انتخابات 2013 کے اثرات
11 مئی کو ہونے والے انتخابات کے اثرات سے متحدہ، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی براہ راست متاثر ہوئی۔
11 مئی کو ہونے والے انتخابات کے اثرات سے متحدہ، پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی براہ راست متاثر ہوئی۔ پی پی پی اور اے این پی خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مکمل طور پر نشستوں سے محروم ہوگئی اور متحدہ قومی موومنٹ ان انتخابات سے بالواسطہ طور پر متاثر ہوئی۔ اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ نے عددی اعتبار سے اپنی برتری برقرار رکھی اور کراچی میں بحیرہ عرب سے متصل علاقے کی قومی اسمبلی کی نشست 239 پر ایم کیو ایم نے عرصے بعد کامیابی حاصل کی مگر کلفٹن ، ڈیفنس جیسی امرا کی آبادیوں والی نشست سے ری پولنگ میں محروم ہوگئی۔
الطاف حسین کی نائن زیرو پر ہونے والی تقریر کے بعد کچھ کارکنوں نے رابطہ کمیٹی کے عہدیداروں سے بدسلوکی کی، کارکنوں کے خلاف کارروائی ہوئی، رابطہ کمیٹی کو تحلیل کردیا گیا اور 23 رکنی کمیٹی قائم کردی گئی۔ الطاف حسین نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہم جس کرب سے گزر رہے ہیں اگر رابطہ کمیٹی کے عہدیداران اس کو محسوس کرتے تو صورتحال یوں پیدا نہ ہوتی۔ اس کے ساتھ یہ بھی اعلان ہوا کہ اگر کوئی رکن غیر قانونی حرکتوں مثلاً بھتہ چندہ وصول کرنے اور رقم کے لیے پرچیاں بانٹنے جیسے معاملات میں ملوث ہوا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کچھ کارکنوں کو ان کی ذمے داریوں سے سبکدوش کرنے اور کچھ کو تنظیم سے فارغ کرنے کے بارے میں رپورٹیں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔
2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک نئے فیکٹر کے طور پر ابھری، اگرچہ 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہوئے تھے اور 2008 میں ان کی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا مگر گزشتہ سال لاہور کے منٹو پارک میں تاریخی جلسہ کرکے عمران خان نے نئی سیاسی تاریخ کا آغاز کیا تھا، انھوں نے راولپنڈی، کوئٹہ اور پشاور وغیرہ میں بھی بڑے جلسے کیے۔ عمران خان نے ان جلسوں میں میاں نواز شریف، صدر زرداری، مولانا فضل الرحمن اور اسفندیار ولی کے خلاف سخت ریمارکس دیے مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے بارے میں خاموشی اختیار کی۔ عمران خان نے 12 مئی 2007 کو کراچی میں چیف جسٹس کی آمد پر ہونے والی خون ریزی پر ایم کیو ایم کے خلاف زبردست بیانات دیے تھے اور لندن میں الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کرانے کے دعوے بھی کیے تھے۔
عمران خان کی خاموشی خاصی معنی خیز تھی، عمران خان نے کراچی میں اپنے بہت بڑے جلسے میں شریف برادران اور صدر زرداری کو تو خوب نشانہ بنایا مگر ایم کیو ایم کے بارے میں خاموشی اختیارکرلی، ایسی ہی صورتحال 11 مئی کے انتخابات کے موقعے پر چلائی جانے والی انتخابی مہم میں ہوئی۔ عام تاثر تھا کہ عمران خان کے ایم کیو ایم کے بارے میں خیالات تبدیل ہوچکے ہیں مگر 11 مئی کو ہونے والے انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ کراچی میں ایم کیو ایم کو سب سے بڑا چیلنج تحریک انصاف ہے۔ کراچی میں 11 مئی کو ہونے والی انتخابی بدنظمی کی بنا پر بیشتر حلقوں میں پولنگ مقررہ وقت کے بعد شروع ہوئی، ان حلقوں میں این اے 250 نمایاں تھا۔ میڈیا نے این اے 250 کی صورتحال کو زیادہ اجاگر کیا اور اتوار 19 مئی کو 43 پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ کے بعد ایم کیو ایم یہ نشست ہار گئی۔
ایم کیو ایم اس پورے حلقے میں ری پولنگ کا مطالبہ کررہی تھی اور بعد ازاں ری پولنگ کا بائیکاٹ کیا۔ اس مرحلے پر 18 مئی کی رات کو تحریک انصاف کی ایک اہم رہنما زہرہ شاہد حسین کو ان کے گھر کے سامنے بہیمانہ طور پر ہلاک کردیا گیا، 19 مئی کو خوف و ہراس کے ماحول میں پولنگ ہوئی اور شہر کی تین بڑی جماعتوں کے بائیکاٹ کے باوجود 15 فیصد سے زائد افراد کا ووٹ ڈالنا ایک حیرت انگیز معاملہ تھا۔ الطاف حسین نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ کوئی انسان غلطیوں اور خامیوں سے پاک اور پرفیکٹ نہیں ہوتا، تمام ذمے داران انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو احتسابی عمل سے گزاریں اور اصلاح کریں۔ الطاف حسین کے ان بیانات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب غیر قانونی کام کرنے والے کارکنوں کو تنظیم سے خارج کیا جائے گا۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ کا جائزہ بتاتا ہے کہ دو قسم کی سیاسی تنظیمیں نظر آتی ہیں، ایک تنظیم کھلی تنظیم Open Organization اور دوسرے بند تنظمیں Closed Organization کہی جاتی ہیں۔ برصغیر کی سب سے قدیم تنظیم انڈین نیشنل کانگریس ہے جو 1885 میں قائم ہوئی، یہ ایک کھلی تنظیم کے طور پر متعارف ہوئی، پھر 1905 میں مسلم لیگ بنی، یہ بھی ایک کھلی تنظیم کہلائی۔ پاکستان بننے کے بعد نیشنل عوامی پارٹی، پیپلزپارٹی، عوامی لیگ وغیرہ قائم ہوئیں، یہ سب تنظیمیں کھلی تنظیموں کی فہرست میں شامل ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تنظیموں میں باقاعدہ انتخابات کا طریقہ رائج ہوا، صرف مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے لوگ ان جماعتوں سے نہ صرف علیحدہ ہوئے بلکہ انھوں نے نئی جماعتیں قائم کی، ان کے جھگڑے ذرایع ابلاغ میں بھی مشہور ہوئے مگر پھر ان میں کچھ دوبارہ اپنی جماعتوں میں چلے گئے مگر کبھی کوئی سنجیدہ تنازعہ نہیں بنا۔
کھلی تنظیموںکا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اقتدار سے محرومی اور انتخابات میں شکستوں کے بعد قائدین پر تنقید ہوئی، قائدین نے اپنی غلطیاں تسلیم کی پھر یہ جماعتیں دوبارہ متحرک ہوئیں۔ برصغیر میں کمیونسٹ پارٹی سے بند تنظیموں کا دور شروع ہوا، ہندو انتہا پسند جماعت راشٹریا سدا سکھ قائم ہوئی، جماعت اسلامی بھی اس طریقے پر چلی، جماعت اسلامی میں مختلف اوقات میں مختلف اہم اور غیر اہم رہنما نہ صرف الگ ہوتے رہے بلکہ اہم تنظیمیں بھی قائم کیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2013 میں کراچی میں الیکشن کے اچانک بائیکاٹ کے نتیجے میں بھی کارکنوں میں تشویش پائی جاتی ہے اور اس کا اظہار کراچی پریس کلب میں ان کے کارکنوں کے ناراض رویے سے بھی ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم بھی ایک تنظیم کے طور پر متعارف ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی اور دنیا میں ایسی دوسری تنظیموں کی تاریخ گواہ ہے کہ ان تنظیموں میں ابلاغ و احکامات کا یک طرفہ عمل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دو طرفہ ابلاغ کے دوسرے چینل موجود نہیں ہوتے اور جو لوگ عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں ان کی ایک طرح کی آمریت قائم ہوجاتی ہے، پھر اگر ایسی تنظیموں میں فاشسٹ رجحانات پیدا ہوجائیں تو صورتحال منفی ہوجاتی ہے۔
سیاسی محققین کا کہنا ہے کہ بعض اوقات درمیانی حیثیت کے عہدیداران اپنے قائدین کو حقائق سے آگاہ نہیں کرتے جس کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی میں بھی کامریڈوں پر مشتمل امراء کا ایک طبقہ بن گیا تھا، کچھ لوگ ایم کیو ایم کے بعض رہنمائوں کے بارے میں بھی ایسی ہی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی یہ خوبی ہے کہ ایک طلبا تنظیم سے سیاسی تنظیم میں تبدیل ہوئی، ایم کیو ایم کی بنیاد اردو زبان بولنے والا نچلا اور متوسط طبقہ تھا پھر ایم کیو ایم کی مقبولیت کے بعد متوسط طبقے اور امرا نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ عظیم دانشور کارل مارکس کے طے کردہ تعریف کے تحت نچلے اور متوسط طبقے کو منظم کرنا اور انھیں نظم و نسق کا پابند کرنا ایک مشکل کام تھا۔
الطاف حسین کا لندن سے 20 سال قیادت کرنا تاریخ کی ایک نئی مثال ہے، مگر ایم کیو ایم کی پالیسی کی بنا پر بہت سے الزامات بھی لگے، ان میں سے کچھ الزامات صحیح بھی ہوں گے اور کچھ غلط بھی مگر اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایم کیو ایم دوسرے صوبوں میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ انسانی حقوق کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹوں میں بھی ایم کیو ایم تنقید کا نشانہ بنی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی گزشتہ ہفتے لندن سے جاری ہونے والی رپورٹ میں ایک بار پھر صحافیوں کے حوالے سے ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ صورتحال ایم کیو ایم کے لیے مناسب نہیں ہے۔ یہ بات بھی کہی جانے لگی ہے کہ ایم کیو ایم کی ہڑتالوں اور یوم احتجاج کی سیاست نے بھی کراچی کے شہریوں میں ایک خاص قسم کی پریشانی پیدا ہوئی، اس صورتحال میں ایم کیو ایم کو ایک زیادہ عوامی تنظیم والی جماعت میں تبدیل کردیا جائے تو پاکستان میں جمہوری نظام مستحکم ہوگا۔ ایم کیو ایم نے فرقہ واریت کے خاتمے، انتہاپسند قوتوں کو چیلنج کرنے، خواتین کے حقوق، صوبائی خودمختاری جیسے اہم معاملات میں انتہا ئی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایم کیو ایم ایک جدید جمہوری سیاسی جماعت کی صورت میں مستقبل کے خطرات کا مقابلہ کرسکتی ہے اور متوسط طبقے کی جماعت کے طور پر پاکستان کے عوام کی امیدوں پر پوری اتر سکتی ہے۔