پومپیو کے دورے سے برف پگھلنے لگی بڑے بریک تھرو کا امکان نہیں تجزیہ کار ماہرین

امریکا کے ساتھ برابری کے تعلقات رکھنے ہوں گے، جنرل (ر) زاہد مبشر


اجمل ستار ملک September 07, 2018
اب امریکا کو بھی ہمارے لیے کچھ کرنا پڑے گا، محمد مہدی، پاکستان اور امریکا کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں، سلمان عابد۔ فوٹو: ایکسپریس

ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کہنا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان خوش آئند ہے۔ اگرچہ کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں تاہم اس سے برف ضرور پگھلے گی۔

'امریکی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان اور اس کے اثرات' کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیاگیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیے۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) زاہد مبشر شیخ نے کہاکہ امریکا افغانستان میں اپنی جنگ ہارچکا ہے جبکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت چکے ہیں اور وہ چاہتاہے کہ ہم اپنی فتح اس کی جھولی میں ڈال دیں۔ امریکاکے ساتھ ہمارا رشتہ حاکم اور محکوم کا رہاہے، افسوس ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کی خاطر امریکا کو رعایت دی اورایسے مطالبات بھی مان لیے جن پر خود امریکا حیرت کا شکار ہوا مگر اس سے نقصان پاکستان کا ہوا۔ ہمیں سر اٹھا کر چلنا ہوگا اور امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنا ہوںگے۔ ہمارے اپنے ہی لوگوں نے ملک اور اداروں کو نقصان پہنچایا، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

تجزیہ کارڈاکٹر اعجاز بٹ نے کہا کہ امریکا نے ہمیں ہمیشہ اپنے مفادات کیلیے استعمال کیا اور جب ضرورت نہ ہو تو تعلقات سردمہری میں چلے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کے ہوتے ہوئے تعلقات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی،خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں مزید دباؤ آئے گا۔ امریکا افغانستان میں ایک کٹھ پتلی نظام قائم کرنا چاہتا ہے، شاہ محمود قریشی نے پہلا دورہ افغانستان کرنے کا اعلان کیا مگر سوال یہ ہے کہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کا کیا فائدہ ہوگا؟ کیا وزیرخارجہ دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بھی ملاقات کریںگے؟ انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بے شمار افغان طلبا بھارت میں اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں، انہی طلبا کو افغانستان کی باگ ڈور سنبھالنی ہے جبکہ افغانستان میں عوامی سطح پر پاکستان کی نسبت بھارت کی ساکھ بہتر ہے، پاکستان کو اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

ماہر امور خارجہ محمد مہدی نے کہاکہ افغانستان میں بدامنی امریکا کی خواہش ہے، وہ کسی بھی صورت یہاں سے نہیں جانا چاہتا۔ بھارت افغانستان میں اپنا کردار بڑھا رہا ہے، سی پیک کو نقصان پہنچارہا ہے اور دہشت گردی میں بھی اس کا ہاتھ ہے جو پاکستان کو برداشت نہیں، اب امریکا کو بھی ہمارے لیے کچھ کرنا پڑے گا ورنہ تعلقات کشیدہ ہی رہیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اقوام متحدہ کی سائیڈلائن میٹنگز میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کس طرح دیگر ممالک کو یہ باور کرائیںگے کہ پاکستان کن مسائل سے دوچار ہے۔ امید ہے نئی حکومت پاک امریکا تعلقات مثالی بنانے کیلیے ضرور کوشش کرے گی مگر معاملات برابری کی سطح پر ہی طے ہونے چاہئیں۔

تجزیہ کار سلمان عابد نے کہاکہ پاکستان اور امریکا کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے، ہمیں امریکا سے تعلقات بہتر کرنا ہوںگے۔ امریکا چین کے کردار کو روکنا چاہتا ہے تاکہ سی پیک کو سبوتاژ کیا جاسکے، اس کے علاوہ وہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف کردار ادا کرنے پر تھپکی بھی دیتا ہے اور ڈومور کا مطالبہ بھی کرتا ہے تاکہ ہم پر دباؤ رکھ کر مزید مقاصد حاصل کرسکے۔ اب طالبان بہت بدل چکے ہیں، وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان مذاکرات سے انھیں کیا ملے گا؟ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں بھارت اور افغان حکومت کو بھی شامل کیا جائے، اس سے معاملات بہتر طریقے سے آگے بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اس وقت سول، ملٹری تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، امید ہے کہ اب معاملات بہتر ہوجائیںگے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ عمران خان ڈکٹیشن نہیں لیںگے لہٰذا اب مذاکرات کے مزید دور شروع ہوںگے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں