تعلیم کے ساتھ اخلاقیات کی ضرورت
اخلاق کو سنوارنے اور قلب و روح کو بیماریوں سے شفایاب کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ تعلیم بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن اوصاف و امتیازات سے نوازا ہے، ان میں دو باتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، ایک: علم، دوسرے: اخلاق۔ علم کا تعلق دماغ سے ہے اور اخلاق کا تعلق دل سے۔ علم کے معنی جاننے کے ہیں۔
یہ جاننا کبھی اپنے آپ ہوتا ہے، اس کے لیے نہ واسطے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ محنت کی، جیسے ایک شخص کے سر میں درد ہو، اسے اپنے آپ اس تکلیف کا ادراک ہوجاتا ہے، کبھی علم کسی واسطے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، لیکن اس میں انسان کو محنت کرنا نہیں پڑتی، جیسے صبح کا سورج طلوع ہوا، سنہری دھوپ کائنات کے نشیب و فراز پر چھاگئی، اور ہر دیکھنے والے نے جان لیا کہ یہ دن کا وقت ہے، کسی جانے پہچانے شخص کو دیکھا اور فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ فلاں شخص ہے، یہ بھی علم کے حاصل ہونے ہی کی صورتیں ہیں، لیکن ان میں کوئی محنت ہے نہ مشقت اور نہ فکری تگ و دو کی ضرورت ہے، اس لیے یہ علم اور واقفیت تو ہے، لیکن اسے تعلیم نہیں کہا جاتا۔
علم کی ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان کو کسی واسطے سے بات معلوم ہو، اور اس بات تک رسائی کے لیے محنت بھی کرنا پڑے، اس کو ''تعلیم و تعلّم'' کہتے ہیں، یہ صرف جاننا نہیں ہے، بل کہ جان کاری حاصل کرنا ہے، جو باتیں معلوم ہیں، ان کے ذریعے نامعلوم باتوں تک اور معلوم حقیقتوں کے ذریعے انجانی حقیقتوں تک پہنچنا علم کا وہ اعلیٰ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے۔ اسی لیے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی تو ان کے لیے تعلیم کا انتظام کیا گیا اور خود حق تعالیٰ نے ان کو تعلیم دی۔ تعلیم ہی کے ذریعے دُوررس انقلاب پیدا کیا جاسکتا ہے اور انسانی تاریخ میں ہمیشہ انسان کے اندر فکری انقلاب لانے کے لیے اسی ہتھیار کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
عربی زبان میں ''خلق'' کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو جہاں وہ ایک ظاہری شکل و صورت لے کر آتا ہے، وہیں کچھ باطنی صفات بھی اس کے اندر موجود ہوتی ہیں، ظاہری شکل و صورت بالکل واضح ہوتی ہے، اس کا رنگ روپ، ناک نقشہ، چہرہ مہرہ اور ہاتھ پاؤں وغیرہ، جنہیں بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے اور اگر ان میں کوئی کمی محسوس کی جائے تو ڈاکٹروں کے ذریعے علاج بھی ہوتا ہے۔
اس کو ''خَلق'' یعنی جسمانی ہئیت و شکل کہتے ہیں۔ انسان کی باطنی اور اندرونی صفات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، تواضع یا کبر، غصہ یا بردباری، محبت یا نفرت، ایثار یا خود غرضی وغیرہ، ان کو ''خُلق'' یعنی اخلاق کہتے ہیں۔ جیسے جسم کی ظاہری بیماریوں کا علاج ہوا کرتا ہے، اسی طرح اخلاقی بیماریاں بھی لاعلاج مرض نہیں ہیں، یہ بھی قابلِ علاج ہیں، اللہ کے پیغمبروں اور رسولوںؑ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ اخلاقی امراض اور روحانی بیماریوں کا علاج ہوسکے۔
اخلاق کو سنوارنے اور قلب و روح کو بیماریوں سے شفایاب کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ تعلیم بھی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تزکیۂ اخلاق، آیاتِ قرآنی کی تلاوت اور کتاب و حکمت کی تعلیم کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے ذکر فرمایا ہے کہ انسان کے اندر خیر اور شر دونوں کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، بھلائی کا جذبہ بھی اس کے اندر پنہاں ہے اور برائی کی خواہش بھی اس کے اندر کروٹ لیتی رہتی ہے، انسان کی پوری زندگی اسی کش مکش میں گزرتی ہے اور وہ اس امتحان میں جس درجے کام یابی حاصل کرتا ہے، یا ناکامی سے دوچار ہوتا ہے، اسی لحاظ سے وہ آخرت میں جزا یا سزا کا مستحق ہوگا۔
