شراب برآمدگی کیس اصل بوتلیں بوٹ بیسن تھانے میں محفوظ ہونے کا انکشاف
بوتلوں کاتجزیہ، بلڈ ٹیسٹ آپریشن جیل پولیس نے کرایا، تفتیشی افسر کی عدم دلچسپی۔
شراب برآمدگی کیس میں میڈیکل رپورٹس کو مشکوک قرار دینے کے باوجود تفتیشی پولیس نے عدم دلچسپی کامظاہرہ کرتے ہوئے مطلوبہ شواہد جمع کرنے کے بجائے جیل پولیس پر کیس خراب کرنے کا ملبہ ڈال دیا۔
جیل انتظامیہ نے ایف آئی آر سمیت مطلوبہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی معلوماتی رپورٹ تفتیشی ٹیم کو ارسال کردی ہے لیکن تفتشی پولیس نے حکومت کی جانب سے میڈیکل بورڈ قائم کرنے اور بورڈ کی جانب سے ملنے والی ہدایت کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے انتظار کرنے کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔
جیل اور انویسٹی گیشن پولیس افسران اور دیگر متعلقہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تفتیشی پولیس نے یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ آغا خان اسپتال سے جس بلڈ کی رپورٹ آئی ہے وہ شرجیل انعام میمن کا تھا یا کسی اور کا، آغا خان اسپتال سے اس خون کا وہ نمونہ بھی اب تک حاصل نہیں کیاتاکہ شرجیل کے ڈی این اے سیمپل یا خون کے نمونے حاصل کرکے یہ تصدیق کی جاسکے کہ وہ خون کس کا تھا۔
اس طرح تفتیشی پولیس نے شراب کی بوتلوں کو بھی شرجیل انعام کے ملازمین اورجیل عملے کی جانب سے تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اصل شراب کی بوتلیں پولیس کے پاس ہیں جو اسپتال کے ایک حصے سے برآمد کی گئی تھی اور اب وہ کیس پراپرٹی کے طور پر بوٹ بیسن تھانے میں محفوظ ہیں۔ پولیس اپنے اس دعوے کے باوجود اب تک ان بوتلوں کو نہ تو تفتیش کے دوران ظاہر کرسکی ہے اور نہ ہی انھیں لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا۔
ذرائع نے دعوٰی کیاہے کہ پولیس پہلے ہی دن سے شرجیل میمن کیس میں غلطیوں پر ٖغلطی کررہی ہے یہ پولیس کی غفلت ہے یا جانبداری پولیس کو اس کا جواب دینا پڑے گا ، پولیس کی جانب سے پہلی غلطی یہ کی گئی کہ شرجیل انعام کے کمرے پر چھاپے کے بعد بھی کمرے کو کرائم سین کے طور اپنے قبضے میں نہیں لیا گیا اس حد تک کہ وہاں سے ملنے والی بوتلیں بھی خود سیل کرکے لیبارٹری بھیجنے کے بجائے یہ کام جیل پولیس کے حوالے کردیا اور اب کہتی ہے کہ جیل پولیس کے اہلکاروں نے شہادتیں ضائع کی ہیں۔
قانونی طورپر چھاپہ مار نے کے بعد وہ کمرہ جائے واردات کی حیثیت میں آجاتا ہے اور وہاں سے جیل پولیس کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے اور کیس پراپرٹی کے طور پر تفتیشی پولیس وہاں سے تمام شواہد حاصل کرنے کی پابند ہوتی ہے مگر ایسا نہیں کیاگیا، دوسری یہ غلطی سامنے آئی ہے کہ شرجیل میمن کے خلاف مقدمہ آپریشن پولیس کے کسی افسر کی سرکاری مدعیت میں داخل کرنے کے بجائے اسی جیل پولیس افسر کی مدعیت میں داخل کیا جس کی غفلت وہ سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھ چکے تھے۔
