر صحبت پورکو ضلع بنوایا تھا اور 2018ء کے نگراں وزیراعظم ملک میں تفریح کرتے اور سوٹ پہننے کا شوق پورا کرتے رہے اور ان کی حکومت نے ایسے فیصلے بھی کیے جس کی وہ مجاز نہیں تھی۔ ان کے نگراں وزیر قانون و اطلاعات علی ظفر نے ڈھائی ماہ میں کروڑوں روپے بار ایسوسی ایشن کو خوش کرنے کے لیے بانٹ دیے۔
عمران خان نے نگراں وزیراعظم سے ایک وفاقی سیکریٹری کا تبادلہ کرایا جو غلط تھا۔ سابق نگراں وزیراعظم ناصر الملک پر سوات کے نجی دورے کے لیے سرکاری اخراجات کے استعمال کا بھی الزام ہے کہ وہ سرکاری مصروفیات میں ریاستی ذمے داریاں ادا کرنے کی بجائے تفریح اور پروٹوکول استعمال کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ پہنچا ہوا ہے جو خود بڑے سرمایہ دار اور سپریم کورٹ کے سربراہ رہے ہیں۔ یہ نگرانوں کا حال رہا ہے جو فائدے اٹھانے آتے ہیں اور غلط کام کرکے چلے جاتے ہیں تو ایسے نگرانوں کا کیا فائدہ جو عارضی طور پر لائے جاتے ہیں۔ نگرانوں سے بہتر ہے کہ الیکشن کمیشن مکمل نگرانی کرے تاکہ جانے والی حکومت شاید جاتے جاتے عوام کا بھلا کر جائے اور ملک و قوم کا ٹیکس مزید تباہی سے محفوظ رہ سکے۔