تعلیم انسان کو نیکی اور بدی کی اس کش مکش میں نیکی پر راغب اور بدی پر فتح یاب کرتی ہے، پھر جب انسان کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے علم کو بہتر طور پر استعمال کرتا ہے۔ پس علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے، اچھی تعلیم انسان کو اچھے اخلاق کی طرف لے جاتی ہے اور اخلاق کی وجہ سے انسان کا علم حقیقی معنوں میں نافع بنتا ہے۔ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔
اگر علم کے ساتھ اخلاق نہ ہو تو اکثر اوقات اچھے سے اچھا علم انسان کو فائدہ پہنچانے کے بہ جائے انسانیت کے لیے نقصان اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے، اس کی واضح مثال جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے وجود میں آنے والی اشیاء ہیں، انسان نے ایٹم کو دریافت کیا اور ایٹمی طاقت تک رسائی حاصل کی، اگر انسان اپنی صلاحیت کا استعمال اچھے مقاصد کے لیے کرتا تو آج پوری دنیا میں شہر سے لے کر دیہات تک کوئی گھر روشنی سے محروم نہیں ہوتا، ہر گھر میں بجلی کی وافر سہولت مہیا ہوتی، لیکن ہوا یہ کہ انسان نے اپنی صلاحیت کو ہلاکت خیز اور انسانیت سوز ہتھیاروں کے لیے استعمال کیا اور دنیا میں ناگاساکی اور ہیروشیما جیسے حادثات پیش آئے کہ انسان اس پر جس قدر آنسو بہائے کم ہے۔
ذرائعِ ابلاغ میں غیر معمولی ترقی ہوئی، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سیل فون نے انسان کے لیے یہ ممکن بنادیا کہ وہ لمحوں میں اپنی بات ہزاروں میل دور تک پہنچا دے، وہاں کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے، ان ذرائع کو بہترین دینی اور دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، سماج تک اخلاق و محبت کا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے، تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے، دور دراز علاقوں سے معلومات کا تبادلہ ہوسکتا ہے، تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا جاسکتا ہے، مظلوموں تک اپنی مدد پہنچائی جاسکتی ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ ان مقاصد کے لیے بھی ان وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں بے حیائی اور عریانیت کو جو فروغ حاصل ہوا ہے، جرائم کی جو کثرت ہوئی ہے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی جو کوشش ہوئی ہے، ان میں بھی ان ذرائعِ ابلاغ کا بہت بڑا کردار ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے جیسے تعلیم کی روشنی پہنچتی، ویسے ویسے جرائم کم ہوتے اور برائیاں مٹتی چلی جاتیں، لیکن عملی صورتِ حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم یافتہ مجرمین کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا دنیا کا سپر پاور ہے اور نہ صرف دفاعی قوت اور معاشی بالادستی میں پوری دنیا کے لیے نمونۂ تقلید بنا ہوا ہے، بل کہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد میں بھی اسی کی برتری تسلیم شدہ ہے، تعلیمی اعتبار سے بھی امریکا ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے مسلم ممالک میں جس نئے نظامِ تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے، اسی میں بھی امریکا کے نقوشِ قدم کو سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن امریکا میں طلبہ و طالبات کے اندر جرائم کی شرح میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ اور ایسی ہول ناک صورت حال ہے جو ہم ذرائع ابلاغ میں دیکھ اور پڑھ ہی رہے ہیں۔