اس طرح پولیس نے مبینہ ملزم کو مدعی کردیا اور اب مدعی کو ہی مشکوک قرار دے کر شامل تفتیش کرلیا ہے اب نوبت یہ پہنچ گئی ہے کہ مدعی ملزم کے طورپر ظاہر ہورہا ہے جس کے باعث شرجیل کے خلاف مقدمے میں مدعی کو تبدیل کرنا پڑے گا یا دوسری ایف آئی آر داخل کرنا پڑے گی۔ اس صورتحال سے متعلق بوٹ بیسن تھانے کے ایس ایچ او اور کیس کے تفتیش افسر انسپکٹر شکیل شیروانی نے نمائندہ ایکسپریس کو رابطہ کرنے پر بتایا کہ مقدمے کی تفتیش میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ایک سوال پرانھوں نے بتایاکہ شرجیل میمن کے خون کے نمونے اور وہاں سے قبضے میں لی گئی بوتلیں جیل پولیس نے لیب اور اسپتال بھیجی تھیں اس لیے مشکوک خون کے نمونے اور بوتلوں کی تصدیق کے لیے جیل پولیس کو ہی کام کرنا چاہیے اور انھیں چاہیے کہ وہ آغاخان اسپتال سے اس خون کا نمونہ حاصل کرکے تصدیق کریں۔
تفتیشی افسر نے اس سوال پرکہ جیل پولیس کی جانب سے بھیجی گئی بوتلیں اگر تبدیل ہوئی ہیں اوراصل شراب کی بوتلیں آپ کے پاس محفوظ ہیں تو انھیں کیمیکل ایگزامنیشن کے لیے کیوں نہیں بھیجا گیا تو تفتیشی افسر نے جواب میں کہا کہ اس سلسلے میں ہم میڈیکل بورڈ قائم ہونے کا انتظارکررہے ہیں جس کے لیے محکمہ داخلہ کو خط ارسال کردیا ہے اب جیسے ہی میڈیکل بورڈ قائم ہوگا اور ان کی جو ہدایت ہوگی اس کی روشی میں تفتیش کو آگے بڑھایا جائے گا۔
ایک سوال پر تفتیشی افسر شکیل شیروانی کا کہنا تھا کہ تفتیش میں مدعی مقدمہ مجاہد کے مشکوک کردار کو دیکھا جارہا ہے اگر وہ ملزم ثابت ہوا تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور مدعی کے طور پر اس کا نام شرجیل میمن کے مقدمے سے ہٹادیا جائے گا یا پھر شرجیل انعام میمن کے خلاف دوسرا مقدمہ درج کیا جائے گا اس حوالے سے بھی لیگل ڈپارٹمنٹ سے قانونی مشاورت کی جائے گی۔
دوسری جانب سے ڈی آئی جی جیل خانہ جات ناصر آفتاب نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ اس کیس کی تفتیش ساؤتھ پولیس کے پاس ہے اور یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مشکوک بلڈ کے سیمپل کی تصدیق کرے اور تفتیشی پولیس کو چاہیے کہ وہ آغا خان اسپتال سے بلڈکے سیمپل حاصل کرے اور جیل آکر ملزم شرجیل انعام میمن کا اسپتال کے ملازمین اور جیل پولیس کے سامنے بلڈسیمپل لے اور یہ تصدیق کرے کہ آغا خان اسپتال بھیجا گیا بلڈ سیمپل شرجیل انعام میمن کا ہے یا نہیں ۔
ڈی آئی جی کے مطابق جب میڈیکل رپورٹس پر شک ظاہر کیا تو ہم نے اپنے طورپر آغاخان اسپتال سے یہ معلوم حاصل کی کہ خون کا وہ سیمپل موجود ہے یا نہیں جس پر اسپتال کے عملے نے تصدیق کی یہ نمونہ ہمارے پاس محفوظ ہے اور پولیس وہ لے جاسکتی ہے جس کے بعد میں نے حاصل کردہ معلومات کی تفصیلات ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو کو ارسال کردی ہیں۔
