جاوید ہاشمی اور اسلام آباد کا این اے48
جاوید ہاشمی نے باغی بننا تو اپنے زمانہ طالب علمی سے شروع کردیا تھا مگر جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرنے...
جاوید ہاشمی نے باغی بننا تو اپنے زمانہ طالب علمی سے شروع کردیا تھا مگر جنرل ضیاء نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انھیں بہلاپھسلا کر اپنی کابینہ میں شامل کرلیا۔ وزیر بن جانے کے چند ہی روز بعد انھیں اندازہ ہوگیا کہ نظام مصطفٰے کے نفاذ کے لیے چلائی جانے والی تحریک کے ذریعے 5جولائی 1977 کو اقتدار سنبھالنے والا جنرل فوری انتخابات کرانے کو تیار نہیں۔ سیاست کرنا بھی آہستہ آہستہ مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاگیا۔ جاوید ہاشمی اس کی وجہ سے نظر بندی، جلاوطنی یا کوڑے کھانے کے لیے تیار نہ تھے۔ خاموشی سے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ گئے۔ پھر کافی برسوں کے انتظار کے بعد وہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد قومی اسمبلی میں آگئے۔ وہاں پہنچ کر انھوں نے سیدہ عابدہ حسین اور فخر امام کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور وقتا فوقتا اپنی جذباتی تقریروں سے ماحول کو گرماتے رہے۔
پارلیمانی اپوزیشن کے ان ہی دنوں میں انھیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے کسی شخص کے پاس ایک حلقہ ہونا چاہیے جہاں سے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں ہر صورت پہنچا جائے۔ باقی سب بعد کی باتیں ہیں۔ جاوید ہاشمی کا مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ کوئی بہت بڑے رقبے والے جدی پشتی جاگیردار نہ تھے۔ ان کی ''مخدومیت'' بھی یوسف رضا گیلانی یا شاہ محمود قریشی کے پائے کی نہ تھی۔ بی بی عابدہ اور فخر امام کی طرح انھیں ''انگریزی میڈیم'' لوگوں کو مرعوب کرنابھی نہ آتا تھا۔ 1988 سے 2002 تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں وہ اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ IJIاور پھر نواز شریف کی سیاسی قوت کی وجہ سے قومی اسمبلی میں آتے رہے۔ 1990کے بعد تو انھیں شریف برادران لاہور کے کسی حلقے سے اپنی ''پکی سیٹوں'' پر ضمنی انتخابات میں حصہ دلواکر قومی اسمبلی تک پہنچاتے رہے۔
2008 میں لیکن معاملات بدل گئے۔ ہاشمی ملتان کے علاوہ راولپنڈی سے بھی شیخ رشید کو بھاری اکثریت سے ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ نواز شریف کی شدید خواہش تھی کہ ہاشمی اب راولپنڈی کو ہی اپنا حلقہ بنائیں اور شیخ رشید کو انتخابی سیاست سے ہمیشہ کے لیے فارغ کردیں۔ ان کا اپنا دل مگر ملتان میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس شہر کی سیاست میں گیلانیوں اور قریشیوں والا مرتبہ چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے نواز شریف کی بات نہ مانی اور پھر جوکچھ ہوا آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
تحریک انصاف میں شامل ہوجانے کے بعد ہاشمی صاحب نے اصل کمال 2013 کے انتخابات میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت کر دکھایا ہے۔ عمران خان نے اسپتال کے بستر سے اسلام آباد میں جمع ایک انتہائی پرجوش اجتماع سے جو خطاب کیا، اس نے تحریک انصاف کے ان لوگوں کو دیوانہ وار محنت کرنے پر مجبور کردیا جو عموماََ سیاست سے دور رہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہاشمی ان کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے ملتان کی نشست چھوڑ کر اس شہر کے ہوجاتے مگر وہ ملتان سے اپنی ازلی وابستگی کو فراموش نہ کرسکے۔ اب کہا جارہا ہے کہ ان کی جگہ اسد عمر NA-48سے تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔
اس جماعت کے لوگوں کو پورا یقین ہے کہ وہ بھی جاوید ہاشمی کی طرح بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے ان کی سوچ درست ہو۔ اگرچہ میں اس پہلو کو بھی اُجاگر کرنا چاہوں گا کہ پاکستان مسلم لیگ نون کی اس حلقے سے ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کا امیدوار انجم عقیل خان بھی تھے۔ میں ان صاحب کو بالکل نہیں جانتا مگر ان کی شہرت ویسی ہے جو زمینوں وغیرہ کا کاروبار کرنے والے لوگوں کی اکثر حالتوں میں ہوجایا کرتی ہے۔ ایسی شہرت شاید دیہاتی ووٹروں کو اتنا متنفر نہیں کرتی۔ مگر اسلام آباد میں رہنے والے شہری متوسط طبقے، سرکاری ملازموں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے طاقتور اور خوش حال افسروں کو بہت غصہ دلاتی ہے۔ یہ لوگ اب بھی اسد عمر کو ووٹ دینا چاہیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ ان کی کامیابی کے لیے اسی جنون وجذبے کا مظاہرہ بھی کریں گے یا نہیں جو انھوں نے جاوید ہاشمی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے دکھایا تھا۔
اسد عمر کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہ رکھنے کے باوجود ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات پر تاسف کا اظہار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ تحریک انصاف کی نگاہیں اسلام آباد کے حوالے سے عدنان رندھاوا جیسے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے تبدیلی رضاکاروں کی طرف کیوں متوجہ نہیں ہورہیں۔ چند ایک لوگ مجھ سے ڈاکٹر اسرار شاہ کے بارے میں بھی پوچھتے رہتے ہیں۔ انھوں نے عدلیہ تحریک میں ٹانگوں سے محرومی کمائی۔ پیپلزپارٹی نے اپنے اس ازلی جیالے کی بظاہر قدر نہ کی اور وہ تحریک انصاف میں چلے گئے۔ آج کل اس جماعت کی صفوں میں اتنے نمایاں نظر نہیں آرہے۔ عدنان رندھاوا اور ڈاکٹر اسرار شاہ کا درد بھرا ذکر سن کر میں دل ہی دل میں ''اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں'' کہہ کر خاموش ہوجایا کرتا ہوں۔
NA-48میں متوقع ضمنی انتخاب کے حوالے سے نواز شریف کے چند قریبی لوگ ماروی میمن کا نام بھی چلارہے ہیں۔ ان کا تعلق سندھ سے مگر گزشتہ چند سالوں سے وہ جنرل مشرف کے ہمسائے میں ایک گھر بناکر اسلام آباد کی باقاعدہ رہائشی بن چکی ہیں۔ محنتی خاتون ہیں اور انھیں اپنی بات کہنا بھی آتا ہے۔ ان کو اسد عمر کے مقابلے میں لایا گیا تو اسلام آباد کے ضمنی انتخاب میں کافی رونق لگ سکتی ہے۔ ذاتی طورپر میں اس رونق سے زیادہ یہ بات جاننا چاہوں گا کہ نواز شریف کے وزیر اعظم بن جانے اور خیبرپختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے تقریباََ 100دن بعد ہونے والے اس ضمنی انتخاب کے ذریعے اسلام آباد کے رہائشی ان دونوں سیاسی جماعتوں کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں کیا رائے دیتے ہیں۔
پارلیمانی اپوزیشن کے ان ہی دنوں میں انھیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا کہ سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے کسی شخص کے پاس ایک حلقہ ہونا چاہیے جہاں سے منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں ہر صورت پہنچا جائے۔ باقی سب بعد کی باتیں ہیں۔ جاوید ہاشمی کا مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہ کوئی بہت بڑے رقبے والے جدی پشتی جاگیردار نہ تھے۔ ان کی ''مخدومیت'' بھی یوسف رضا گیلانی یا شاہ محمود قریشی کے پائے کی نہ تھی۔ بی بی عابدہ اور فخر امام کی طرح انھیں ''انگریزی میڈیم'' لوگوں کو مرعوب کرنابھی نہ آتا تھا۔ 1988 سے 2002 تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں وہ اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ IJIاور پھر نواز شریف کی سیاسی قوت کی وجہ سے قومی اسمبلی میں آتے رہے۔ 1990کے بعد تو انھیں شریف برادران لاہور کے کسی حلقے سے اپنی ''پکی سیٹوں'' پر ضمنی انتخابات میں حصہ دلواکر قومی اسمبلی تک پہنچاتے رہے۔