بعض برائیاں تو ایسی ہیں جو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے ہی میں پائی جاتی ہیں، جیسے کرپشن۔ کرپشن کے نوّے فی صد واقعات اَعلیٰ سیاسی قائدین، اونچے درجے کے سرکاری و پرائیویٹ عہدے دار اور صنعت کاروں میں پائے جاتے ہیں، جنہوں نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ بیماری اس قدر روز افزوں ہے کہ جن شعبوں کو خدمت خلق کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔
ان میں بھی اب یہ بیماری سرایت کرچکی ہے، اساتذہ امتحان میں پیسہ لے کر نمبر دیتے ہیں، تعلیمی ماہرین رشوت لے کر اساتذہ کی تقرری کرتے ہیں، ڈاکٹر مریض سے فیس لینے کے علاوہ فارمیسی سے، پیتھالوجسٹ سے اور اسپتالوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں، بلاوجہ ٹیسٹ لکھتے ہیں، بلا سبب دوائیں تجویز کرتے ہیں اور بلا ضرورت آپریشن کا کیس بناتے ہیں، انجینیرز تعمیری میٹریل کے بارے میں غلط رپورٹ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پُلوں اور عمارتوں کے گرنے کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں، یہ سب جاہل و ناخواندہ لوگوں کی طرف سے نہیں، بل کہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف سے پیش آتا ہے۔ پس یہ حقیقت ہے کہ کتنا بھی مفید علم ہو، اگر اخلاق سے اس کا رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ نافع کے بہ جائے مضر اور مفید کے بہ جائے نقصان دہ بن جاتا ہے۔
اسی لیے اسلام کا تصور یہ ہے کہ صرف تعلیم کا فی نہیں ہے، بل کہ تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں فرمایا گیا: اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے، گویا پڑھنا کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ پڑھائی اللہ کے نام سے جُڑی ہوئی ہو، کیوں کہ جب پڑھنے والا اپنی تعلیم کو اللہ کے نام سے جوڑے رکھے گا تو خشیت پیدا ہوگی اور وہ اخلاق سے آراستہ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کی دعا اس طرح فرمائی ہے:
'' اے اللہ! مجھے علم کی دولت عطا فرمائیے، حلم و بردباری سے آراستہ فرمائیے، تقویٰ کے ذریعے عزت عطا کیجیے اور عافیت کے ذریعے میرے حالات کو بہتر رکھیے۔''
اس دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کی دعا کے ساتھ حلم و بردباری کا ذکر فرمایا ہے، جو بہتر اخلاق کی بنیاد اور اساس ہے۔ آپؐ نے لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بارے میں فرمایا کہ باپ اپنی بیٹی کو تعلیم دے اور بہتر تعلیم دے اور ادب و اخلاق سکھائے اور بہتر ادب و اخلاق سکھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصولِ علم کو کافی نہیں سمجھا، بل کہ اس کے ساتھ اخلاق کو بھی ضروری قراردیا۔ کیوں کہ جب علم کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹ جاتا ہے، تو علم جیسی دولت کا استعمال اصلاح کے بہ جائے فساد اور بناؤ کے بہ جائے بگاڑ کے لیے ہونے لگتا ہے۔
