والدین بہارِ زندگی
اولاد والدین کے اس احسان کا بدلہ کسی صورت نہیں چکا سکتی۔
تند و تیز ہوا، آندھی، گرمی اور بارش سے بچانے کے لیے چھپر بنایا جاتا ہے جو سائبان کہلاتا ہے۔ اسی طرح انسان کی زندگی کو تلخیوں، دکھوں، غم و الم اور حوادثات کے تھپیڑوں سے دور رکھنے والے سائبان اس کے والدین ہیں۔
والدین وہ نعمت عظمی ہے جو اولاد سے بغیر کسی غرض کے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اولاد والدین کے اس احسان کا بدلہ کسی صورت نہیں چکا سکتی۔
والدین اس شجرِ سایہ دار کی مانند ہیں جن کی چھاؤں میں اولاد اپنے تمام مصائب، غم، دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ والدین بہار ِزندگی ہیں ان کی موجودی نخلستان سے بڑھ کر اور غیر موجودی قبرستان کی مانند ہے۔ ان کی چہرے پر محبت بھری نگاہ ڈالنے سے جہاں طبعیت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے وہاں حج مبروک کے ثواب سے بھی مالا مال کردیا جاتا ہے۔
قران مجید اور احادیث مبارکہ میں والدین کی عظمت، ان کی خدمت کا بار بار کہا گیا ہے اور والدین کی نافرمانی اور ان کو ستانے کے وبال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ کلام پاک میں اللہ رب العزت نے والدین کی عظمت کو اجاگر کیا اور عزت و تعظیم سے پیش آنے کا حکم دیا، مفہوم : '' اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بہ جُز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اُف بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرما جیسا کہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا۔'' (سورۃ بنی اسرائیل )
اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ والدین کی اطاعت، خدمت، فرماں برداری، اکرام و احترام کس قدر ہم پر لازم ہے۔ پہلے فرمایا کی خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بھلا کیوں ؟ اس لیے کہ انسانوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ والدین کو بنایا۔ حمل سے لے کر پیدائش تک کتنی مشکلات کا سامنا کیا۔ پھر پال پوس کر بڑا کیا، تمام مراحل میں کتنے مصائب کا سامنا کیا، کتنے دکھ درد جھیلے، اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہمیں سکون دیا، راحتیں دیں، زمانے کے گرم و سرد سے بچایا۔ اتنا بڑا احسان کیا کہ ہم ان کا بدلا چکانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور ادا بھی نہیں کرسکتے۔
تیسرا حکم دیا گیا کہ جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں سو ان کو اُف بھی مت کہنا۔ انسان اگر سوچے کہ جب وہ وجود میں آیا تو کتنا لاچار اور بے بس تھا۔ ہر چیز کا محتاج تھا۔ سوائے رونے کے کوئی کام نہ تھا۔ لیکن کبھی والدین نے جھڑکا نہیں۔ جب روتا تو وہ بے چین ہوجایا کرتے تھے۔ ساری رات سرہانے بیٹھ کر گزار دیتے تھے۔ محبت کی انتہا تو دیکھیے۔ پہلے تجھے کھلاتے بعد میں خود کھاتے۔ اب جب ان کی خدمت کا تجھے موقع فراہم کیا گیا تو تُو بھی ان سے ویسا برتاؤ کر جیسا کہ انہوں نے تجھے محبت سے بچپن میں پالا۔ تیری ہر خواہش پر خود کو تجھ پر نثار کیا۔ ویسے تو ان کی خدمت ہر عمر میں لازم ہے لیکن خصوصا بڑھاپے کا اس لیے ذکر کیا کہ اس عمر میں انسان لاغر ہوجاتا ہے۔