واضح رہے کہ تفتیشی ٹیم نے شرجیل انعام میمن کا ڈی این اے کرانے کے لیے بھی کہا ہے تاہم جمعرات کی رات تک ڈی این اے کے لیے بھی خون کے نمونے حاصل نہیں کیے گئے ۔
جیل انتظامیہ نے ایف آئی آر سمیت مطلوبہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی معلوماتی رپورٹ تفتیشی ٹیم کو ارسال کردی ہے لیکن تفتشی پولیس نے حکومت کی جانب سے میڈیکل بورڈ قائم کرنے اور بورڈ کی جانب سے ملنے والی ہدایت کی روشنی میں تفتیش کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے انتظار کرنے کی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔
جیل اور انویسٹی گیشن پولیس افسران اور دیگر متعلقہ ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تفتیشی پولیس نے یہ تصدیق کرنے کے لیے کہ آغا خان اسپتال سے جس بلڈ کی رپورٹ آئی ہے وہ شرجیل انعام میمن کا تھا یا کسی اور کا، آغا خان اسپتال سے اس خون کا وہ نمونہ بھی اب تک حاصل نہیں کیاتاکہ شرجیل کے ڈی این اے سیمپل یا خون کے نمونے حاصل کرکے یہ تصدیق کی جاسکے کہ وہ خون کس کا تھا۔
اس طرح تفتیشی پولیس نے شراب کی بوتلوں کو بھی شرجیل انعام کے ملازمین اورجیل عملے کی جانب سے تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اصل شراب کی بوتلیں پولیس کے پاس ہیں جو اسپتال کے ایک حصے سے برآمد کی گئی تھی اور اب وہ کیس پراپرٹی کے طور پر بوٹ بیسن تھانے میں محفوظ ہیں۔ پولیس اپنے اس دعوے کے باوجود اب تک ان بوتلوں کو نہ تو تفتیش کے دوران ظاہر کرسکی ہے اور نہ ہی انھیں لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا۔
ذرائع نے دعوٰی کیاہے کہ پولیس پہلے ہی دن سے شرجیل میمن کیس میں غلطیوں پر ٖغلطی کررہی ہے یہ پولیس کی غفلت ہے یا جانبداری پولیس کو اس کا جواب دینا پڑے گا ، پولیس کی جانب سے پہلی غلطی یہ کی گئی کہ شرجیل انعام کے کمرے پر چھاپے کے بعد بھی کمرے کو کرائم سین کے طور اپنے قبضے میں نہیں لیا گیا اس حد تک کہ وہاں سے ملنے والی بوتلیں بھی خود سیل کرکے لیبارٹری بھیجنے کے بجائے یہ کام جیل پولیس کے حوالے کردیا اور اب کہتی ہے کہ جیل پولیس کے اہلکاروں نے شہادتیں ضائع کی ہیں۔
قانونی طورپر چھاپہ مار نے کے بعد وہ کمرہ جائے واردات کی حیثیت میں آجاتا ہے اور وہاں سے جیل پولیس کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے اور کیس پراپرٹی کے طور پر تفتیشی پولیس وہاں سے تمام شواہد حاصل کرنے کی پابند ہوتی ہے مگر ایسا نہیں کیاگیا، دوسری یہ غلطی سامنے آئی ہے کہ شرجیل میمن کے خلاف مقدمہ آپریشن پولیس کے کسی افسر کی سرکاری مدعیت میں داخل کرنے کے بجائے اسی جیل پولیس افسر کی مدعیت میں داخل کیا جس کی غفلت وہ سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھ چکے تھے۔