یہ بات یقینا باعث مسرت ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے، قانونی طور پر بھی تعلیم کو ہر بچے کا بنیادی حق تسلیم کرلیا گیا ہے، تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہمارے ملک کے ہنرمندوں کو پوری دنیا خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، لیکن یہ بات اسی قدر افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم اخلاقی اقدار سے خالی ہوتی جارہی ہے، اس پر حکومت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، نجی تعلیمی اداروں کو بھی اور خاص کر مسلمانوں کے زیرِ انتظام اداروں کو کہ وہ تعلیمی ترقی کے ساتھ اپنے اداروں میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی طرف توجہ دیں۔
یہ جاننا کبھی اپنے آپ ہوتا ہے، اس کے لیے نہ واسطے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ محنت کی، جیسے ایک شخص کے سر میں درد ہو، اسے اپنے آپ اس تکلیف کا ادراک ہوجاتا ہے، کبھی علم کسی واسطے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، لیکن اس میں انسان کو محنت کرنا نہیں پڑتی، جیسے صبح کا سورج طلوع ہوا، سنہری دھوپ کائنات کے نشیب و فراز پر چھاگئی، اور ہر دیکھنے والے نے جان لیا کہ یہ دن کا وقت ہے، کسی جانے پہچانے شخص کو دیکھا اور فوراً معلوم ہوگیا کہ یہ فلاں شخص ہے، یہ بھی علم کے حاصل ہونے ہی کی صورتیں ہیں، لیکن ان میں کوئی محنت ہے نہ مشقت اور نہ فکری تگ و دو کی ضرورت ہے، اس لیے یہ علم اور واقفیت تو ہے، لیکن اسے تعلیم نہیں کہا جاتا۔
علم کی ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان کو کسی واسطے سے بات معلوم ہو، اور اس بات تک رسائی کے لیے محنت بھی کرنا پڑے، اس کو ''تعلیم و تعلّم'' کہتے ہیں، یہ صرف جاننا نہیں ہے، بل کہ جان کاری حاصل کرنا ہے، جو باتیں معلوم ہیں، ان کے ذریعے نامعلوم باتوں تک اور معلوم حقیقتوں کے ذریعے انجانی حقیقتوں تک پہنچنا علم کا وہ اعلیٰ مقام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمایا ہے۔ اسی لیے جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی تو ان کے لیے تعلیم کا انتظام کیا گیا اور خود حق تعالیٰ نے ان کو تعلیم دی۔ تعلیم ہی کے ذریعے دُوررس انقلاب پیدا کیا جاسکتا ہے اور انسانی تاریخ میں ہمیشہ انسان کے اندر فکری انقلاب لانے کے لیے اسی ہتھیار کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
عربی زبان میں ''خلق'' کے معنی پیدا کرنے کے ہیں۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو جہاں وہ ایک ظاہری شکل و صورت لے کر آتا ہے، وہیں کچھ باطنی صفات بھی اس کے اندر موجود ہوتی ہیں، ظاہری شکل و صورت بالکل واضح ہوتی ہے، اس کا رنگ روپ، ناک نقشہ، چہرہ مہرہ اور ہاتھ پاؤں وغیرہ، جنہیں بہ آسانی دیکھا جاسکتا ہے اور اگر ان میں کوئی کمی محسوس کی جائے تو ڈاکٹروں کے ذریعے علاج بھی ہوتا ہے۔
اس کو ''خَلق'' یعنی جسمانی ہئیت و شکل کہتے ہیں۔ انسان کی باطنی اور اندرونی صفات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں، تواضع یا کبر، غصہ یا بردباری، محبت یا نفرت، ایثار یا خود غرضی وغیرہ، ان کو ''خُلق'' یعنی اخلاق کہتے ہیں۔ جیسے جسم کی ظاہری بیماریوں کا علاج ہوا کرتا ہے، اسی طرح اخلاقی بیماریاں بھی لاعلاج مرض نہیں ہیں، یہ بھی قابلِ علاج ہیں، اللہ کے پیغمبروں اور رسولوںؑ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ اخلاقی امراض اور روحانی بیماریوں کا علاج ہوسکے۔
اخلاق کو سنوارنے اور قلب و روح کو بیماریوں سے شفایاب کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ تعلیم بھی ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تزکیۂ اخلاق، آیاتِ قرآنی کی تلاوت اور کتاب و حکمت کی تعلیم کو ایک دوسرے سے مربوط کر کے ذکر فرمایا ہے کہ انسان کے اندر خیر اور شر دونوں کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، بھلائی کا جذبہ بھی اس کے اندر پنہاں ہے اور برائی کی خواہش بھی اس کے اندر کروٹ لیتی رہتی ہے، انسان کی پوری زندگی اسی کش مکش میں گزرتی ہے اور وہ اس امتحان میں جس درجے کام یابی حاصل کرتا ہے، یا ناکامی سے دوچار ہوتا ہے، اسی لحاظ سے وہ آخرت میں جزا یا سزا کا مستحق ہوگا۔
