نیکی میں سبقت کی فضیلت

ہم نے اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کر رکھی ہے اور اپنے اسلاف و اکابر کی قابل تقلید زندگی کو یک سر فراموش کردیا ہے۔

ہم نے اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کر رکھی ہے اور اپنے اسلاف و اکابر کی قابل تقلید زندگی کو یک سر فراموش کردیا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ISLAMABAD:
اسلامی تاریخ کا اگر توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جس میں ہمارے معاشرے کا ہر فرد ہمیشہ نیک اور اچھے کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی فکر اور کوشش میں ہمیشہ لگا رہتا تھا اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور اس میں کمال حاصل کرنے کو اپنی ترقی کی معراج سمجھتا تھا، دنیا اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ان کی نظر میں پرِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی تھی۔

اگر ہم اِس زاویے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک زندگی پر نظر ڈالیں تو اس حوالے سے ہمیں اس کی بیسیوں مثالیں ایسی ملیں گی کہ جن پر عمل کرنے شوق اور جذبہ از خود ہی ہمارے دل میں انگڑائیاں لینا شروع کردے گا اور ہمیں اِن پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ کرے گا۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوۂ بدر میں تین آدمیوں کو ایک اونٹ ملا (جس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے) چناں چہ حضرت ابولبابہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما اونٹ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدل چلنے کی باری آئی تو دونوں حضرات نے عرض کیا کہ (آپؐ اونٹ پر سوار رہیں) ہم آپ کی جگہ پیدل چلیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور بھی نہیں ہو اور نہ میں تم سے زیادہ اجر و ثواب سے مستغنی ہوں (بل کہ مجھے بھی ثواب کی ضرورت ہے، اس لیے میں بھی پیدل چلوں گا)

حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو بیٹھ کر نماز پڑھ رہا تھا، آپؐ نے فرمایا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کو کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے سے آدھا ثواب کم ملتا ہے، یہ سن کر تمام لوگ مشقت اور تکلیف کے باوجود کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان دنوں مدینہ میں بخار کا زور تھا، چناں چہ لوگوں کو بخار ہونے لگا، ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو لوگ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، آپؐ نے فرمایا کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز ثواب میں کھڑے ہوکر پڑھنے والے سے آدھی ہوتی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضورؐ اور آپ کے صحابہؓ مدینہ آئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدینہ کا بخار چڑھ گیا اور اتنے بیمار ہوئے کہ انہیں بڑی مشقت اٹھانی پڑی، البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بخار سے محفوظ رکھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بخار سے اتنے کم زور ہوگئے تھے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھا کرتے تھے۔


ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہ جان لو کہ بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز (ثواب کے اعتبار سے) کھڑے ہوکر پڑھنے والے کی نماز سے آدھی ہوتی ہے۔ یہ فضیلت سن کر تمام مسلمان کم زوری اور بیماری کے باوجود زیادہ ثواب حاصل کرنے کے شوق میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔

حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس بات کا ارادہ فرمایا کہ وہ شادی نہیں کریں گے، تو ان سے (ان کی بہن) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ شادی کریں، کیوں کہ اگر بچے پیدا ہوکر مرگئے تو آپ کو (صبر کرنے کی وجہ سے) ثواب ملے گا اور اگر وہ بچے زندہ رہے تو وہ آپ کے لیے دعا کرتے رہیں گے۔حضرت عبد الرحمان بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما دریائے فرات کے کنارے کی طرف چلے جارہے تھے تو انہوں نے یہ دعا مانگی: ''اے اللہ! اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تو مجھ سے اس بات سے راضی ہوگا کہ میں اپنے آپ کو اس پہاڑ سے نیچے گرا دوں اور لڑھکتا ہوا نیچے چلا جاؤں (اور یوں خود کو ہلاک کردوں) تو میں اس طرح کرنے کے لیے بالکل تیار ہوں۔

اور اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تو مجھ سے اس بات سے زیادہ راضی ہوگا کہ میں بہت بڑی آگ جلاکر اس میں چھلانگ لگا دوں تو میں اس کے لیے بھی بالکل تیار ہوں۔ اے اللہ! اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ تو مجھ سے اس بات سے راضی ہوگا کہ میں پانی میں چھلانگ لگاکر ڈوب (کر مر) جاؤں تو میں اس کے لیے بھی بالکل تیار ہوں۔ اور میں یہ جنگ صرف تیری وجہ سے لڑ رہا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب میرا مقصد تجھ کو راضی کرنا ہی ہے تو تو مجھے نامراد و محروم نہیں کرے گا۔

حضرت عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور کچھ لوگوں کو نہ دیا، تو جن کو نہ دیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ناراض ہوگئے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ اگر نہ دوں گا تو مجھے ڈر ہے کہ بے صبری کریں گے اور گھبرانے لگ جائیں گے۔

اور جن لوگوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خیر اور استغناء کے جذبات رکھے ہیں انہیں اسی خیر اور استغناء کے حوالے کردیتا ہوں ۔ اور عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ بھی ان ہی لوگوں میں سے ہے۔ حضرت عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بدلے مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔

اب آپ ذرا دوسرے زاویے سے اپنے آج کے دینی و اسلامی معاشرے کا جائزہ لیں اور اپنی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو زمانہ خیر القرون کے معاشرے کی بہ نسبت آج کے معاشرے میں مسابقت الیٰ الخیرات کی صفت ایمانی کا کافی حد تک واضح طور پر فقدان ہوتا نظر آئے گا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ہمارے خیال میں اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہم لوگوں نے قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات سے دوری اختیار کر رکھی ہے اور اپنے اسلاف و اکابر اور بزرگوں کی قابل تقلید زندگی کو یک سر فراموش کردیا ہے۔

آج ہم لوگ دنیا کی مادی اور فانی چیزوں میں تو ایک دوسرے کے مقابلے میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، لیکن کبھی ہم نے حرف غلط کے طور پر بھی یہ سوچا ہے کہ خیر و بھلائی اور دین کے کاموں میں بھی ہمیں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنی چاہیے۔
Load Next Story