کم زوری اور ضعیفی کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کبھی ان کو ایسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں کہ وہ محتاج ہوجاتے ہیں۔ ان کا پھر ویسا ہی خیال رکھنا پڑتا ہے جیسے نومولود بچے کا۔ کبھی طبعیت میں کچھ چڑچڑاپن آجائے تو منہ سے الٹے سیدھے الفاظ نکل پڑتے ہیں ایسے مواقع پر صبر و برداشت کی چادر اوڑھے رکھنا اور ان کی بھرپور خدمت کرکے ثوب دارین کمانا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔حدیث شریف میں والدین کے عظمت و رفعت، حسن سلوک اور اولاد کا والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ پر خوش خبری اور بُرے سلوک پر سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اس کی عمر دراز کرے اور اس کا رزق بڑھائے اس کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلۂ رحمی کرے۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں۔ (مشکوۃ شریف)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا: جہاد۔ (درمنثور)
جب تک والدین حیات ہیں ان کی خدمت اولاد پر لازم ہے۔ لیکن جب یہ دنیا سے پردہ فرما لیں تب بھی اولاد کا فرض ہے کہ ان کی خدمت کرے۔ یعنی مرنے کے بعد خدمت سے یہ مراد ہے کہ ان کے لیے ایصال ِثواب کریں۔ خصوصا ًوہ لوگ جو اپنے والدین کی حیات میں ان کی خدمت نہیں کرسکے اور ہمیشہ ان کی نافرمانی کرتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے والدین اس دنیا سے رخ موڑ گئے۔
ان کے لیے رسول اللہ ﷺ نے کیا ہی خوب فرمایا۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک مرجائے اور وہ شخص ان کہ نافرمانی کرنے والا ہو تو اگر وہ ان کے لیے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتا رہے، اس کے علاوہ ان کے لیے اور دعائیں کرتا رہے تو وہ شخص فرماں برداری میں شمار ہوگا۔ (مشکوۃ شریف)
اللہ پاک ہمارے قلب میں اپنے سائبان والدین کی قدردانی اور محبت پیدا فرمائے اور ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم دائم رکھے۔ آمین
والدین وہ نعمت عظمی ہے جو اولاد سے بغیر کسی غرض کے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ اولاد والدین کے اس احسان کا بدلہ کسی صورت نہیں چکا سکتی۔
والدین اس شجرِ سایہ دار کی مانند ہیں جن کی چھاؤں میں اولاد اپنے تمام مصائب، غم، دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ والدین بہار ِزندگی ہیں ان کی موجودی نخلستان سے بڑھ کر اور غیر موجودی قبرستان کی مانند ہے۔ ان کی چہرے پر محبت بھری نگاہ ڈالنے سے جہاں طبعیت ہشاش بشاش ہو جاتی ہے وہاں حج مبروک کے ثواب سے بھی مالا مال کردیا جاتا ہے۔
قران مجید اور احادیث مبارکہ میں والدین کی عظمت، ان کی خدمت کا بار بار کہا گیا ہے اور والدین کی نافرمانی اور ان کو ستانے کے وبال سے بھی آگاہ کیا ہے۔ کلام پاک میں اللہ رب العزت نے والدین کی عظمت کو اجاگر کیا اور عزت و تعظیم سے پیش آنے کا حکم دیا، مفہوم : '' اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بہ جُز اس کے کسی کی عبادت مت کرو اور تم ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں سو ان کو کبھی اُف بھی مت کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحمت فرما جیسا کہ انہوں نے مجھ کو بچپن میں پالا۔'' (سورۃ بنی اسرائیل )
اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ والدین کی اطاعت، خدمت، فرماں برداری، اکرام و احترام کس قدر ہم پر لازم ہے۔ پہلے فرمایا کی خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ بھلا کیوں ؟ اس لیے کہ انسانوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ والدین کو بنایا۔ حمل سے لے کر پیدائش تک کتنی مشکلات کا سامنا کیا۔ پھر پال پوس کر بڑا کیا، تمام مراحل میں کتنے مصائب کا سامنا کیا، کتنے دکھ درد جھیلے، اپنی جان کی پروا کیے بغیر ہمیں سکون دیا، راحتیں دیں، زمانے کے گرم و سرد سے بچایا۔ اتنا بڑا احسان کیا کہ ہم ان کا بدلا چکانے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور ادا بھی نہیں کرسکتے۔
تیسرا حکم دیا گیا کہ جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں سو ان کو اُف بھی مت کہنا۔ انسان اگر سوچے کہ جب وہ وجود میں آیا تو کتنا لاچار اور بے بس تھا۔ ہر چیز کا محتاج تھا۔ سوائے رونے کے کوئی کام نہ تھا۔ لیکن کبھی والدین نے جھڑکا نہیں۔ جب روتا تو وہ بے چین ہوجایا کرتے تھے۔ ساری رات سرہانے بیٹھ کر گزار دیتے تھے۔ محبت کی انتہا تو دیکھیے۔ پہلے تجھے کھلاتے بعد میں خود کھاتے۔ اب جب ان کی خدمت کا تجھے موقع فراہم کیا گیا تو تُو بھی ان سے ویسا برتاؤ کر جیسا کہ انہوں نے تجھے محبت سے بچپن میں پالا۔ تیری ہر خواہش پر خود کو تجھ پر نثار کیا۔ ویسے تو ان کی خدمت ہر عمر میں لازم ہے لیکن خصوصا بڑھاپے کا اس لیے ذکر کیا کہ اس عمر میں انسان لاغر ہوجاتا ہے۔
کم زوری اور ضعیفی کی وجہ سے کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ کبھی ان کو ایسی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں کہ وہ محتاج ہوجاتے ہیں۔ ان کا پھر ویسا ہی خیال رکھنا پڑتا ہے جیسے نومولود بچے کا۔ کبھی طبعیت میں کچھ چڑچڑاپن آجائے تو منہ سے الٹے سیدھے الفاظ نکل پڑتے ہیں ایسے مواقع پر صبر و برداشت کی چادر اوڑھے رکھنا اور ان کی بھرپور خدمت کرکے ثوب دارین کمانا بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔حدیث شریف میں والدین کے عظمت و رفعت، حسن سلوک اور اولاد کا والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ پر خوش خبری اور بُرے سلوک پر سخت وعید سنائی گئی ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اس کی عمر دراز کرے اور اس کا رزق بڑھائے اس کو چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور (رشتہ داروں کے ساتھ) صلۂ رحمی کرے۔
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں۔ (مشکوۃ شریف)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے کہا اس کے بعد کون سا عمل ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا: جہاد۔ (درمنثور)
جب تک والدین حیات ہیں ان کی خدمت اولاد پر لازم ہے۔ لیکن جب یہ دنیا سے پردہ فرما لیں تب بھی اولاد کا فرض ہے کہ ان کی خدمت کرے۔ یعنی مرنے کے بعد خدمت سے یہ مراد ہے کہ ان کے لیے ایصال ِثواب کریں۔ خصوصا ًوہ لوگ جو اپنے والدین کی حیات میں ان کی خدمت نہیں کرسکے اور ہمیشہ ان کی نافرمانی کرتے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے والدین اس دنیا سے رخ موڑ گئے۔
ان کے لیے رسول اللہ ﷺ نے کیا ہی خوب فرمایا۔ حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک مرجائے اور وہ شخص ان کہ نافرمانی کرنے والا ہو تو اگر وہ ان کے لیے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتا رہے، اس کے علاوہ ان کے لیے اور دعائیں کرتا رہے تو وہ شخص فرماں برداری میں شمار ہوگا۔ (مشکوۃ شریف)
اللہ پاک ہمارے قلب میں اپنے سائبان والدین کی قدردانی اور محبت پیدا فرمائے اور ان کا سایہ ہم پر تادیر قائم دائم رکھے۔ آمین