تعلیم انسان کو نیکی اور بدی کی اس کش مکش میں نیکی پر راغب اور بدی پر فتح یاب کرتی ہے، پھر جب انسان کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے علم کو بہتر طور پر استعمال کرتا ہے۔ پس علم کے ساتھ اخلاق ضروری ہے، اچھی تعلیم انسان کو اچھے اخلاق کی طرف لے جاتی ہے اور اخلاق کی وجہ سے انسان کا علم حقیقی معنوں میں نافع بنتا ہے۔ جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔
اگر علم کے ساتھ اخلاق نہ ہو تو اکثر اوقات اچھے سے اچھا علم انسان کو فائدہ پہنچانے کے بہ جائے انسانیت کے لیے نقصان اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے، اس کی واضح مثال جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے وجود میں آنے والی اشیاء ہیں، انسان نے ایٹم کو دریافت کیا اور ایٹمی طاقت تک رسائی حاصل کی، اگر انسان اپنی صلاحیت کا استعمال اچھے مقاصد کے لیے کرتا تو آج پوری دنیا میں شہر سے لے کر دیہات تک کوئی گھر روشنی سے محروم نہیں ہوتا، ہر گھر میں بجلی کی وافر سہولت مہیا ہوتی، لیکن ہوا یہ کہ انسان نے اپنی صلاحیت کو ہلاکت خیز اور انسانیت سوز ہتھیاروں کے لیے استعمال کیا اور دنیا میں ناگاساکی اور ہیروشیما جیسے حادثات پیش آئے کہ انسان اس پر جس قدر آنسو بہائے کم ہے۔
ذرائعِ ابلاغ میں غیر معمولی ترقی ہوئی، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سیل فون نے انسان کے لیے یہ ممکن بنادیا کہ وہ لمحوں میں اپنی بات ہزاروں میل دور تک پہنچا دے، وہاں کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھے، ان ذرائع کو بہترین دینی اور دنیوی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، سماج تک اخلاق و محبت کا پیغام پہنچایا جاسکتا ہے، تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے، دور دراز علاقوں سے معلومات کا تبادلہ ہوسکتا ہے، تجارت اور کاروبار کو فروغ دیا جاسکتا ہے، مظلوموں تک اپنی مدد پہنچائی جاسکتی ہے، اور اس میں شبہ نہیں کہ ان مقاصد کے لیے بھی ان وسائل کا استعمال کیا جارہا ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ معاشرے میں بے حیائی اور عریانیت کو جو فروغ حاصل ہوا ہے، جرائم کی جو کثرت ہوئی ہے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی جو کوشش ہوئی ہے، ان میں بھی ان ذرائعِ ابلاغ کا بہت بڑا کردار ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے جیسے تعلیم کی روشنی پہنچتی، ویسے ویسے جرائم کم ہوتے اور برائیاں مٹتی چلی جاتیں، لیکن عملی صورتِ حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم یافتہ مجرمین کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ امریکا دنیا کا سپر پاور ہے اور نہ صرف دفاعی قوت اور معاشی بالادستی میں پوری دنیا کے لیے نمونۂ تقلید بنا ہوا ہے، بل کہ جدید ٹیکنالوجی کی ایجاد میں بھی اسی کی برتری تسلیم شدہ ہے، تعلیمی اعتبار سے بھی امریکا ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے مسلم ممالک میں جس نئے نظامِ تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے، اسی میں بھی امریکا کے نقوشِ قدم کو سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن امریکا میں طلبہ و طالبات کے اندر جرائم کی شرح میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ اور ایسی ہول ناک صورت حال ہے جو ہم ذرائع ابلاغ میں دیکھ اور پڑھ ہی رہے ہیں۔