اس طرح پولیس نے مبینہ ملزم کو مدعی کردیا اور اب مدعی کو ہی مشکوک قرار دے کر شامل تفتیش کرلیا ہے اب نوبت یہ پہنچ گئی ہے کہ مدعی ملزم کے طورپر ظاہر ہورہا ہے جس کے باعث شرجیل کے خلاف مقدمے میں مدعی کو تبدیل کرنا پڑے گا یا دوسری ایف آئی آر داخل کرنا پڑے گی۔ اس صورتحال سے متعلق بوٹ بیسن تھانے کے ایس ایچ او اور کیس کے تفتیش افسر انسپکٹر شکیل شیروانی نے نمائندہ ایکسپریس کو رابطہ کرنے پر بتایا کہ مقدمے کی تفتیش میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ایک سوال پرانھوں نے بتایاکہ شرجیل میمن کے خون کے نمونے اور وہاں سے قبضے میں لی گئی بوتلیں جیل پولیس نے لیب اور اسپتال بھیجی تھیں اس لیے مشکوک خون کے نمونے اور بوتلوں کی تصدیق کے لیے جیل پولیس کو ہی کام کرنا چاہیے اور انھیں چاہیے کہ وہ آغاخان اسپتال سے اس خون کا نمونہ حاصل کرکے تصدیق کریں۔
تفتیشی افسر نے اس سوال پرکہ جیل پولیس کی جانب سے بھیجی گئی بوتلیں اگر تبدیل ہوئی ہیں اوراصل شراب کی بوتلیں آپ کے پاس محفوظ ہیں تو انھیں کیمیکل ایگزامنیشن کے لیے کیوں نہیں بھیجا گیا تو تفتیشی افسر نے جواب میں کہا کہ اس سلسلے میں ہم میڈیکل بورڈ قائم ہونے کا انتظارکررہے ہیں جس کے لیے محکمہ داخلہ کو خط ارسال کردیا ہے اب جیسے ہی میڈیکل بورڈ قائم ہوگا اور ان کی جو ہدایت ہوگی اس کی روشی میں تفتیش کو آگے بڑھایا جائے گا۔
ایک سوال پر تفتیشی افسر شکیل شیروانی کا کہنا تھا کہ تفتیش میں مدعی مقدمہ مجاہد کے مشکوک کردار کو دیکھا جارہا ہے اگر وہ ملزم ثابت ہوا تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے گی اور مدعی کے طور پر اس کا نام شرجیل میمن کے مقدمے سے ہٹادیا جائے گا یا پھر شرجیل انعام میمن کے خلاف دوسرا مقدمہ درج کیا جائے گا اس حوالے سے بھی لیگل ڈپارٹمنٹ سے قانونی مشاورت کی جائے گی۔
دوسری جانب سے ڈی آئی جی جیل خانہ جات ناصر آفتاب نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ اس کیس کی تفتیش ساؤتھ پولیس کے پاس ہے اور یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مشکوک بلڈ کے سیمپل کی تصدیق کرے اور تفتیشی پولیس کو چاہیے کہ وہ آغا خان اسپتال سے بلڈکے سیمپل حاصل کرے اور جیل آکر ملزم شرجیل انعام میمن کا اسپتال کے ملازمین اور جیل پولیس کے سامنے بلڈسیمپل لے اور یہ تصدیق کرے کہ آغا خان اسپتال بھیجا گیا بلڈ سیمپل شرجیل انعام میمن کا ہے یا نہیں ۔
ڈی آئی جی کے مطابق جب میڈیکل رپورٹس پر شک ظاہر کیا تو ہم نے اپنے طورپر آغاخان اسپتال سے یہ معلوم حاصل کی کہ خون کا وہ سیمپل موجود ہے یا نہیں جس پر اسپتال کے عملے نے تصدیق کی یہ نمونہ ہمارے پاس محفوظ ہے اور پولیس وہ لے جاسکتی ہے جس کے بعد میں نے حاصل کردہ معلومات کی تفصیلات ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو کو ارسال کردی ہیں۔
واضح رہے کہ تفتیشی ٹیم نے شرجیل انعام میمن کا ڈی این اے کرانے کے لیے بھی کہا ہے تاہم جمعرات کی رات تک ڈی این اے کے لیے بھی خون کے نمونے حاصل نہیں کیے گئے ۔