2008 میں لیکن معاملات بدل گئے۔ ہاشمی ملتان کے علاوہ راولپنڈی سے بھی شیخ رشید کو بھاری اکثریت سے ہرانے میں کامیاب ہوگئے۔ نواز شریف کی شدید خواہش تھی کہ ہاشمی اب راولپنڈی کو ہی اپنا حلقہ بنائیں اور شیخ رشید کو انتخابی سیاست سے ہمیشہ کے لیے فارغ کردیں۔ ان کا اپنا دل مگر ملتان میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس شہر کی سیاست میں گیلانیوں اور قریشیوں والا مرتبہ چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے نواز شریف کی بات نہ مانی اور پھر جوکچھ ہوا آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں۔
تحریک انصاف میں شامل ہوجانے کے بعد ہاشمی صاحب نے اصل کمال 2013 کے انتخابات میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیت کر دکھایا ہے۔ عمران خان نے اسپتال کے بستر سے اسلام آباد میں جمع ایک انتہائی پرجوش اجتماع سے جو خطاب کیا، اس نے تحریک انصاف کے ان لوگوں کو دیوانہ وار محنت کرنے پر مجبور کردیا جو عموماََ سیاست سے دور رہتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہاشمی ان کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے ملتان کی نشست چھوڑ کر اس شہر کے ہوجاتے مگر وہ ملتان سے اپنی ازلی وابستگی کو فراموش نہ کرسکے۔ اب کہا جارہا ہے کہ ان کی جگہ اسد عمر NA-48سے تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔
اس جماعت کے لوگوں کو پورا یقین ہے کہ وہ بھی جاوید ہاشمی کی طرح بھاری اکثریت سے کامیاب ہوجائیں گے۔ ہوسکتا ہے ان کی سوچ درست ہو۔ اگرچہ میں اس پہلو کو بھی اُجاگر کرنا چاہوں گا کہ پاکستان مسلم لیگ نون کی اس حلقے سے ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کا امیدوار انجم عقیل خان بھی تھے۔ میں ان صاحب کو بالکل نہیں جانتا مگر ان کی شہرت ویسی ہے جو زمینوں وغیرہ کا کاروبار کرنے والے لوگوں کی اکثر حالتوں میں ہوجایا کرتی ہے۔ ایسی شہرت شاید دیہاتی ووٹروں کو اتنا متنفر نہیں کرتی۔ مگر اسلام آباد میں رہنے والے شہری متوسط طبقے، سرکاری ملازموں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے طاقتور اور خوش حال افسروں کو بہت غصہ دلاتی ہے۔ یہ لوگ اب بھی اسد عمر کو ووٹ دینا چاہیں گے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ ان کی کامیابی کے لیے اسی جنون وجذبے کا مظاہرہ بھی کریں گے یا نہیں جو انھوں نے جاوید ہاشمی کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے دکھایا تھا۔
اسد عمر کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہ رکھنے کے باوجود ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات پر تاسف کا اظہار کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ تحریک انصاف کی نگاہیں اسلام آباد کے حوالے سے عدنان رندھاوا جیسے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے تبدیلی رضاکاروں کی طرف کیوں متوجہ نہیں ہورہیں۔ چند ایک لوگ مجھ سے ڈاکٹر اسرار شاہ کے بارے میں بھی پوچھتے رہتے ہیں۔ انھوں نے عدلیہ تحریک میں ٹانگوں سے محرومی کمائی۔ پیپلزپارٹی نے اپنے اس ازلی جیالے کی بظاہر قدر نہ کی اور وہ تحریک انصاف میں چلے گئے۔ آج کل اس جماعت کی صفوں میں اتنے نمایاں نظر نہیں آرہے۔ عدنان رندھاوا اور ڈاکٹر اسرار شاہ کا درد بھرا ذکر سن کر میں دل ہی دل میں ''اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں'' کہہ کر خاموش ہوجایا کرتا ہوں۔
NA-48میں متوقع ضمنی انتخاب کے حوالے سے نواز شریف کے چند قریبی لوگ ماروی میمن کا نام بھی چلارہے ہیں۔ ان کا تعلق سندھ سے مگر گزشتہ چند سالوں سے وہ جنرل مشرف کے ہمسائے میں ایک گھر بناکر اسلام آباد کی باقاعدہ رہائشی بن چکی ہیں۔ محنتی خاتون ہیں اور انھیں اپنی بات کہنا بھی آتا ہے۔ ان کو اسد عمر کے مقابلے میں لایا گیا تو اسلام آباد کے ضمنی انتخاب میں کافی رونق لگ سکتی ہے۔ ذاتی طورپر میں اس رونق سے زیادہ یہ بات جاننا چاہوں گا کہ نواز شریف کے وزیر اعظم بن جانے اور خیبرپختون خواہ میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے تقریباََ 100دن بعد ہونے والے اس ضمنی انتخاب کے ذریعے اسلام آباد کے رہائشی ان دونوں سیاسی جماعتوں کی حکومتی کارکردگی کے بارے میں کیا رائے دیتے ہیں۔