بعض برائیاں تو ایسی ہیں جو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے ہی میں پائی جاتی ہیں، جیسے کرپشن۔ کرپشن کے نوّے فی صد واقعات اَعلیٰ سیاسی قائدین، اونچے درجے کے سرکاری و پرائیویٹ عہدے دار اور صنعت کاروں میں پائے جاتے ہیں، جنہوں نے ملک کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ بیماری اس قدر روز افزوں ہے کہ جن شعبوں کو خدمت خلق کا شعبہ سمجھا جاتا ہے۔
ان میں بھی اب یہ بیماری سرایت کرچکی ہے، اساتذہ امتحان میں پیسہ لے کر نمبر دیتے ہیں، تعلیمی ماہرین رشوت لے کر اساتذہ کی تقرری کرتے ہیں، ڈاکٹر مریض سے فیس لینے کے علاوہ فارمیسی سے، پیتھالوجسٹ سے اور اسپتالوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں، بلاوجہ ٹیسٹ لکھتے ہیں، بلا سبب دوائیں تجویز کرتے ہیں اور بلا ضرورت آپریشن کا کیس بناتے ہیں، انجینیرز تعمیری میٹریل کے بارے میں غلط رپورٹ دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں پُلوں اور عمارتوں کے گرنے کے حادثات پیش آتے رہتے ہیں، یہ سب جاہل و ناخواندہ لوگوں کی طرف سے نہیں، بل کہ پڑھے لکھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی طرف سے پیش آتا ہے۔ پس یہ حقیقت ہے کہ کتنا بھی مفید علم ہو، اگر اخلاق سے اس کا رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ نافع کے بہ جائے مضر اور مفید کے بہ جائے نقصان دہ بن جاتا ہے۔
اسی لیے اسلام کا تصور یہ ہے کہ صرف تعلیم کا فی نہیں ہے، بل کہ تعلیم کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس میں فرمایا گیا: اپنے پروردگار کے نام سے پڑھیے، گویا پڑھنا کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ پڑھائی اللہ کے نام سے جُڑی ہوئی ہو، کیوں کہ جب پڑھنے والا اپنی تعلیم کو اللہ کے نام سے جوڑے رکھے گا تو خشیت پیدا ہوگی اور وہ اخلاق سے آراستہ ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کی دعا اس طرح فرمائی ہے:
'' اے اللہ! مجھے علم کی دولت عطا فرمائیے، حلم و بردباری سے آراستہ فرمائیے، تقویٰ کے ذریعے عزت عطا کیجیے اور عافیت کے ذریعے میرے حالات کو بہتر رکھیے۔''
اس دعا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کی دعا کے ساتھ حلم و بردباری کا ذکر فرمایا ہے، جو بہتر اخلاق کی بنیاد اور اساس ہے۔ آپؐ نے لڑکیوں کو تعلیم دینے کے بارے میں فرمایا کہ باپ اپنی بیٹی کو تعلیم دے اور بہتر تعلیم دے اور ادب و اخلاق سکھائے اور بہتر ادب و اخلاق سکھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصولِ علم کو کافی نہیں سمجھا، بل کہ اس کے ساتھ اخلاق کو بھی ضروری قراردیا۔ کیوں کہ جب علم کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹ جاتا ہے، تو علم جیسی دولت کا استعمال اصلاح کے بہ جائے فساد اور بناؤ کے بہ جائے بگاڑ کے لیے ہونے لگتا ہے۔
یہ بات یقینا باعث مسرت ہے کہ مسلمانوں میں تعلیم کی طرف توجہ بڑھ رہی ہے، قانونی طور پر بھی تعلیم کو ہر بچے کا بنیادی حق تسلیم کرلیا گیا ہے، تعلیمی ترقی کی وجہ سے ہمارے ملک کے ہنرمندوں کو پوری دنیا خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، لیکن یہ بات اسی قدر افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم اخلاقی اقدار سے خالی ہوتی جارہی ہے، اس پر حکومت کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، نجی تعلیمی اداروں کو بھی اور خاص کر مسلمانوں کے زیرِ انتظام اداروں کو کہ وہ تعلیمی ترقی کے ساتھ اپنے اداروں میں اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی طرف توجہ دیں۔